یہ اس دلچسپ درخواست کا خلاصہ ہے جو قومی احتساب بیورو نے ہائیکورٹ میں دائرکی اور اس کا درست، منطقی اور قانونی جواب پایا کہ نیب سیاسی معاملات میں عدالت کو نہ لائے، وہ حکومت سے رجوع کرے کہ قانون پر عمل کروانا انتظامی مشینری کا کام ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ مریم نواز ہوں یا ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد، جس نے برس ہا برس تک ملک پر حکمرانی کی ہے اور وہ احتساب اور جوابدہی سے بالاتر ہے مگر سوال یہ ہے کہ سوال کرنے والوں کی اپنی اخلاقی حیثیت کیا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے نیب کیسز میں مسلم لیگی رہنماوں کی ضمانتوں کی درخواستوں پر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں قانونی حیثیت کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ قانون پارلیمنٹ ہی بناتی ہے اور اس قانون کے تحت نیب کا ادارہ وجود رکھتا ہے مگر سوال اس کی کارکردگی کا ہے، اس کے بنائے ہوئے مقدمات کا ہے جنہیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں طویل مباحث کے بعد دلائل کے ساتھ پولیٹیکل انجینئرنگ قرار دے چکی ہیں۔
ہمارے پی ٹی آئی کے دوست کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ نیب کے چئیرمین کا تقرر مسلم لیگی حکومت نے کیا اور وہ بہت سارے مقدمات جن میں لیگی رہنماوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے ان کی بھاری تعداد بھی سابق ادوار ہی کی ہے مگر اب اس کا جواب یوں ہے کہ اگر کسی فرد کی تقرری ہی اس کی قبولیت کی مجبوری ہے تو پھر پی ٹی آئی حکومت کو چئیرمین الیکشن کمیشن سے ہرگز استعفیٰ نہیں مانگنا چاہئے کیونکہ ان کا تقرر جناب عمران خان نے بطور وزیراعظم کیا ہے۔ میں نیب کی کوریج کرنے والے رپورٹر دوستوں سے اکثر پوچھتا ہوں کہ نیب کی شریف فیملی کے علاوہ کارکردگی کیا ہے، مجھے بتایا جاتا ہے کہ غیر قانونی ہاوسنگ سوسائٹیوں میں لوگوں کے ڈوبے ہوئے اربوں کھربوں واپس ہوئے ہیں، میں نیب کی اس کارکردگی کو سراہتا ہوں مگر میرا سوال اس کی پولیٹیکل سائیڈ سے ہے جس کو جناب شہزاد اکبر کے ذریعے حکومت براہ راست کنٹرول کر رہی ہے، مجھے بتایا جاتا ہے کہ پنجاب سے ہی دو صوبائی وزرا عبدالعلیم خان اور سبطین خان کے خلاف مقدمات بنے اور وہ گرفتار بھی ہوئے۔ میں سوال کرتا ہوں کہ پنجاب کا لیڈر آف دی اپوزیشن ڈیڑھ برس جیل میں رہا، یہ وزرا کتنی دیر رہے اور اب کہاں ہیں، چلیں، انہیں چھوڑیں یہ بتائیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر پانچ کروڑ روپے رشوت لے کر شراب کا ایک لائسنس دینے کا مقدمہ بنا تھا، اس کی تفتیش کہاں ہے اور اب وزیراعلیٰ اس مقدمے میں پیش کیوں نہیں ہوتے؟
کیا یہ سوالات جائز نہیں کہ پٹرول مافیا نے لمبی دیہاڑی لگائی تو نیب کہاں تھا۔ ادویات کی قیمتوں میں دو سو سے پانچ سو فیصد تک اضافہ کر دیا گیا بلکہ جو بھی مشیر صحت آیا اس کے دور میں ایک سے دو مرتبہ بڑے اضافے ضرور ہوئے تو نیب نے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا اور سب سے بڑ ھ کر ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے چینی مافیا کے لیپ ٹاپس اور موبائل فونوں سے کارٹلائزیشن کے ثبوت اکٹھے کر لئے ہیں تو یہ کام نیب کیوں نہیں کر سکا۔ جب اسے گھی کی قیمتوں میں ہونے والااضافہ تک نظرنہیں آتا تو پوچھنا بنتا ہے کہ کیا نیب محض نون لیگ اکاونٹیبیلیٹی بیورو کے طور پر کام کر رہاہے۔ اسے بلین ٹری سکینڈل کے بارے کچھ خبر نہیں۔ یہ لاہور کی انیتس ارب روپوں سے بنی میٹرو کی تحقیقات کرتا ہے مگر پشاور کی ایک سو تیس ارب سے بنی میٹرو کی تحقیقات پر ہاتھ بندھوا کے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ذاتی کاروباروں اور خاندانی اثاثوں پر نواز شریف کی بیٹی سے پوچھتا ہے اور بار بار پوچھتا ہے، یہ شہباز شریف کی بیمار بیوی کو بھی استثنیٰ نہیں دیتا، یہ اس کی بیٹی کو بھی عدالت میں کھینچ لاتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ضرور لائے کہ ہمارے اس دور میں بہنوں، بیٹیوں کے نام پر عزت اور غیرت والا سوال ہی باقی نہیں رہا مگر پھر یہ وزیراعظم کی بہن کو کیوں نہیں پوچھتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم پسندیدہ اور ناپسندیدہ اشخاص کے گرد گھوم رہے ہیں، ہم نے نہ ادارے بنائے ہیں اور نہ ہی کم از کم اس صدی میں بنتے نظر آتے ہیں۔
جب نیب یہ کہتا ہے کہ مریم اس کے پاس اکیلی آئے، اپنے ساتھ جلوس لے کر نہ آئے تو مجھے اس کا خوف اور ہراسگی سمجھ میں آتی ہے۔ اسے علم ہے کہ وہ پاکستا ن میں سیاسی انتقا م کی کیا تاریخ لکھ رہا ہے کہ مورخ کا قلم بہت ظالم ہوتا ہے اور وہ سب کچھ لکھتا چلا جاتا ہے۔ ایوب خان کے دورمیں فاطمہ جناح کے ساتھ کیا ہوا اور ضیاءالحق کے دورمیں بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا ہوا، مورخ نے سب کچھ پکی سیاہی سے لکھ رکھا ہے۔ اس امر پر غیر جانبدار حلقوں کا اتفاق ہے کہ شریف خاندان کی پیشیاں اور گرفتاریاں ہی نہیں بلکہ ضمانتیں اور رہائیاں بھی سو فیصد سیاسی ہیں اور جب یہ سب کچھ سیاسی ہو گا تو اسے سیاسی طورپر ہی نمٹاجائے گا۔ میں نیب کی درخواست کو دیکھتا ہوں تو عشروں پہلے ایک نہتی لڑکی بے نظیر بھٹو پر لکھے ہوئے حبیب جالب کے اشعار ایک مرتبہ پھر زندہ حقیقت بن کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ میں مریم
نوازکی پچھلی پیشی میں مسلم لیگی کارکنوں سے کہیں زیادہ پولیس ہلکاروں کو پتھر برساتے دیکھا ہے اور وہ ایسی سنگ باری تھی کہ اس نے بلٹ پروف گاڑی کو بھی ڈیمیج کردیا تھا۔ ہمارے کچھ ارب پتی ہوجانے والے دانشوروں نے ہمیں ایک نئے پاکستان کے خواب دکھائے تھے اور کہا تھا کہ ان کا بہت سارے کوششوں کے ساتھ لایا ہوا نیا دور پرانے تمام ادوار کی نفی ہوگا، نئی شاندار روایات لکھی جائیں گی مگر میں یہاں پریشان ہوں کہ ہم کولہو کے بیل کی طرح آنکھیں بند کئے ایک ہی دائرے میں چکر لگارہے ہیں۔ وہی بھینس چوری جیسے مقدمے ہیں، کہیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کا جرم ہے اور کہیں ہیروئن فروشی کا الزام، کہیں مرغ کڑاہی کھانے پر کورونا پھیلانے کا مضحکہ خیز مقدمہ ہے۔ وہی جلاوطنیاں ہیں جو آمریت میں ہواکرتی ہیں۔ ہم ہر دس، بیس برس کے بعد ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے پر پتھر برسانے والی حالت میں پہنچ جاتے ہیں بلکہ یوں لگتا ہے کہ ہم پتھر کے زمانے سے باہر ہی نہیں نکلے، ہمارے سروں پر انہی پتھروں نے برستے رہنا ہے کہ ہم نے انہی کو خدا بنا رکھا تھا اور اب تلک بنا رکھا ہے۔