Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Nai Baat/
    3. Mr Perfectionist In Action

    Mr Perfectionist In Action

    میں ابھی وفاق کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر پنجاب میں تبدیلی کے آثار واضح ہونے لگے ہیں مگر پنجاب ہی تبدیلی کی بنیاد ہے، اگر پنجاب کی بنیاد نہیں رہے گی تووفاق میں بھی حکومت کی عمارت نہیں رہے گی اور اگر رہے گی تو اتنی ہی کمزور جتنی کوئی بھی عمارت اپنی بنیاد کے بغیر ہوسکتی ہے۔ عمران خان، اپنی پہلی بڑی غلطی کا خمیازہ بھگتنے جارہے ہیں اور وہ غلطی پنجاب عثمان بزدار کے حوالے کرنے کی تھی حالانکہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس حماد اظہر، فرخ حبیب اور راجا یاسر سرفراز جیسے نوجوان بھی موجود تھے جو ان کے ساتھ کمٹڈ تھے، انہیں اپنی عمریں د ی تھیں، تحریک انصاف کا چہرہ کہلا سکتے تھے مگر انہوں نے نواز لیگ سے منحرف ہو کرچند ماہ پہلے انہیں جوائن کرنے والے عثمان بزدار کو پنجاب کی پگ پہنا دی، ان کے مہربان انہیں غلطی پر سمجھاتے رہے مگر وہ اپنی غلطی پر مصر رہے۔

    کیا پنجاب میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ اگر اس سوال کا جواب سیاسی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک واضح ہاں کی صورت میں ہے۔ پنجاب اسمبلی کی ویب سائیٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے ارکان کی کل تعداد 183 ہے جبکہ سادہ اکثریت 186 پر بنتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دوسری تمام جماعتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے لئے یہ تعداد پوری کرنی زیادہ آسان ہے مگر ایک منٹ کے لئے رکئے، صورتحا ل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ اور نشان پر منتخب کئی ارکان بھی پی ٹی آئی کے نہیں ہیں، اگرچہ پی ٹی آئی کی اکثریت بھان متی کے کنبے کی ہے جس میں کسی ایک کی بھی سر اور تال دوسرے سے نہیں ملتی مگر میں سنجیدگی سے آپ کو ارکان کے بارے غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں جیسے حکومت میں سے سے معتبر، سنجیدہ اور محنتی وزیر راجا محمد بشارت اور فیصل آباد سے ہمارے چوہدری ظہیرالدین، یہ اور کچھ دوسرے بھی بلے کے نشان پر ہی منتخب ہوئے ہیں مگر کیا ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، ہرگز نہیں۔ یہ چوہدری برادران کا اٹوٹ انگ ہیں۔

    دوسر ے جہانگیر ترین کا گروپ ہے جس میں اڑھائی درجن کے قریب ارکان اسمبلی تھے مگر اس وقت بھی ان کے پاس ڈیڑھ درجن سے زائد ارکان موجود ہیں۔ اتنی ہی بڑی تعداد میں ایک اور گروپ بھی ہے جسے ہم خیال کہا جاتا تھا اور اس نے ابھی ایک اجلاس کر کے اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ وہ ابھی کہہ رہا ہے کہ اس کے بلدیاتی نظام کے حوالے سے مطالبات مان لئے جائیں مگر وہ نہیں مانے جا رہے۔ ہاں، دوسری طرف نواز لیگ کے چار سے چھ ارکان باغی ہیں مگر وہ سب کے سب سورج مکھی کے پھول ہیں، اقتدار کا سورج جس طرف بھی جائے گا ان کا منہ اسی طرف ہوجائے گا۔ پنجاب میں جس طرح محنت کی جا رہی ہے عین ممکن ہے کہ حکومت مخالف ارکان کی تعداد دو سو سے بھی اوپر چلی جائے۔

    اب ایک اور سوال ہے کہ اگر اپوزیشن اس موو میں کامیاب ہوجاتی ہے تو کیا چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جا سکتا ہے تو آن دی ریکارڈ اس کا جواب یہ ہے کہ معاملہ اس کے حق میں سفارش کے ساتھ میاں نواز شریف کو بھیج دیا گیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ نواز شریف اس مرتبہ وہ غلطی نہیں کریں گے جو انہوں نے ماضی میں کی تھی، وہ میری سنیں تو اسی سے مسلم لیگوں کے اتحاد کی راہ بھی نکل سکتی ہے۔

    یہ درست ہے کہ نواز لیگ کے اندر ایک آواز حمزہ شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے کی ہے مگرحمزہ شہباز شریف اس وقت زیادہ بڑے مقاصد کے لئے قربانی دے سکتے ہیں۔ آپ سوال کریں گے کہ وہ زیادہ بڑے مقاصد کیا ہیں تو وہ یہ کہ پنجاب میں حکومت کے تبدیل ہوتے ہی تمام روئیے تبدیل ہوجائیں گے۔ اگر بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا بھی گیا تو اس میں مسلم لیگ نون کے لئے وہ پانی نکلے گاجو میٹھا ہو گا۔ سب سے بڑھ کر آئندہ عام انتخابات میں مکمل اقتدار کی راہ اس طرح ہموار ہوجائے گی کہ ہماری سیاست پرسیپشنز، پر چلتی ہے اور اب تک پرسیپشن یہ رہی ہے کہ مقتدر حلقے نواز لیگ کو کسی طور بھی آنے نہیں دینا چاہتے۔ اگر ایک مرتبہ یہ پرسیپشن تبدیل ہوگئی تو پنجاب کاسیاسی رنگ ڈھنگ ہی بدل جائے گا۔

    مجھے علم ہے کہ کچھ لوگ دبے دبے لفظوں میں پوچھ رہے ہیں کہ وہ اصولی سیاست کیا ہوئی جس کے دعوے کئے جا رہے تھے تو میں عرض کروں کہ آپ کرکٹ کے میدان میں صرف اس لئے ہاکی نہیں کھیل سکتے کہ وہ آپ کا قومی کھیل ہے۔ جب آپ کے پاس چوائس ہی وہ کرکٹ کھیلنے کی ہے تو آپ کو گیند سے چوکے چھکے ہی لگانا ہوں گے۔ میں نواز لیگ کے دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ جس وقت دھرنے دئیے گئے، نواز شریف کو ہٹایا گیا تھا، انہیں جیل پہنچایا گیا تھا تو کیا اس وقت سے اب تک اصولی سیاست ہو رہی تھی؟

    بہت سارے دوست پوچھ رہے ہیں کہ آصف علی زرداری تو ایک ڈیڑھ برس سے پنجاب میں عدم اعتماد کی بات کر رہے تھے، اگر یہ اتنی ہی آسان اور کامیاب موو تھی تو اسے ایک، دوبرس پہلے ہی کیوں نہیں کھیل لیا گیا تو مجھے کہنا ہے کہ تب اس کھیل کے لئے موسم بھی سازگار نہیں تھا، پچ بھی ہموار نہیں تھی، ایمپائر بھی مخالف ٹیم کے ساتھ تھا مگر ان سب کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ ہمارے دوست صحافی اور پی یو جے کے صدر شہزاد حسین بٹ نے آج سے دس روز پہلے ایک خبر بریک کی ہے کہ میاں نواز شریف نے اصولی طور پر اور تحریری طور پر حکم جاری کردیا ہے کہ مسلم لیگ نون کی سیاست اب شہباز شریف ہی کریں گے۔

    میں جہاں تک جانتا ہوں یہ معاملہ آزادکشمیر کے انتخابات کے بعد شروع ہوا تھا اور شہباز شریف کے مخالف گروپ نے اس ممکنہ فیصلے کی بھرپور مزاحمت کی۔ پھر یوں ہوا کہ معاملات شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھ میں آنے سے کرشمے ہونے لگے جیسے یہ کہ نواز لیگ نے پنجاب میں کنٹونمنٹ کے انتخابات میں ایسا میدان مارا کہ سب حیران رہ گئے، لاہور، پنڈی تو کلین سویپ کر لئے گئے۔ اس سے پہلے بھی اگر نواز شریف سوادو برس سے لندن میں ہیں تواس کا کریڈٹ شہباز شریف کو ہی جاتا ہے اور مریم صاحبہ اگر جیل سے باہر، جاتی امرا میں ہیں، خوبصورت ڈریسز میں شادیاں اٹینڈ کر رہی ہیں تو ان کا کم از کم ایک مرتبہ کہنا بنتا ہے کہ شکریہ چچا جان، آپ نے رشتوں اور وفاوں کا حق ادا کر دیا۔

    میرے ایک بہت ہی مہربان دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، کیا یہ ملک کے مفاد میں ہے تو میں نے انتہائی ادب سے عرض کیا، سر، جو کچھ ہور ہا ہے کیا وہ ملک اور عوام کے مفاد میں ہے۔ کیا پنجاب کے اندر جو لاقانونیت اور کرپشن کا بازار گرم ہے، یہاں کے مقدس ترین اور اہم ترین دفاتر میں جس طرح بولیاں لگ رہی ہیں، جس طرح عوام مجبور اور لاچار ہو کر سڑکوں پر رل رہے ہیں کیا اس کی جگہ کوئی بھی دوسرا آجائے تو ملک و قوم کے لئے بہتر نہیں ہوگا اور اگر وہ چوہدری پرویز الٰہی جیسا دانا، مدبر اور تجربہ کار شخص ہو تو سونے پر سہاگہ نہیں ہوگا۔ اس کا فائدہ عوام کو بھی ہو گا اور نواز لیگ کو بھی ہو گا جو آج سے بائیس برس پہلے میری نظروں کے سامنے ٹوٹی تھی۔

    خدالگتی کہوں، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہویا ناکام، شہباز شریف نے ایک مرتبہ کھیل بنا دیا ہے۔ حکمرانوں کو پہلی مرتبہ ڈیفنسیو کیا گیا ہے۔ وہ تاثر ختم کیا گیا ہے کہ مقتدر حلقے بہرصورت عمران خان کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور میں بھی یہی کہتا رہاہوں کہ عمران خان کے لئے سب سے بڑا خطرہ نوازشریف او رمریم نواز نہیں بلکہ شہبازشریف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں نے انہیں دو مرتبہ گرفتار کیا، سب سے زیادہ دیر تک جیل میں رکھا۔ آصف علی زرداری کو اگر گیم چینجر کہا جاتا ہے تو شہبازشریف کو پاکستان کی گورننس اورپالیٹیکس میں مسٹر پرفیکشنسٹ، کا خطاب دیا جاسکتا ہے۔