کیا آپ دونوں اطراف اپنے عوام کو سہانے خواب دکھانے والے دعوؤں اور بیانات سے ہٹ کر بتا سکتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا مستقبل کیا ہے اور کیا یہ ہم پاکستانیوں (یا کشمیریوں) کی مرضی اور خواہشات کے مطابق حل ہوسکتا ہے۔ میں اس فلسفے سے اتفاق کرتاہوں کہ رائے عامہ بنانے والے لکھاریوں کو رجائیت پسنداورمثبت رہناچاہئے تاکہ ہمت اور حوصلہ برقرار رہے جیسا کہ بہت سارے موٹیویشنل سپیکرز دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ جیسا سوچتے ہیں، ویسا ہی ہوجاتا ہے مگرکیا یہ عملی زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ آپ رجائیت پسند ہیں کہ امتحان میں کامیاب ہوجائیں گے مگر آپ امتحان کی تیاری ہی نہیں کرتے تو کیا آپ کی رجائیت پسندی آپ کوامتحان میں کامیاب کر سکتی ہے، ہرگز نہیں، لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رجائیت کی بجائے حقیقت پسند ہوجائیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت ساری ڈیکلئیرڈاوران ڈیکلئیرڈ جنگوں کے باوجود کشمیر حاصل نہیں کر سکے، ہمارے پاس کشمیر کا وہی حصہ ہے جو قبائلیوں نے قائد اعظم کے حکم کی پاسداری کرتے ہوئے از خود فتح کر لیا تھا حالانکہ وہ حکم اس وقت فوج کے انگریزسربراہ کو دیا گیا تھا اور اس نے یہ حکم ماننے سے انکار کر کے ایک دونوں ملکوں کے درمیان ایک تنازعے کو طویل عمر عطا کر دی تھی۔
ایک تاثریہ بھی ہے کہ ماضی میں جو کچھ مسئلہ کشمیر کے لئے ہوچکا، اس کا عشر عشیر بھی اب مستقبل میں ہوتا ہوا نظرنہیں آتا۔ ہم نے اقوام متحدہ کے عالمی سفارتی محاذ سے ٹینکوں اورتوپوں والے محاذ تک آزما کے دیکھ لئے مگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر اڑا رہااور موجودہ دور میں اس نے مقبوضہ کشمیر کی اپنے آئین میں متنازع حیثیت بھی ختم کر دی۔ آئینی، قانونی اور سفارتی سطح پر یہ صورتحال کسی جنگ میں شکست سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے اور اسے بجا طورپربروزن سقوط ڈھاکہ، سقوط کشمیر قرار دیا جا رہا ہے۔ میں آج سڑکوں پرنکلنے والے بہت سارے کشمیری اورنان کشمیری مظاہرین کے جذبات کی قدر کرتاہوں کہ وہ یوم یکجہتی کشمیر منانے کی روایت کو تیسرے عشرے میں لا رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ عالمی برادری نے ہمارے دو، تین ہفتے تک آدھاآدھا گھنٹہ گھروں اور دفتروں کے باہر کھڑے ہونے کا کتنا نوٹس لیا، کتنا احترام کیا کہ ہم اب کسی مزید ایسے اخلاقی دباوکی بات کریں۔ میرے معصوم جذباتی مظاہرین کہتے ہیں کہ کشمیر قراردادمذمت سے نہیں بلکہ ہندوکی مرمت سے آزاد ہو گامگر مجھے معذرت کے ساتھ کہنا ہے کہ گرتی ہوئی معیشتوں میں اب مرمت کے لئے وار یا پراکسی وار بھی کوئی قابل عمل آپشنز نہیں رہے۔ اپنے ہمسائیوں میں بھارت جیسے متعصب ممالک کو رکھنے والی ترقی پذیر ریاستوں کے لئے محض اپنے دفاع کی خاطر پرامن افواج کا معاشی بوجھ ہی کمرتوڑہوتا چلاجا رہا ہے تو ایسے میں جنگ جیسی عیاشی کون کر سکتاہے، ہاں، سرحدی جھڑپیں اورمحدود علاقے میں تصادم مختلف باتیں ہیں جیسے لائن آف کنٹرول پر ہلکی یا بھاری مشینری سے فوجی و غیر فوجی مراکز کو نشانہ بنالیا جانا یا کارگل جیسی کوئی مہم جوئی، جو یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے دشمن ملک ہیں اوریہ دشمنی ختم ہونے والی نہیں ہے۔
میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانیوں کی بھاری اکثریت اپنی افواج کے پروفیشنل ازم پر بھروسہ رکھتی ہے اور یہ بھی کہ پاکستانی افواج کے جرنیل اور جوان، اپنی طاقت جرات اوربہادری میں بھارت کے دس، دس جرنیلوں اورجوانوں پر بھاری ہیں مگر سوال پھر یہی ہے کہ کیا جنگ کوئی آپشن ہے اور اگر جنگ کوئی آپشن نہیں ہے توپھر ہمارے پاس یا کشمیریوں کے پاس راستہ کیا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بھارتی آئین میں ترمیم کے بعد، کچھ ہی عرصے میں، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ارب پتی سرمایہ کاروہاں زمینوں کی خریداری شروع کردیں گے۔ ہندو پنڈتوں نے بھی جموں میں واپسی کے لئے دباو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ اب بھارتی شہری مقبوضہ کشمیر میں اسی طرح ملازمتیں حاصل کرسکتے ہیں جیسے بھارت کی کسی بھی دوسری ریاست میں اور یوں وہاں آبادی کے ساتھ ساتھ دولت اورطاقت کا توازن بھی بدلنے جا رہا ہے جو مسئلے کو حل کے لئے مزیدمشکل، پیچیدہ، گنجلک کردے گا۔ گجرات کے قصائی نریندر مودی کودو ہی طریقوں سے قابو کیا جا سکتا تھا جن میں سے ایک سیاسی اورد وسرا سفارتی ذریعہ تھا۔ میں نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے دانشور رہنمااٹل بہاری واجپائی کے پاکستان کے دورے کے لمحہ لمحہ کی کوریج کی ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ وقت تھا جب بھارت اعلان لاہور کے بعد مسئلے کے ایسے حل کی طرف آسکتا تھا جو دونوں حکومتوں کی فیس سیونگ ہوتی اور ہم خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیتے مگرکارگل کی سیاسی سیاق و سباق سے باہر غیرمنطقی اور غیر منظورشدہ مہم جوئی نے تمام سیاسی اورسفارتی کوششیں تباہ کر کے رکھ دیں۔ پاکستان اور بھارت کی سیاست کے ایک طالب علم کے طور پرمیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر پر اگر کوئی جماعت بڑا قدم اٹھا سکتی تھی وہ کانگریس نہیں بلکہ بی جے پی ہی تھی کیونکہ کانگریس کسی بڑے فیصلے پر انتہا پسند ہندووں کے ردعمل کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تھی۔ نریندرمودی کو آپ انتہا پسندی کے حوالے سے ذہنی یا نفسیاتی مریض بھی کہہ سکتے ہیں، وہ ایک انتہا پر بھی جا سکتا تھا اور اسے اپنی قوم کے سامنے شائننگ انڈیا کے نعرے میں پیش کر سکتا تھا مگرپھر یوں ہواکہ دوسری انتہا کی طرف چلا گیا کیونکہ وہ سیاستدان ہے اور وہ اپنی قوم کو کچھ کر کے دکھائے گا تو تب ہی نوکری میں توسیع پائے گا۔
ہم سب کی امیدیں اب صرف اور صرف کشمیریوں سے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیری کتنی دیر تک پاکستان کی عملی مدد کے بغیر مزاحمتی تحریک کو برقرار رکھ سکتے ہیں، کب تک اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں کی قربانیاں دے سکتے ہیں۔ کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی ہی نہیں بلکہ دیگر تمام ذرائع سے مدد میرے یقین، عزم اورایمان کا حصہ ہے مگر عالمی سطح پرمعاشی جکڑبندیوں کا شکار ہونے کے بعد ہم کہاں تک کشمیریوں حریت پسندوں کی عملی مدد کر سکتے ہیں اس پرفنانشل لاز کے ایکسپرٹس ہی روشنی ڈال سکتے ہیں مگر مجھے یہ کام ایک کار ثواب لگنے کے باوجود بھی دن بدن مشکل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ میری یہ حقیقت پسندی، میرے نسیم الحق زاہدی جیسے دوستوں کی رجائیت پسندی سے شکست کھاجائے جنہوں نے حال ہی میں کشمیر۔ پاکستان کی شہ رگ، کتاب تحریر کر کے اپنا فرض اور قوم کا قرض ادا کیا ہے، کہتے ہیں کہ ہمیں بھارت کو باور کروانا ہے کہ ہم کشمیر کی آزادی کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ میں اس قومی ایشو او ر اس قومی دن پر جناب عمران خان کی محض تقریروں پرمبنی کاوشوں جیسے موضوعات پر نہیں جانا چاہتا۔ میں پورے خلوص سے دعا کرتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر محض ہمارے مطالعہ پاکستان کا مضمون ہی بن کر نہ رہ جائے اور آج یوم یکجہتی کشمیر کا فائدہ صرف بل بورڈ اور بینرز لکھنے والے پینٹروں سمیت مال بنانے والوں کو ہی نہ ہو بلکہ کشمیریوں کو بھی ہو۔