لاہور میں جو ہو رہا ہے وہ اچھا نہیں ہو رہا۔ پھولوں اور شاعروں کے اس شہر میں دوسرے صوبوں سے آئے ہوؤں کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہیں، وہ یہاں کی پولیس پر پٹرول بم پھینک رہے ہیں، انہوں نے صوبائی دارلحکومت کی مصروف ترین سڑک کو نوگو ایریابنایا ہوا ہے اور بہت سارے شرفا جہاں رہتے ہیں اس علاقے کو نوگوایریا۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ جب ان گروہوں نے پولیس کے ساتھ مقابلہ کیا تو اس کے بعد تحریک انصاف کے سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے ان پولیس افسران اور اہلکاروں کی ذاتی تصویریں اور گھروں کے ایڈریس شیئر کرنے شروع کر دئیے اور کہنا شروع کر دیا کہ ہمارے کارکن وہاں پہنچ رہے ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ مخالفین کے گھروں تک پہنچنے کی روایت بہت برس پہلے قائم ہوئی تھی جب جماعت اسلامی نے اڈہ پلاٹ پر ایک جلسی کی تھی اور میں نے بطور رپورٹراس کی کوریج کی تھی۔
عمران خان نے بھی لاہور رائے ونڈ روڈ پراپنے انہی سیاسی مخالفین کے ساتھ کچھ برس پہلے یہی کام کیا تھا۔ یہاں دو باتیں بہت اہم ہیں، پہلی یہ کہ جو سیاست میں اختلاف، رائے کا اختلاف ہوتا ہے اسے ذاتی اور خاندانی دشمنی نہیں بنایا جاسکتا اور دوسری یہ کہ جو سرکاری ملازم کسی آپریشن میں حصہ لیتا ہے وہ اپنی ڈیوٹی کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا تعلق اس کے گھر، محلے یا خاندان سے ہرگز نہیں ہوتا۔ یہ کسی بھی معاشرے میں ریڈ لائنز ہوتی ہیں اور جب عبور ہوتی ہیں اس کے بعد سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔
جب ایک ڈی آئی جی سمیت درجنوں پولیس والے شدید زخمی ہو کے ہسپتال پہنچے تو جارحیت کی شدت کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجئے کہ سروسز ہسپتال میں پہنچنے والے زخمیوں میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی تعداد محض دس فیصد تھی۔ بات بڑھتی چلی جار ہی تھی۔ زمان پارک کے قریب نہر سے گزرنے والے باوردی پولیس افسران کو نشانہ بنایا جار ہا تھا۔ سرکاری گاڑیوں کو توڑ کے نہر میں پھینکا جا رہا تھا اور پھر انہیں نکالنے پر بھی ڈنڈے نکالے جا رہے تھے۔ یہ پوری تصویر تھی کہ لاہور کو لاہور نہیں رہنے دیا جا رہا جس پر پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے پریس کانفرنس کی۔
محسن نقوی سے اختلاف رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہ ایک بہت دھیمے مزاج کا سلجھا ہوا نوجوان ہے۔ یہ ایک بڑے میڈیا نیٹ ورک کا مالک ہے مگر نہ اسے سکرین پر آنے کا شوق ہے اور نہ بڑھکیں مارنے کامگر محسن نقوی کو پریس کانفرنس کرنی پڑی اور کہنا پڑا کہ جو ہاتھ پولیس کی طرف اٹھے گا وہ توڑ دیا جائے گا۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ محسن نقوی کو یہ سب کچھ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ اگروہ جواب نہ دیتے تواپنے صوبے اور شہر کی محبت کا قرض ادا نہ کرتے، بطوروزیراعلیٰ اپنا فرض ادا نہ کرتے۔ محسن نقوی کی اس شہر سے محبت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے اس شہر کو آواز دی جو اس سے پہلے گونگا تھا۔
میں حالات کو دیکھتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اپنے گماشتوں کے ذریعے پاکستان کو (خاکم بدہن) تباہ وبرباد کرنا چاہتی ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے لاہور میں آگ لگائی جائے، اسے جلایا جائے کہ اگر لاہور نفرت، تعصب کی آگ میں جل اٹھا، یہ نوے کی دہائی کاکراچی بن گیا تو باقی کچھ نہیں بچے گا۔ ابھی لاہور محبت اور رواداری کا شہر ہے۔
اس کے بازار اور محلے دوسرے صوبوں بالخصوص خیبرپختونخوا سے آنے والوں سے بھرے پڑے ہیں، ان کے ساتھ کاروبار، رزق، گھر اور عزت تقسیم ہو رہی ہے مگر کسی لہوری کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ پھولوں کے شہر میں خوشبوئیں ہی بکھرتی رہیں۔ کوئی شخص یا گروہ اپنے ذاتی، گروہی اور سیاسی مفادات کے لئے اس چمن کو نذر آتش نہ کرے۔ لاہور کا سیاسی درجہ حرارت بہت اوپر جا چکا ہے اور اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
میں سوال کرتا ہوں کہ عمران خان مسلسل لاہور میں کیوں موجود ہیں حالانکہ وہ جس وقت اقتدار میں تھے اس وقت وہ صبح اسلام آباد سے لاہور آتے تھے تو شام ہوتے ہی واپس بنی گالہ لوٹ جاتے تھے مگر اب انہوں نے یہاں مسلسل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ میرے دوست کہتے ہیں کہ تم یہ بات مت کرو، پاکستان سب کا ہے اور ہر کوئی ہر جگہ رہ سکتا ہے مگر میرا جواب ہے کہ ہمیں علاقائی اکائیوں اور شناختوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔
میں نے پہلے بھی دلیل دی اور دوبارہ بھی دیتا ہوں کہ اگر پنجابیوں کے ٹولے اسی طرح پشاور، چارسدہ اور بنوں میں علاقوں کو نوگوایریاز بنا کے بیٹھے ہوں، وہاں پولیس مقابلے کر رہے ہوں اور سیاسی نعرے لگا رہے ہوں تو ان کے بارے مقامی لوگوں کی طرف سے کیا سوچا جائے گا، کیا کہا جائے گا اور ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیاسی رہنماؤں کو اپنی حدود میں رہنا ہوگا، انہیں آئین اور قانون کو تسلیم کرنا ہوگا۔ عمران خان کو عدالتوں میں اسی طرح طاقت کا مظاہرہ کئے بغیر پیش ہونا ہوگا جس طرح وہ لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے، کیا حرج تھا کہ وہ اسی طرح اسلام آباد کی عدالت میں بھی حاضر ہوجاتے مگر ا س موقعے پر طاقت کا مظاہرہ تاریخ کا ایک سیاہ باب بن گیا ہے۔
مجھے پنجاب پولیس، ایف آئی اے اور دیگر اداروں سے کہنا ہے کہ وہ ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف سخت کارروائی کریں جو ملک لیاقت جیسے پروفیشنل آفیسر کی تصویریں شیئر کررہے ہیں یا ملک منیر جیسے ایک اہلکار کی۔ پی ٹی آئی کے لوگ حساس اداروں کے افسران کی تصویریں بھی شیئر کر رہے ہیں۔ مجھے فواد چوہدری جیسے رہنماؤں سے بھی کہنا ہے کہ وہ وکلااور ججوں کی برادری سے ہونے کی وجہ سے خصوصی تحفظ رکھتے ہیں مگر کیا انہیں یہ زبان زیب دیتی ہے جو انہوں نے نگران وزیراعلیٰ کے بارے میں اپنی ٹوئیٹس میں استعمال کی۔ یہ صرف چوہدری پرویز الٰہی کا ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عمران خان کو پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف لے جار ہے ہیں۔
فواد چوہدری کے مشوروں سے عمران خان نہ صرف خود کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ اس شہر کو بھی جس نے انہیں کرکٹ سکھائی، جس میں ان کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کے دن گزرے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ انہوں اس شہر میں تعمیر وترقی کے لئے لگنے والی ایک ایک اینٹ کی مخالفت کی چاہے وہ میٹرو کی صورت تھی یا اورنج لائن کی صورت، کسی فلائی اوور کی صورت تھی یا کسی سگنل فری کوریڈور کی صورت۔ عمران خان نے دشمن کا ہاتھ بنتے ہوئے فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن سمیت ہر ادارے کی ساکھ تباہ کی ہے۔ اب وہ یہاں اپنے پیروکاروں کے ذریعے نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں۔
لہوریوں کو ایک دوسرے کا ذاتی دشمن بنا رہے ہیں۔ وہ خود لاہور کے الطاف حسین اور پی ٹی آئی کو لاہور کی ایم کیو ایم بنانا چاہ رہے ہیں۔ وہ لوگوں کے گھروں تک پر حملوں کی راہ دکھا رہے ہیں مگر لاہور والوں نے اسے نوے کی دہائی کا کراچی بننے سے بچانا ہے۔ داتاکی اس نگری کومحبت اور امن کو گہوارہ رکھنا ہے۔ میرا لاہور بچاؤ کہ اگر لاہور جلا تو پاکستان جل جائے گا۔