Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Nawaz Sharif Ki Gawahi

Nawaz Sharif Ki Gawahi

عمران خان نے ملتان میں ملتان والوں کے سر شرم سے جھکا دئیے جب انہوں نے مریم نواز کے بارے میں عورت ہونے کی بنیاد پر ایک گھٹیا اور بازاری طنزیہ فقرہ اچھالا مگر وہاں بیٹھے ہوئے بہت ساروں نے اس پر سیٹیاں بجائیں اور تالیاں، یعنی عمران خان کو یہ احساس تھا کہ وہ جن لوگوں کے سامنے بے ہودہ گوئی کر رہے ہیں وہ اسے سراہیں گے، افسوس، ایسا اوباشوں کی محفل میں ہی ہوسکتا ہے۔

جیسے ہی یہ شرمناک واقعہ ہوا تو اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی والوں نے بہت سارے سنے سنائے، گھڑے گھڑائے واقعات شئیر کرنے شروع کر دئیے جو مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے درمیان شدید اختلافات کے زمانے کے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے صحافیوں اور اینکروں کی بڑی نسل پرویز مشرف کے زمانے میں پیدا ہوئی سو ان کے پاس اس سے پہلے دور کے حوالے سے وہی کچھ ہے جو بار بار دہرا کے ان تک پہنچا دیاگیا ہے مگر مجھے کہنا ہے کہ یہ سب کچھ سچ نہیں تھا۔

میں میاں نواز شریف کے سیاسی فیصلوں پر کھل کرتنقید کرتا ہوں اور بہت سارے فیصلوں کو غلط بھی سمجھتا ہوں جیسے اس وقت وہ شہباز شریف کی حکومت کو گرانے کے اسی طرح درپے ہیں جیسے عمران خان مگر یہاں بات ایک صحافی کے طور پر ان کے اخلاق اور کردارکی گواہی کی ہے۔

میں اپنے رب کو حاضر ناظر جان کے گواہی دیتا ہوں میں نے عشروں پر مبنی اپنی صحافت میں، جس میں بڑا عرصہ نواز لیگ کے بیٹ رپورٹر کے طور پر بھی سڑک گردی کی، کبھی نواز شریف کے منہ سے کوئی غیر اخلاقی، ذومعنی اور گھٹیا بات نہیں سنی۔ پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کی روح اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں سے معذرت کے ساتھ نقل کر رہا ہوں، کہ انہیں پیلی ٹیکسی کہا گیا اور ان کی قابل اعتراض تصویریں ہیلی کاپٹرسے پھینکی گئیں۔

میں نوازلیگ کے کسی کارکن کی باتوں کو اہمیت نہیں دے سکتا کہ علم نہیں کہ وہ کس خاندانی پس منظر، تعلیم، تربیت اور تہذیب کا حامل ہے مگر میں نے یہ الفاظ کبھی نواز شریف یا شہباز شریف کے منہ سے نہیں سنے۔ یہ اسی قسم کی بات ہوسکتی ہے جس قسم کی بات کا ٹرینڈ عمران خان کی جلسے میں فضول گوئی کے بعد ان کی والدہ کے بارے میں شروع ہوا تاہم جب اس کے قابل اعتراض ہونے کی نشاندہی کی گئی تو وہ رک گیا۔

میں نے نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان سخت سیاسی لڑائی کے عرصے میں ایکٹو پولیٹیکل رپورٹنگ کی ہے اور اس دوران روزنامہ خبریں، روزنامہ پاکستان، روزنامہ دن اور بعدازاں روزنامہ ایکسپریس سے بھی وابستہ رہا، موخر الذکر دونوں اخبارات میں چیف رپورٹر کی ذمہ داریاں سرانجام دیں مگر میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی کبھی کوئی قابل اعتراض تصاویر نہیں دیکھیں، ہاں، ا س وقت کے دو مقبول ترین ہفت روزوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی ایک، دو تصاویر ضرور شائع ہوئیں جن میں وہ سلیو لیس ڈریس پہنے ہوئے تھیں اور اس دور کی اخلاقیات کے مطابق انہیں قابل اعتراض سمجھا گیا مگر وہ رسالے بھی جماعت اسلامی کی سوچ والوں کے تھے اور اس پروپیگنڈے میں ان نیک لوگوں، کا شئیر بھی ہے۔

یہ نوے کی دہائی کی بات ہے جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان وزارت عظمیٰ اور اپوزیشن لیڈری کی میوزیکل چیئر چلا کرتی تھی۔ نواز شریف ماڈل ٹاون والے گھر (جو اب پارٹی کا مرکزی سیکرٹریٹ ہے) میں ہی رہا کرتے تھے۔ اس گھر کے دو حصے تھے جہاں باہر کے حصے میں پولیٹیکل ایکٹیویٹی ہوتی تھی اوراندر ونی حصے میں فیملی رہائش پذیر تھی۔ ہر جمعے کو چھٹی کے دن باہر لان میں نواز شریف کارکنوں کی مجلس سجایا کرتے تھے۔

کارکن تقریریں کرتے اور آخر میں نوازشریف اپنا خطاب۔ یوں ہمارے پاس ایک اچھی بڑی خبر آجاتی جو ہم اخبارات میں فائل کرنے دفاتر کو دوڑ جاتے۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ ایک اونچی لمبی، گوری چٹی، خوبصورت خاتون نے بتایا کہ وہ گوجرانوالہ سے کارکن ہیں او رایسی تقریر کی جس میں ان سے محبت کا بہت ذکر تھا۔ نواز شریف عام طور پر آخر میں ہی تقریر کیا کرتے تھے مگر وہ گفتگو ایسی لگاوٹ بھری تھی کہ میاں نواز شریف نے مائیک اپنے پاس منگوا لیا اور گفتگو شروع کر دی۔

اس گفتگو میں انہوں نے کوئی دس، پندرہ مرتبہ اس خاتون کو میری بہن، میری بہن کہہ کے پکارا جس پررپورٹرز مذاق بھی کرتے رہے کہ میاں صاحب کوبیگم صاحبہ سے ڈانٹ کا ڈر پڑ گیا تھا۔ میں نے نواز شریف میں خواتین کے لئے انتہا کا احترام دیکھا ہے اور جہاں تک مردوں پر غصے کی بات ہے تو اس کی انتہا یہ ہے کہ وہ جس سے ناراض ہوں اسے نظرانداز کرنا شروع کر دیتے ہیں، بولنا بند کر دیتے ہیں۔

یہ نہیں کہ میں نے میاں نواز شریف کو غصے میں نہیں دیکھا۔ وہ جاوید اشرف شہید کی رسم قل پر شدید غصے میں تھے جب لوہاری کی مسجدمیں شیلنگ شروع ہوگئی۔ ان کی تصویر اگلے روز شائع ہوئی جس میں چہرہ لال تھا، بازو بلند اور مٹھی بندمگر مجال ہے کہ کوئی گالی یا گالی نما لفظ بھی منہ سے نکلا ہو۔ یہ بات ریکارڈ پر رکھ لیجئے کہ جب نوازشریف بدترین جیلوں کا سامنا کر رہے تھے، ہوائی جہازوں میں انہیں ہتھکڑیاں لگائی جارہی تھیں تو اس وقت بھی ان کی گفتگو خان صاحب جیسی لغو اورگھٹیا نہیں ہوئی حالانکہ وہ شدید دباؤ کے دن تھے۔

شہباز شریف کے حوالے سے سن لیجئے کہ وہ زیادہ جذباتی ہیں اورالٹی سیدھی تقریریں بھی کر جاتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے (ڈس) کریڈٹ پر ایک ہی تقریر ہے کہ انہوں نے آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا بیان دیا اور اس کی بھی انہوں نے معذرت کر لی۔

میں حیران ہو کے پوچھتا ہوں کہ کل کی پیداوار لونڈے لپاڈے جب بے نظیر بھٹو شہید کے بارے ایسی باتیں کرتے ہیں کہ نوازشریف نے یوں کہا اور ووں کہا تو کیا وہ شہید بی بی کی عزت، مقام اورمرتبے کے ان کے قابل صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری سے بھی زیادہ بڑے محافظ ہوتے ہیں جو ان کے گذشتہ دس، بارہ برسوں سے اتحادی ہیں۔

مجھے پھر ریکارڈ درست کرنے دیجئے کہ اگر اس میں کچھ تھا بھی تو وہ سب کچھ میثاق جمہوریت جیسی مقدس دستاویز میں ایک غلطی سمجھ کر بھلا دیا گیا، اس سے سبق سیکھ لیا گیا، مسلم لیگ نون نے جو انتہائی سیاست کی وہ سرے محل، پر کی اور سوئس اکاؤنٹس کے نام پر کی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو میاں نوازشریف کا ردعمل ایسا تھا جیسے کسی سگے بھائی کا ہوتا ہے جو اپنی بہن کی ناگہانی موت پر غم زدہ ہو۔

آپ کہیں گے کہ جب یہ کچھ بھی نہیں تھا تو باتیں کیسے بنیں، باتیں یوں بنیں کہ جس شخص نے پیلی ٹیکسی جیسی باتیں کیں اس کا نام شیخ رشید تھا اور وہ آج بھی بلاول بھٹو زرداری بارے فضول گوئی کرتا ہے اور انہی کا لیڈر ہے جنہیں عمران خان کی فضول ترین اور گندی ترین بات کے بعد محترمہ کی ہمدردی تنگ کر رہی ہے۔

مجھے یہ گواہی دینے میں عار نہیں کہ میاں محمد شریف مرحوم نے اپنی اولاد کی بہترین اخلاقی تربیت کی اور اس اولاد نے بھی ان سماجی رویوں کا مظاہرہ کیا جو کسی بھی اعلیٰ روایات کے حامل بھلے خاندان کا وطیرہ ہوسکتے ہیں۔

خدا جانے انہی روایات اور اخلاقیات کا انعام ہے کہ قدرت نے میاں شریف کی اولاد کو اب تک ملک کے پانچ وزرائے اعلیٰ اور چار وزرائے اعظم دینے کا منفرد اعزاز عطا کردیا ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ عمران خان بہت بہادر ہوں گے مگر انہیں خیال رکھنا ہوگا کہ بہادری اوربدتمیزی میں فرق ہوتا ہے، انہیں اس خاندان سے دو چیزیں ضرور سیکھنی چاہئیں اول دوسروں کے لئے اخلاق، دوم مصیبتوں میں صبر، توکل علی اللہ۔