کیا حکومتی ارکان اسمبلی کو بھی یہ سوال نہیں پوچھنا چاہئے کہ جب ان کا لیڈ ان کے اعتقاد اور پروپیگنڈے ہی نہیں بلکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ صادق اور امین بھی ہے تووہ اپنے اقتدار کے چوتھے برس ایک ایسا منی بجٹ کیوں لا رہا ہے جس میں آئی ایم ایف جیسے ساہو کار سے صرف ایک ارب ڈالر (یعنی ایک سو اسی ارب روپوں کے لگ بھگ رقم) لینے کے لئے اسے اپنے عوام کی جیب پر ساڑھے تین سو ارب سے زائد کا ڈاکہ ڈالنا پڑے گا اور دو سو ارب کے لگ بھگ ترقیاتی بجٹ بھی ختم کرنا پڑے گا۔
وہ لیڈر صادق اور امین ہی نہیں بلکہ ان کی نظر میں بہت ہینڈسم اور ٹیلنٹڈ بھی ہے، وہ شوکت خانم اور نمل جیسے منصوبے کامیابی سے چلا چکا ہے۔ اس پر سوال یہ ہے کہ لوگوں کی جیبوں سے اربوں روپے نکلوا کر اپنے منصوبے بنوانے والا حکومت کے لئے ٹیکس جمع کرنے میں کیوں ناکام ہے حالانکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا بھر میں یا کم از کم پاکستان میں لوگوں کی جیبوں سے رقوم نکلوانے میں سب سے زیادہ ماہر ہے۔ وہ جمع تفریق کو بہتر طور پر جانتا ہے لہٰذا اسے بتانا چاہئے کہ اگر وہ چھ سو ارب روپوں تک کی کمائی اور بچت کر سکتا ہے تو اسے دو سو ارب روپے کا قرض لینے کی کیا ضرورت ہے؟
کاشف انور، فرینڈز آف بزنس اینڈ اکنامک ریفارمز کے سربراہ اور لاہور چیمبر کے سابق نائب صدر ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ بات صرف آئی ایم ایف کی نہیں، ہمیں اگر دنیا بھر سے جو امداد ملتی ہے اوراس کے نتیجے میں ہم جتنے بھی پروگرام چلاتے ہیں، اگر ہمیں ان کو چلانا ہے تو ہمیں آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنا ہوگا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تاثر دینے کی ضرورت بھی اس لئے پیش آئی کیونکہ ہماری ناقص کارکردگی کے باعث ہماری اقتصادی حالت بدترین ہوچکی، بین الاقوامی ادارے بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کمانے کے قابل نہیں، یہ قرض اور بھیک کے ذریعے ہی چل سکتے ہیں اور اگر انہوں نے قرض نہ لیا تو یہ ڈیفالٹ کر جائیں گے۔
وہ یہ سمجھنے میں اس لئے بھی حق بجانب ہیں کہ ہم نے ٹیکس کلیکشن کی بیس فیصد سالانہ کی رفتار سے ترقی اور اضافے کو بھی بریک لگا دی ہے۔ میں حکمرانوں کا یہ دعویٰ تسلیم کر لیتا کہ ہماری بری حالت کی وجہ کورونا ہے مگر میں ان اعداد و شمار کا کیا کروں جو بتاتے ہیں کہ کورونا آنے سے پہلے ہی پاکستان کی ترقی کی شرح پونے چھ فیصد سے کم ہو کر ڈیڑھ فیصد پر آ چکی تھی۔ سو ا ب تین طریقے ایسے تھے جن سے ہم منی بجٹ سے بچ سکتے تھے، ایک یہ کہ ہم اپنی ٹیکس کلیکشن میں اضافہ کرتے مگر یہ اسی صورت ہوتا اگر ملک میں بزنس ایکٹی ویٹی ہوتی اور ہمارا ٹیکس جمع کرنے کا نظام مزید بہتر بنایا جاتا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
ان تین برسوں میں ہمارے تین سیکٹرز نے ہی ترقی کی، ایک رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہے جس میں حکومت نے کالے دھن کی اجازت دی۔ یہ ترقی اور خوشحالی کی منفی صورتیں ہیں کہ ہم کالے دھن سے کسی سیکٹر کو آگے بڑھائیں اور یہ اس لئے بھی خوش کن نہیں کہ پلاٹ خرید لینا ملکی تعمیر و ترقی میں موثر کردار ادا نہیں کرتا بلکہ بہت سارے وہ شعبے جہاں نقصان ہو رہا ہو مگر وہ روزگار دے رہے اور جی ڈی پی میں حصہ ادا کر رہے ہوں وہ اس شعبے میں آجاتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کا پیسہ محفوظ مگر روزگار اور پیداوار ختم ہوجاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے ترقی کی ہے وہاں اسی سے جڑے کنسٹرکشن کے شعبے کی دوسو فیصد تک مہنگی ہوتے ان پٹس کی وجہ سے کمر ٹوٹ گئی ہے اور اب ایک عام آدمی اپنے وسائل سے گھر بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دوسرے دونوں شعبے فارماسیوٹیکل اور ٹیکسٹائل رہے۔ اول الذکر کی قیمتوں میں ایک ہزا ر فیصد تک اضافہ ہوا جو غریبوں کے لئے جان لیوا تھا جبکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چلانے پر فائدہ ہوا جو عارضی نوعیت کا تھا۔
دوسرا طریقہ یہ تھا کہ حکومت اپنی گورننس بہتر کرتی اور خسارے والے اداروں کا خسارہ ختم کیا جاتا یا ان اداروں سے جان چھڑوا لی جاتی مگر دونوں کام ہی نہیں ہوئے۔ تیسرا طریقہ یہ تھا کہ حکومت اپنے اللے تللے ختم کرتی۔ حکومت صحت کارڈ کے سیاسی شعبدے پر تین برسوں میں چار سو ارب روپے انشورنس کمپنیوں کے حوالے کرنے جا رہی ہے جس سے نہ کوئی سرکاری ہسپتال تعمیر ہو گا او رنہ ہی حکومتی اثاثوں میں اضافہ ہو گا۔
اسی ہیلتھ کارڈ کی تشہیر پر دو ارب اسی کروڑ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں حالانکہ یہ لوگ تھے جو سابق حکمرانوں پر تشہیر کے الزامات لگاتے تھے مگر اب ان سے دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ ابھی خبر آئی ہے کہ پنجاب حکومت اپنے وزیروں، مشیروں کے لئے نئی گاڑیاں خرید رہی ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے وزیر، مشیر پہلے ہی ارب پتی ہیں، وہ اپنی کئی کئی کروڑ کی گاڑیوں پر جھنڈے لگا لیں، نئی گاڑیاں خرید کر انہیں دینے کی کیا ضرورت ہے، ہاں، اگر کوئی وزیر اتنا غریب ہے کہ اس کے پاس تیس، چالیس لاکھ کی گاڑی بھی نہیں تو اس کی ضرور مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ آسانی سے موومنٹ کر سکے۔
ایک بڑی تباہی تویہ ہو گی کہ حکومت سیلز ٹیکس کی رعائتیں ختم کر دے گی جو اس وقت بہت سارے شعبوں کو محض اس لئے دی جا رہی ہیں تاکہ ان کی مدد ہو سکے، ان کی قیمتیں کنٹرول میں رہ سکیں۔ حکومتی بدانتظامی کی انتہا یہ ہے کہ وہ کھاد کی قیمتوں کو بھی کنٹرول نہیں کر سکی اور کھاد مافیا نے چینی مافیا کی طرح کھاد کو خوب بلیک کیا۔ اب سیلز ٹیکس بڑھنے کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ جان لیوا مہنگائی کو جواز مل جائے گا۔
اس حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ اس نے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے تعلق رکھنے والوں کو پاکستان کے فیصلہ سازعہدے سونپ دئیے اور انہوں نے بہت ساری جگہوں پر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے اپنے سابق اداروں سے تعلق نبھایا او رپاکستان کو اکنامک وینٹی لیٹر پر پہنچا دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی آکسیجن سے ہی سانس چل رہی ہے ورنہ اس حکومت کی نااہلی نے اقتصادی بدن کومکمل طو ر مفلوج کر دیا ہے۔ یہ منی بجٹ اکہتر کے سانحے کے بعد بدترین قومی ناکامی ہے۔