میں نے پروفیسر صاحب سے کہا، جماعت اسلامی پی ڈی ایم سے آگے نکل گئی ہے، اس نے اپنی احتجاجی تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع کر لیا ہے۔ وہ طنزیہ مسکرا ئے، بولے، پہلامرحلہ کب شروع اورختم ہوا۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھالہٰذا میں نے بتایا کہ جماعت اسلامی پنجاب کے امیر جاوید قصوری نے پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دوسرے مرحلے کے آغاز کا اعلان کیا اوربونیر کے بعد گوجرانوالہ میں بھی کل پرسوں ایک جلسہ ہوا ہے۔ پروفیسر صاحب اکتاہٹ سے بولے، تم جماعت اسلامی کی تحریک پر بات کر کے وقت ضائع کرنا چاہتے ہو۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ جماعت اسلامی پنجاب کاامیر کون ہے، ایک دومرتبہ تمہارے پروگراموں میں ہی دیکھا ہے۔ مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ سراج الحق اپنے تئیں حکومت، اپوزیشن دونوں سے لڑ رہے ہیں مگران سے کوئی نہیں لڑ رہا۔
میں نے کہا، فرض کریں جماعت اسلامی اپنی تنظیم اور کمٹ منٹ کے ساتھ ایک اچھی تحریک چلالیتی ہے تو اس کا فائدہ پی ڈی ایم کو ہو گا یا حکومت کو۔ پروفیسر صاحب ہنس پڑے اور بولے اب تم سوال سے ہی اندازہ کرلو اگر کسی بندوق بارے یہی علم نہ ہوکہ اس کی گولی کس طرف جائے گی تو ایسا اسلحہ کس کام کا۔ تم جن جلسوں کی بات کر رہے ہو ان کی اجازت بھی مل گئی، کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کاپرچہ بھی نہیں ہوا، نہ نیکٹا نے دہشت گردی کاتھریٹ دیا نہ ہی بھارت نے حملے کی دھمکی، آگے تم خود سمجھدار ہو۔ جماعت اسلامی عشروں سے تیسری قوت بننا چاہ رہی ہے اور اس جنون میں جہاں مسلسل غلط فیصلے ہو رہے ہیں وہاں بدقسمتی یہ بھی ہے کہ وہ عمران خان والے تمام حربے استعمال کرنے کے باوجودنہ متبادل قوت بن سکی نہ ہی کسی بڑی جماعت کا اتحادی ہونے کا فائدہ اٹھا سکی۔ جماعت والے ہیں اچھے لوگ مگر سیاسی فراست سے عاری بھی، اب دیکھو، ضیاءالحق سے وزارتیں لیں پھر فوراً چھوڑ دیں یعنی تاریخ کی کالک بھی منہ پر مل لی اور فائدہ بھی نہ اٹھا سکے۔ اسٹیبشلمنٹ کے کہنے پر نواز شریف کے ساتھ آئی جے آئی بنایا، جب نواز شریف سیاسی قوت بنا تو اشارہ ملنے پر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لی۔ پی ٹی آئی کا ساتھ دیا تو سید منور حسن، عمران خان کے کامیاب جلسوں پرمبارک باد دینے خود عمران خان سے بھی پہلے ان کے گھر پہنچ جاتے تھے مگر جب پی ٹی آئی وفاق میں حکومت میں آنے لگی تو صوبائی اتحاد بھی ختم کر دیا۔ یہ وہ نانی ہے جو بار بار خصم کرنے کا غلط فیصلہ کرتی ہے اور پھر ہنی مون سے پہلے ہی چھوڑ دیتی ہے۔ خصم کرنے کامزا بھی نہیں لیتی، چھوڑ دینے پر طعنے بھی سہتی ہے۔
میں نے پروفیسر صاحب سے عرض کی، میں ان اچھے اورمعصوم لوگوں کا خیر خواہ ہوں، مجھے بتائیے کہ یہ کیا غلطی کر رہے ہیں اگر ایک کھلاڑی کو ایک موقع مل سکتا ہے تو نیک اور دیانتدار سراج الحق کو کیوں نہیں۔ پروفیسر صاحب بولے کہ انہیں ذاتی ایمانداری کے ساتھ ساتھ سیاسی ایمانداری کو بھی اپنانا ہو گاقوم انہیں مشکوک نظروں سے دیکھتی ہے جیسے سراج الحق پاناما لیکس کے نام پر سپریم کورٹ پہنچ گئے اورنواز شریف جس کا نام بھی پانامہ لیکس میں نہیں تھا اسے نااہل کروا کے سو گئے جبکہ اپنے موقف میں کھرے اور ایماندار ہوتے توڈٹ جاتے کہ اصل چار، پانچ سو کو بھی پکڑو۔ انہیں اپنی رینٹ اے جماعت، والی شہرت ختم کرنا ہو گی۔ میں نے پروفیسر صاحب کو بتایاکہ بے نظیر حکومت کے خلاف جب دھرنے دئیے جا رہے تھے تو میں جماعت اسلامی کے ساتھ مری روڈ راولپنڈی پر بطور صحافی موجود تھا۔ نوے کی دہائی میں ہر حکومت گرانے کے لئے جماعت اسلامی کی مدد لی جاتی تھی مگر اس کے عوض اسے کچھ نہیں ملتا تھا۔ پروفیسر صاحب مسکرائے اور بولے، تم نوے کی دہائی کی بات کرتے ہوئے، سقوط ڈھاکہ کے وقت مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کے لئے جماعت اسلامی کی تنظیمیں استعمال کی گئیں۔ انہوں نے بنگالیوں کی ابدی نفرت بھی مول لے لی مگر بدلے میں کچھ حاصل نہ کرسکے۔ جماعت اسلامی نے مفت کی بیگار دینے کا سلسلہ بہت پہلے شروع کر دیا تھا مگر اس کے باوجود اگر وہ اپنے قائد مولانا مودودی جیسے انقلابی اورتاریخ ساز رہنما کے راستے پر رہتے توکامیاب رہتے۔
سر، آپ نے کیا کہا، میں چونک اٹھا، کیا جماعت اسلامی مولانا مودودی علیہ رحمہ کے راستے پرنہیں ہے۔ جواب ملا، نہیں، سفرسراسر مخالف سمت میں ہے۔ تم مولانا مودودی کی سیاسی زندگی کامطالعہ کرو۔ وہ نومبر 1972تک جماعت اسلامی کے امیر رہے، وہ ایسی زبردست مزاحمتی شخصیت تھے کہ انہیں برصغیر کی تقسیم اس لئے قبول نہیں تھی کہ یہ عمل اس وقت کی انگریز اسٹیبلشمنٹ کر رہی تھی۔ وہ اتنے بڑے مجاہد تھے کہ نفاذاسلام کانعرہ لگاتے ہوئے قائد اعظم کی وفات کے اگلے ہی ماہ گرفتار ہو گئے اور بیس ماہ جیل رہے۔ تم سمیت سب انہیں بنیاد پرست رہنما سمجھتے ہیں مگر وہ اپنے وقت کے آمر ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ آکھڑے ہوئے حالانکہ بنیاد پرست عورت کی سربراہی کے خلاف ہیں۔ یہ مولانا مودودی ہی تھے جو اپنے وقت کی فوجی حکومت سے نہیں ڈرے اور ختم نبوت کی تحریک میں پھانسی کی کوٹھڑی میں بھی آمرکو سجدہ کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ ا یوب خان نے 1964 میں جماعت اسلامی کو غیر قانونی قرار دے دیا اور انہیں ایک مرتبہ پھر جیل میں ڈال دیا گیا مگر انہوں نے ایک ڈکٹیٹر کے سامنے جھکنا گوارانہیں کیا۔ جماعت نے ان کے بعد اپنا قبلہ تبدیل کرلیا اور وفات کے بعد مکمل یوٹرن لے لیا۔ اب جماعت والے درالضیافہ میں رہتے ہیں جیلوں میں نہیں جاتے۔ مودودی کی طرح ہتھکڑیاں چومے انہیں عشرے گزر گئے۔ ان کا ہاتھ کا عوام کی نبض پرنہیں، یہ خود کلامی کے مرض میں مبتلا ہوچکے، ان کے اجتماعات میں صرف ان کے سکہ بند کارکن ہی پہنچتے ہیں۔ جماعت مقتدر حلقوں کی بی ٹیم کے طور پر اسٹیبلش ہوچکی۔ پاکستان کے سیاسی ٹرینڈز کا پروفیسر ہونے کے ناطے میں اسے بھی کامیابی سمجھتا اگرجماعت والے ان حلقوں کی مدد سے ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کی طرح اقتدار لے لیتے مگر یہ اتنے سیدھے سادے اوربھولے بھالے ہیں کہ ہر مرتبہ مفت کے ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوجاتے ہیں۔ تم گذشتہ انتخابات میں ووٹ لینے والوں کا تجزیہ کرو توان سے کہیں زیادہ سیاسی بصیرت تمہیں خادم رضوی مرحوم میں نظر آئے گی کہ وہ قومی سطح پر پانچویں اور پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کے سامنے آ گئے مگر ترازو پردینی ذہن اور مزاج کا ووٹر بھی ٹھپہ نہیں لگاتایعنی یہ اپنی ہوم گراونڈمیں بھی تنہا اپنے ہی ہاف میں گول کئے جا رہے ہیں۔
میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ اب جماعت اسلامی کیا کرے تو جواب ملا کہ اگر وہ اپنی روش تبدیل نہیں کرنا چاہتی تو اپنی سوداکاری کی صلاحیتیں بہتر بنائے اور خدمات کاپورا پورا معاوضہ لے مگریہ بددیانتی پر مبنی حل ہے، اصولی اورباوقار نہیں۔ اصل سیاسی اور جمہوری حل یہ ہے کہ قیادت، مجلس شوریٰ کا اجلاس بلائے اور اپنی غلطیوں کا جائزہ لے۔ جب غلطیوں اورناکامیوں کادیانتدارانہ جائزہ مکمل ہوجائے تو بار بار استعمال ہونے کے گناہ بے لذت پر عوام سے اسی طرح معافی مانگے جیسے نواز شریف اوربے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت میں مانگی تھی۔ جماعت اسلامی کا امیرفیصلہ کرلے کہ وہ اپنی ذات اور کردار میں مودودی بنے گا اتنا ہی بہادر اور اتنا ہی کمٹڈ جتنے سید ابولااعلیٰ مودودی علیہ رحمہ تھے۔ مولانا کی بائیو گرافی چیخ چیخ کر درس دے رہی ہے کہ وہ گفتار کے ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے، سر جھکانے کے بجائے سرکٹانے پر تیاررہتے تھے، وہ جوتے چمکانے والے نہیں بلکہ جنہیں وہ غلط سمجھتے تھے انہیں جوتے لگانے والے تھے۔