میں نے مفتی قوی کو تھپڑ پڑنے کی ویڈیو دیکھی جس کو بنانے کی ذمے داری ٹک ٹاک سے فیم حاصل کرنے والی حریم شاہ نے قبول کر لی ہے اور انکشاف کیا ہے اس نے مفتی قوی کو جوتوں سے بھی مارا۔ بات صرف اس ویڈیو تک محدود نہیں کہ حریم شاہ اور مفتی قوی کی متعدد شارٹ ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں یعنی یہ تعلقات دو طرفہ بھی ہیں اور ہمہ جہت بھی۔ میں اخلاق اورکردارمیں عورتوں اورمردوں میں فرق نہیں کرتاکہ جہاں مردپیش قدمی کرتے ہیں وہاں ننانوے فیصد معاملات میں عورتوں کی حوصلہ افزائی کے بغیر یہ پیش قدمی نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی۔ قرآن پاک نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ برے مردوں کے لئے بری عورتیں ہیں اورمیں یقین رکھتا ہوں کہ ہر برے مرد کے لئے ایک بُری عورت موجود ہے سوجہاں مفتی قوی اور حریم شاہ ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں وہاں عورتوں اورمردوں میں یہ تعداد یکساں ہے۔
میں ہرگز ہرگزمفتی قوی کا مقدمہ نہیں لڑنا چاہتا کہ میری نظر میں وہ معاشرے میں گندگی اور غلاظت پھیلانے والے شیطانی گروہ کامرکزی کردار ہے۔ عوامی سطح پر معروف ہے کہ جس مقصد کے لئے طوائف برقعہ پہنتی ہے سو فیصد ایسے ہی مقصد کے لئے مرد داڑھی بھی رکھ لیتا ہے، مفتی قوی اس قول کی مضبوط ترین دلیل ہے، پہچان ہے۔ میں اس وقت حیران رہ گیا جب ایک ویڈیو میں جب وہ حریم شاہ کو جامعہ ازہر سمیت دیگر معروف دینی جامعات سے تعلق بارے بتا رہا تھا تو بی بی نے جواب میں ابلیس کا حوالہ دیااور کہا کہ وہ بھی اپنے علم میں سب سے بڑھ کر تھا مگر وہ گمراہ ہوا۔ قوی نامی اس نام نہاد مفتی کے اگلے الفاظ ناقابل یقین حد تک حیران کن اور قابل مذمت تھے، اس نے کہا، یہ قرآن کہتا ہے میں نہیں کہتا یعنی جو قرآن کہتا ہے وہ اس سے لاتعلقی کا عقیدہ رکھتا ہے اورمیری نظر میں یہ کفر ہے۔ میں اس لئے بھی حیران ہوں کہ میرے پاس ایک بڑے عالم دین کی اطلاع موجودہے جس کے مطابق قوی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بنایا جا رہا ہے کیونکہ ان کا تعلق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے ہے، وہی قوی جو اس سے پہلے شادی او رنکاح میں عجیب و غریب فرق بیان کرتے ہوئے ایسی رائے دے چکا ہے جس سے محض ناجائز تعلقات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
مفتی قوی جیسے لوگوں کو مفتی کہنا بھی دین کے علم کی توہین ہے جو اس سے پہلے جنوبی پنجاب سے ایسی ہی ویڈیوز سے شہرت حاصل کرنے والی فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں بھی ملوث رہ چکے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب وغریب مقدمہ تھا جس میں قندیل بلوچ کے بھائی وسیم کواس کے قتل پر سزائے موت کے بجائے عمر قید اس وجہ سے دی گئی کہ قندیل بلوچ کے وارثوں یعنی قندیل کے والدین نے قاتلوں یعنی اپنے بیٹوں کو اسلامی قانون کا سہارا لیتے ہوئے معاف کردیا تھا۔ قندیل کی والدہ نوربی بی نے موقف اختیار کیا تھا کہ مفتی قوی نے اس کے بیٹوں کو پھنسانے کے لئے قتل کیا یعنی قوی صاحب ایک ثابت شدہ گندا کردار رکھتے ہیں۔ بہت ساری ویڈیوز موجود ہیں جن میں مفتی قوی کھانا کھا رہے ہیں تو حریم شاہ ان کے ساتھ موجود ہے، وہ گاڑی میں سفر کر رہے ہیں تو بھی یہ خاتون ان کے ساتھ موجود ہے یعنی ان کے تعلقات مستقل بھی ہیں اورمسلسل بھی ہیں۔ اگر مفتی قوی جوتے اورگالیاں کھا کے بھی اس عورت کے ساتھ تعلقا ت میں ہیں تو یقینی طور پر ان کی بے شرمی اور بے غیرتی کی داد دینی پڑے گی کہ کوئی مرد اس قسم کے تعلقات گوارا نہیں کر سکتا۔ میں خود سے سوال کرتاہوں کہ مجھے ان دوکرداروں پر اپنا وقت اور اخبار کی قیمتی جگہ صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے تواس کا جواب ہے کہ یہ محض گندے کردار نہیں بلکہ ایک درس اور سبق بھی ہیں۔ فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور اس جیسی دوسری ایپس ایسے تعلقات تیزی سے بناتی چلی جا رہی ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب کچھ آج انٹرنیٹ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ یہ سب انسانی فطرت کا حصہ ہے اور نبیوں تک کے ادوارمیں ایسی باتیں اور کام ہوتے رہے ہیں، ہاں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس نے ایسے تعلقات کو قائم کرنا، برقرار رکھنا اور آئیڈیلائز کروانا بہت آسان کردیا ہے۔ ہماری پاس ایسی ایپس موجود ہیں جو سراسر برائی کی دعوت دینے کے لئے ہیں۔ ان میں سے بہت ساری ایپس ایسی ہیں جو آپ کے علاقے میں قریب ترین برائی کے ٹھکانے کا ایڈریس اور رابطے کے نمبر فراہم کرتی ہیں۔ ان ایپس اور ویب سائٹس کو حکومت کی طرف سے بلاک بھی کیا جاتا ہے مگر ایک ویب سائیٹ بلاک ہونے کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری سامنے آجاتی ہے۔ ہم میں سے بہت سارے مفتی قویوں اور حریم شاہوں کو گلیمرائز کرتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بے ڈھنگا اور بے تکا سا مرد ایک خوبصورت عورت کو لئے پھر رہا ہے تو بہت ساروں کی رگوں میں خون جوش مارنے لگتا ہے اور وہ رسک لے لیتے ہیں۔ وہ مفتی قوی اور حریم شاہ جیسی قباحتوں کو آئیڈیل بنا لیتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ جب ایک مولوی کے لئے یہ سب کچھ جائز ہے تو ان کے لئے حرام کیسے ہوسکتا ہے؟
مفتی قوی اور اس قبیل کے لوگ ہیں جو حقیقی محبت کے جذبے کو بھی بدنام کرتے ہیں حالانکہ مرد اور عورت کی محبت اگر وہ ہماری سماجی اور دینی حدود میں ہو تونکاح اور خاندان جیسے ادارے کی بنیاد رکھتی ہے جو نسل انسانی کی بقا کا جائزطریقہ ہے اور اگریہ نہ ہو توزمین پر انسانی نسل ختم ہوجائے، فنا ہوجائے۔ اس گندگی اور غلاظت کے فروغ میں مفتی قوی کا کرداراس لئے زیادہ گھناونا اور شرمناک ہے کہ ان کے چہرے پر سنت رسول ہے اور وہ دینی سکالر کے طور پر اپنی پہچان کرواتے ہیں حالانکہ یہ صاحب ہمیشہ دین کی توہین اور بدنامی کا سبب بنے ہیں۔ عام آدمی کا گناہ اگر بدہے تو عالم دین کہلانے والے ایک مرد کا گناہ گار ہونا بدترین ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ صاحب ان عورتو ں کے ساتھ برائی میں ملوث ہوتے ہیں جو اس کی تشہیر سے فوائد سمیٹتی ہیں مگر اس کے باوجودمیں سمجھتا ہوں کہ مفتی قوی اپنے کردار میں قندیل بلوچ اور حریم شاہ سے ہزار گنا زیادہ گھٹیا اورنیچ ہیں کیونکہ وہ اپنی ذات کو ہی نہیں بلکہ محمد عربی ﷺ کے دین کو بھی بدنام کر رہے ہیں اور یہی وہ دکھ ہے جس کا میں اظہار کرنا چاہتا ہوں ورنہ ان جیسے گندے مردوں اور عورتوں پر خرچ کرنے کے لئے نہ میرے پاس وقت ہے اور نہ ہی میرے اخبار کے قیمتی صفحات پر اس غلاظت کے ذکر کو پھیلانا میرے لئے پسندیدہ ہے تاہم اس رحجان کو روکنے کی ضرورت ہے۔