بہت ساروں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے سچ بولا، میں کہتا ہوں کہ نہیں یہ سچ نہیں ہے، یہ سویپینگ سٹیٹمنٹ ہے، ویسی ہی سویپنگ سٹیٹمنٹ جیسی عمران خان دیتے اور اس کے ذریعے لوگوں کو بے وقوف بناتے آئے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مفت آٹے کی تقسیم کے پروگرام پر چوراسی ارب روپے خرچ کئے گئے اوراس میں بیس ارب روپوں سے زائد کی کرپشن ہوئی۔ اس بیان کے بعد وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا کہ پی ٹی آئی کے آفیشیل سوشل میڈیا سے ہر دوسرے رہنما تک نے اس بیان کو اٹھا لیا اور آسمان سر پر اٹھا لیا کہ عباسی کے بیان پر نیب تحقیقات کرے۔
وہ پہلے رمضان المبارک میں حکومت کی طرف سے ساٹھ ہزار روپوں تک آمدنی والے ہر گھرانے کو آٹے کے دس، دس کلو والے تین تھیلے ملنے پر برہم تھے اور کرپشن کے الزامات عائد کررہے تھے حالانکہ اس سکیم کو کرپشن فری بنانے کے لئے پنجاب میں زمان وٹو جیسا ایماندار اورپروفیشنل بیوروکریٹ بطور سیکرٹری فوڈ تعینات تھا بلکہ اس کی شفافیت کویقینی بنانے کے لئے وزیراعظم شہباز شریف اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے نہ دن دیکھا نہ رات، جگہ جگہ پہنچے اور بہت محنت کی تاکہ لوگوں کی دعائیں لی جا سکیں۔
کئی لوگوں نے کہا کہ عباسی کی زبان پھسل گئی ہوگی کہ جب آپ بغیر دیکھے تقریر کرتے ہیں تو ایسا ہوہی جاتا ہے مگر میں اس سے بھی بوجوہ متفق نہیں، جی ہاں، میرے پاس یہ کہنے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ شاہد خاقان عباسی نے جو کچھ کہا وہ سوچ سمجھ کر کہا کیونکہ وہ بہت مہینوں سے اسی باغیانہ طرز عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وہ نواز شریف کی بیٹی کی قیادت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ا ورنہ ہی وہ شہباز شریف کی کابینہ میں شامل ہونے کے لئے آمادہ ہوئے۔ وہ اس کی بجائے ایک این جی او بنا کے مفتاح اسماعیل کے ساتھ ساتھ عمران خانیت جھاڑتے پھر رہے ہیں یعنی ایسی تقریریں جن میں وہ خود خواہ مخواہ کے حاجی نصر اللہ بن رہے ہیں۔
میں نے شاہد خاقان عباسی کے طرز عمل سے اندازہ لگایا کہ وہ وزیراعظم بننے کے بعد آپے میں نہیں رہے، خود کو کوئی توپ شے سمجھنے لگے ہیں اور اس شرمناک حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ وہ اپنے حلقے سے بھی الیکشن ہار گئے تھے اور انہیں نواز شریف نے ہی لاہور کی ایک محفوظ نشست سے کامیاب کروایاتھا۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ شاہد خاقان پہلے ایسے ہرگز نہ تھے اور اگر ایسے ہوتے تو نواز شریف انہیں کبھی اپنی جگہ منتخب نہ کرواتے۔
سچ تو یہ ہے کہ نواز شریف ایسی باتیں کرنے والوں کوپسند ہی نہیں کرتے۔ ان کے ذہن میں یہ بات جم چکی ہے کہ ایک مرتبہ وہ وزیراعظم بننے کے بعد اب وہ پارٹی میں سب سے سینئر ہیں۔ و ہ دوبارہ بھی اسی عہدے پر جانا چاہتے ہیں مگر جانتے ہیں کہ جس راستے سے پہلے وہ پرائم منسٹر ہاوس پہنچے تھے اب وہ راستہ ان کے لیے دستیاب نہیں لہٰذا انہوں نے راستہ بدل لیا ہے۔
تیسری اہم ترین بات یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنی کچھ تصاویر وائرل کروا کے اپنے آپ کویقین دلا دیا ہے کہ وہ عمران خان ہی طرح قمیضوں میں موریاں رکھنے والے غیر معمولی سادہ اورایماندار بندے ہیں حالانکہ وہ دوسروں جیسے ہی ہیں جس کی گواہی توشہ خانہ کا ریکارڈ دے رہاہے او ر اس سے بڑھ کے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اس پر اصرار کہ ان کی فیملی سے جو توشہ خانہ لوٹا وہ بالکل درست لوٹا، یہ ان کا حق تھا۔
شاہد خاقان عباسی نے اپنی تقریر میں سسٹم کی کرپشن کی نشاندہی کے لئے مفت آٹے کی مثال ہی کیوں استعمال کی، یہ سوال اہم ہے کیونکہ سسٹم کی خرابی کا ذکر کرنے کے لئے ان کے پاس عمران خان دور کی ہزاروں مثالیں موجود تھیں مگر انہوں نے ان کو ہی ڈسنا ضروری سمجھا جن کی آستین میں بیٹھ کے وہ اقتدار کا دودھ پیتے رہے۔
وہ آج کل جو تقاریر جھاڑ رہے ہیں اس میں اصلاحات اور انقلاب ٹائپ چیزیں انہیں بہت یاد آ رہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جب وہ خود وفاقی وزیر یا وزیراعظم تھے تو انہوں نے کتنی انقلابی اصلاحات کیں اور سسٹم میں کتنی تبدیلی لے کر آئے۔ ان کی گورننس بتانے کے لئے یہی کافی ہے کہ موصوف ائیربلیو کے مالک تھے اور پی آئی اے کے وزیر۔ ائیر بلیو دن رات منافع کما رہی تھی اور پی آئی اے مسلسل گھاٹے میں جا رہی تھی۔ دلچسپ کام تو انہوں نے یہ کیا کہ پہلے تقریر جھاڑی اور پھر ایک خوبصورت سمارٹ اینکرکے سامنے بیٹھ کے وضاحت دی کہ انہوں نے وزیر پر کرپشن کا الزام عائد نہیں کیا بلکہ یہ سسٹم کی کرپشن ہے۔
میں نے اس پر فوڈ ڈپیارٹمنٹ پنجاب کے افسران سے پوچھ لیا کہ سسٹم تو آپ کے پاس تھا یا ساتھ فلور ملز اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن تھی تو کیا آپ لوگ چوراسی ارب میں سے بیس ارب روپے کا آٹا ہڑپ کر گئے ہیں۔ افسران کہتے ہیں کہ آپ نیب سے تحقیقات کروا لیں یا شاہد خاقان عباسی خود سامنے بیٹھ جائیں ہمارے پاس آٹے کی فول پروف فری تقسیم کے تمام ثبوت اوراعداد وشمار موجود ہیں۔ جب آپ ایک بہت بڑی سکیم چلاتے ہیں تو اس میں کہیں بھی غلطی او رخامی ہوسکتی ہے مگرسسٹم کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اسے پکڑے، جانے نہ دے۔ ڈائریکٹر فوڈ پنجاب شوذب سعید اعداد و شمار ڈسکس کرتے ہوئے خود حیران ہو رہے تھے کہ ایسا بے بنیاد بیان کس ثبوت پر دیا گیا ہے۔
فی الوقت یوں لگتا ہے کہ جیسے بے نظیر بھٹو کو کچھ انکلز کا سامنا تھا اب ایسے مریم نواز کو بھی کچھ انکلز کو بھگتنا پڑے گا۔ حیرت کی بات ہے وہ تمام لوگ جو ایک جرنیل کا بیٹا جرنیل بنے تو ہم رشک کرتے ہیں۔ تاجر کی اولاد کاروبار سنبھالے، اسے بڑھائے تو ہم اسے ہونہار کہتے ہیں۔ بیوروکریٹ کی اولاد بیوروکریٹ بنے تو کہتے ہیں کہ والدین کا نام روشن کیا۔ عالم کی اولاد عالم بنے تو اسے نسل درنسل خیر اور برکت قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر کا بیٹا سپیشلسٹ بنے تو مبارکبادیں دیتے ہیں لیکن اگر سیاستدان کی اولاد سیاست میں آئے، باپ کی جگہ لے توہمیں یہ موروثیت لگتی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اگر یہ اچھی شے نہیں تو کرواس سے بغاوت، بناو اپنی پارٹی، ثابت کرو اپنی مقبولیت، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا۔ اصل بات یہ نہیں کہ مفت آٹے کی تقسیم کی سکیم میں بیس ارب کا گھپلا تھا، اصل بات یہ ہے کہ نواز شریف کے نمک میں وفا ہی نہیں ہے اور وہ جسے بھی عزت دیتے ہیں وہ یہی کچھ کرتا ہے جو شاہد خاقان کر رہا ہے۔ اس پر میرے پاس طاہر القادری سے ثاقب نثار تک ناموں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ بعض لوگ اس کی دوسری تشریح یہ کرتے ہیں کہ نواز شریف کو لوگوں کی پہچان ہی نہیں ہے۔
شاہد خاقان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کی طرف سے وزیراعظم بننے والے یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف پر غور کیجئے۔ وہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ احسان فراموش نہیں، وہ اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے وضع دار لوگ ہیں۔ شاہد خاقان کسی اور سے کچھ سیکھیں نہ سیکھیں مگر ان دونوں سے ضرور یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ احسان کا بدلہ کیسے دیا جاتا ہے۔ بہت ساروں کو یقین ہے کہ شاہد خاقان عباسی اپنے پیارے مفتاح اسماعیل کے ساتھ مل کر کسی لمبی ریس کا گھوڑا بننے کی تیاری میں ہیں۔