مسلم لیگ نون والے کہتے ہیں کہ یہ جلسے نہیں ہیں بلکہ صرف ورکرز کنونشن ہیں، جلسے انتخابی مہم میں ہوں گے۔ ابھی مریم نواز بطور چیف آرگنائزر مختلف شہروں میں جا کے وہاں پارٹی عہدیداروں، خواتین، نوجوانوں اور سوشل میڈیا والوں سے اجلاس اور ملاقاتیں کر رہی ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ جب وہ کسی شہر میں جاتی ہیں تو وہاں کے کارکنوں کو بھی مدعو کر لیا جاتا ہے۔
میری رائے میں یہ ورکرز کنونشن جلسوں کے قریب قریب ہی ہیں جنہیں کامیاب بنانے کے لئے مقامی لوگ محنت کرتے ہیں مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب باقاعدہ انتخابی مہم شروع ہوگی تو اس کے بعد جوش وخروش اور شرکت یقینی طور پر کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ جب مریم نواز کھڈیا ں جیسے قصبے میں جار ہی تھیں جو قصور کے نواح میں ہے تو اس سے پہلے عمران خان نے لاہور کے مینار پاکستان پر اپنی پوری طاقت کا ایک مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے حسب روایت اپنے جلسے کو ریکارڈ شرکت کے ساتھ انقلابی اور تاریخی قرار دیا مگر پی ٹی آئی کے تقریبا تمام میڈیا انفلوئنسرز نے اس جلسے کی سوشل میڈیا پر یاکسی پرانے جلسے کی تصویریں شئیر کیں یا فوٹو شاپڈ اورفیک۔
عمران خان کا یہ جلسہ لاہور جیسے شہر میں تھا جہاں وہ مہینوں سے ڈیرے ڈالے ہوئے اور میدان لگائے ہوئے ہیں۔ ہفتے اور اتوار کی درمیان رات افطاری کے بہت بعد تھا یعنی لاہوریوں کے لئے انٹرٹینمنٹ اپنی جگہ تھی اور روزے کی مشکل اور بندش بھی نہیں تھی مگر دوسری طرف مریم نواز کا جلسہ ورکنگ ڈے میں تھا، روزے میں تھا، چھوٹے سے شہر میں تھا، دن کے وقت تھا جس میں شرکا سے زیادہ بلب لگا کر تصویری ماحول نہیں بنایا گیا تھا اوراس کے باوجود ایک زندہ جلسہ تھا کہ لوگوں کو مہنگائی کا سامنا ہے۔ سوال ہے کہ حکومت انتخابات سے پہلے عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوگئی جس کے امکانات واضح ہونے شروع ہو گئے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟
بات صرف کھڈیا ں کی نہیں ہے بلکہ چند روز پہلے میں گوجرانوالہ میں تھا اور اس سے ایک روز پہلے ہی مریم نواز نے جی ٹی روڈ پر ورکرز کنونشن کیا تھا اور اس رو ز وہ وہاں کے معروف بڑے شادی ہال میں پارٹی اجلاسوں سے خطاب کر رہی تھیں۔ پی ٹی آئی گوجرانوالہ کے صدر مجھے بتا رہے تھے کہ نواز لیگ کی کہانی ختم ہوچکی ہے اور ایک چھوٹے سے پارک میں جلسی کی گئی ہے۔
میں نے گوجرانوالہ کے سینئر ترین معروف صحافی شفقت عمران اور دیگر سے صورتحال پوچھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون نے ورکرز کنونشن رکھا تھا اور اس لئے جی ٹی رو ڈ پر ایک پارک کا انتخاب کیا گیا لیکن شائد گوجرانوالہ کی قیاد ت کو خود بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس مہنگائی اور پروپیگنڈے کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں نواز لیگی پہنچ جائیں گے تو وہ سٹیڈیم میں ہی کنونشن رکھتے۔ خیر گوجرانوالہ نواز لیگ کا گڑھ ہے اور اس نے پچھلے انتخابات میں بھی تمام تر دباو اور دھاندلی کے باوجود تمام نشستیں شیر کو ہی دی تھیں۔
جب عثمان بزدار اور چوہدری پرویز الٰہی یہاں سب چیزوں کو مینج کر رہے تھے تب بھی تمام ضمنی انتخابات نواز لیگ نے ہی جیتے تھے۔ بہت سارے لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ گذشتہ برس اپریل میں نواز لیگ کا حکومت لینے اورشہباز شریف کا وزیراعظم بننے کا فیصلہ غلط تھا۔ میں نے گوجرانوالہ میں دیکھا، پولیس اور حساس اداروں کی گاڑیوں کا ایک جلوس گزرا اور پھر تھوڑی دیر بعد دوسری سڑک سے دوسرا جلوس، میں اس ہوٹل میں گیا جہاں میٹنگز ہو رہی تھیں تو وہاں دو ایس پی گیٹوں پر ڈیوٹی دے رہے تھے اور پولیس کی بھاری نفری سیکورٹی۔
صحافیوں نے ہنستے ہوئے مجھے بتایا کہ پہلے وزیر دفاع گزرے تھے اور پھر وزیر داخلہ۔ اب وزیر بجلی و پانی، مریم نواز کے ساتھ، ہال میں موجود ہیں جنہیں یہ سب پروٹوکول دے رہے ہیں جبکہ پہلے یہی پولیس انہیں پکڑنے کے لئے ان کے گھروں پر چھاپے مارا کرتی تھی۔ بات صرف ذاتی اور سیاسی فائدے کی نہیں ہے بلکہ ملک کی بھی ہے۔ ایک کھلاڑی کو اقتدار دینے کے ناکام تجربے کے بعد تجربہ کار اورمدبر سیاستدانوں کی ٹیم کا آنا بہت ضروری تھا تاکہ ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچایا جا سکے، اس کے خارجہ تعلقات کا احیا ہوسکے۔ یہ ملک اور قوم یعنی مجموعی طور پر ریاست کے لئے ہرگز گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔
اس امر سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مریم نواز کراوڈ پلر، ہیں اور وہ عمران خان کو اسی لب ولہجے میں جواب دے سکتی ہیں جس انداز میں انہیں للکارنا ایک سیاسی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے تمام انفلوئنسرز ان کی اسی للکار سے خوفزدہ ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے اس تمام پروپیگنڈے کا جواب اکیلے دے لیتی ہیں جو لاکھوں ڈالرز خرچ کرکے بیرون ملک ہائر کی گئی کمپنیوں کی مدد سے تشکیل دیا جاتا ہے۔ ایک کارکن صحافی کے طور پر میں نے مریم نوازکی والدہ بیگم کلثوم نواز کو بھی اسی انداز میں پرویز مشرف کو للکارتے ہوئے سنا اور دیکھا۔
مریم نوازاپنے والد اور والدہ کی سیاسی خوبیوں کا بہترین کمبی نیشن نظر آ رہا ہے۔ مجھے پرویز مشرف کے مارشل لا میں پنجاب کے چیف سیکرٹری کا کیا ہوا ایک انٹرویو یاد آ گیا جو اس وقت میرے اخبار کے صفحہ اول پر شائع ہوا تھا۔ اس وقت کے چیف سیکرٹری نے کہا تھا کہ نواز لیگ میں دو ہی مرد ہیں، ایک کلثوم نواز اور دوسرا تہمینہ دولتانہ۔ اب بھی مسلم لیگ نون میں بہت ساروں نے بہت سارے عرصے کے بعد مریم نواز کو دیکھ کے بولنا شروع کیا ہے۔ مسلم لیگ نون میں کچھ سنجیدہ اور مدبر رہنما ا س وقت حالات کی سنگینی کے پیش نظر عمران خان سے گفتگو اور ایک قومی ایجنڈے کی تشکیل کی بات کر رہے ہیں۔
اگر ہم ایک مہذب اور جمہوری قوم ہوتے تو اس سے بہتر بات ہی کوئی نہیں تھی کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے بھی بہت برس لڑنے کے بعد میثاق جمہوریت کیا تھا اور ا س وقت بھی ایک میثاق معیشت کی ضرورت ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ جس قسم کا سیاسی میدان عمران خان نے لگا دیا ہے اس میں پر امن بقائے باہمی کی با ت کرنا چاہے وہ کتنے ہی بڑے دل جگراور ویژن کے ساتھ کی جار ہی ہو، چاہے کرنے والے نے خود جیلیں کاٹی اور بے پناہ مشکلات برداشت کی ہوں۔ درد دل سے بات کرنے والے کی کمزوری اور خوف سمجھی جار ہی ہیں۔
بات مریم نواز کے جلسوں کی ہے جنہوں نے اس تاثر کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے کہ عمران خان بے پناہ مقبول ہیں اور اگر انتخابات ہوتے ہیں تو وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ واپس آئیں گے بلکہ میرے خیال میں اگر مریم نواز کے کھڈیاں اور عمران خان کے لاہور کے جلسے کا ہی مقابلہ کر لیا جائے تومسلم لیگ نون ستانوے کی تاریخ بھی دہر ا سکتی ہے۔ مریم نواز اپنی تقریروں میں جوش کے ساتھ ہوش کا بہترین تناسب پیش کر رہی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے اس عرصے میں دس ارب ڈالر کا قرض اور سود واپس کیا ہے۔ تجارتی خسارے کو ختم کیا ہے۔ اس بری صورتحال میں بھی حکومت نے صرف پنجاب میں ساٹھ ہزار آمدن تک کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد خاندانوں کو دس، دس کلو آٹے کے تین تھیلے بالکل مفت فراہم کئے اور تریپن ہزار کی سب سڈی دی۔ یہ جلسے اس تجزئیے کی نفی ہیں کہ نواز لیگ ڈسکارڈ، ہوگئی، ماضی کاحصہ بن گئی اوراب اس کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔ ایسے تجزئیے نوے کی دہائی میں ہوئے اور مشرف دور میں بھی بہت سنے۔