یہ دباؤ ایک سیاستدان ہونے کے حوالے سے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود پر تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے حق میں ٹک ٹاک، میمز، ٹوئیٹس یا مجموعی طورپر بلے بلے چاہتے ہوں مگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن پر کیا دباو ہوسکتا ہے کہ وہ ایک مقبول مگر منفی فیصلہ کرے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے سوشل میڈیا ٹرینڈزاور پرتشدد مظاہروں کو سامنے رکھتے ہوئے جامعات کو باقاعدہ آن لائن ایگزامز کی باقاعدہ اجازت دے دی ہے جسے کورونا کے نام پر تعلیمی ادارے بند رکھنے کے بعدد وسرا غلط اور تباہ کن فیصلہ کہا جا سکتا ہے۔ مجھے کہا گیا کہ یہ طلبا کو نقصان سے بچانے کے لئے ان کے بہترین مفاد میں فیصلہ ہے تو میں نے کہا کہ اگرآپ نے قوم، تعلیم اور مستقبل کی بجائے رعایات مانگنے والوں کے مفاد کو ہی دیکھنا تھاتوآپ تمام مظاہرین کو بغیر امتحان ہی ڈگریاں دے دیتے۔
میں نے بہت سارے اساتذہ اور طالب علموں سے بات کی، ان میں ان کی یونینوں کے رہنما بھی شامل تھے۔ مجھے آن لائن ایگزامز کے حق میں ایک ہی دلیل دی جاتی رہی کہ جب کلاسز آن لائن تھیں تو ایگزامز بھی آن لائن ہی ہونے چاہئیں مگر اس سے بودی دلیل کوئی دوسری نہیں ہوسکتی کہ لیکچررز اور ایگزام کے پیرامیٹرز اور ریکوائرمنٹس ہی الگ الگ ہیں۔ امتحان میں آپ نے طالب علموں کو نقل اورنوسربازی جیسی گھٹیا حرکت سے روکنا ہے جس کے لئے ارد گرد کے ماحول پرنظر اور جسمانی حرکات و سکنات پر کنٹرول پر ضروری ہے۔ دلیل دی گئی کہ کیا آپ فزیکل ایگزامز میں نقل روک سکے ہیں جو آپ یہ دلیل آن لائن ایگزام کے لئے دے رہے ہیں تومیرا جواب تھا کہ جب فزیکل ایگزام میں تمام ترسختی اور کنٹڑول کے باوجو د نقل اور نوسربازی کے امکانات موجود ہیں تو یہ آن لائن ایگزام میں ہم خود اس کی دعوت دیں گے۔ آپ آن لائن کلاسزپرتنقید اور آن لائن ایگزامز کے لئے مظاہرے کرتے ہیں توثابت ہو گیا کہ آپ سسٹم کی کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، نقل کرنا چاہتے ہیں۔
دلیل دی گئی کہ آن لائن کلاسزمیں تعلیم انتہائی غیر معیاری رہی۔ استاد اپنے بچوں کو کھلاتے رہے اور طالب علم حاضری لگا کر سوتے رہے۔ میرے اس پر دو جواب تھے کہ اول یہ کہ میں آپکی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اگر استاد آن لائن لیکچرمیں نااہل تھا تو وہ فزیکل کلاس میں بھی نااہل ہی ہوتا اور اگر استادایسا تھا تو طلبا کو فوری طور پر اسے رپورٹ کرنا چاہئے تھا۔ دوسرے آن لائن لیکچرز میں وہی طالب علم سو رہے تھے جنہوں نے فزیکل کلاس میں بھی دماغی طور پر غیر حاضر ہونا تھا۔ یہ نہلے، نکمے اور اپنے باپ کی کمائی کے دشمن ہر کلاس میں ہوتے ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ آن لائن لیکچر، فزیکل لیکچر سے زیادہ مفید ہوسکتے ہیں اور پڑھنے والے طالب علموں کے لئے ہوئے بھی۔ ہوتا یوں ہے کہ جب لیکچر ہورہا ہوتا ہے تو کسی نکتے کی سمجھ نہ آئے تو آپ استاد کو ری وائنڈ کر کے نہیں سن سکتے مگریوٹیوب سمیت دیگر ایپس پر دس مرتبہ سنیں یا سو مرتبہ۔ اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو آپ کمنٹس میں سوال کرسکتے ہیں اور وہاں استاد کے ساتھ ساتھ آپ کے ساتھی طالب علم بھی آپ کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ آن لائن کلاسز میں آپ کو ورائٹی بھی مل سکتی ہے اور آپ مختلف یونیورسٹیوں کے مختلف پروفیسرز کے لیکچر سن سکتے ہیں جیسے ایم اے او کالج کے سٹوڈنٹس گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے پروفیسرز کو۔
ایک اور بودی دلیل دی گئی کہ لاہور سے باہر انٹرنیٹ ہی نہیں چلتا تومیں نے ان کو بتایا کہ دوردراز کے دیہات سے جھڈو، پھلو اور مولوی عثمان جیسے لوگ یہی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے ٹک ٹاک بنا بھی سکتے ہیں اور اسے اپ لوڈ کر کے کئی ملین فالوررز بھی لے سکتے ہیں مگر طالب علم لیکچر نہیں سن سکتے۔ یہ درست ہے کہ انٹرنیٹ منقطع ہو سکتا ہے مگر آن لائن لیکچر اس وقت بھی سنا جا سکتا ہے جب سگنل بحال ہو گئے ہوں لیکن امتحان ایک ہی وقت میں ہونا ہے اور جب امتحان ہو رہا ہو اور کوئی نوسر باز یہ کہہ کرکیمرہ بند کر دے کہ سگنل چلے گئے ہیں تو امتحان کی ساکھ اورمقصد ہی ختم ہوکر رہ جائیں گے۔ میں نے پوچھا کہ ایک چالباز خود کیمرے کے سامنے ہوتا ہے اور کیمرے کے پیچھے دوبندے کتابیں دے کر بٹھا لیتا ہے تو آپ کیسے ٹریس کریں گے توبتایا گیا کہ میں ہم امتحان شروع ہونے سے پہلے اسے کہتے ہیں کہ وہ کیمرے کو گھماکر دکھائے کہ کمرے میں کوئی دوسرا موجو دتو نہیں، مجھے اس معصومانہ بلکہ احمقانہ جواب پرہنسی آ گئی۔ میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آن لائن ایگزامز ان طالب علموں پر کھلے حملے اور جارحیت کے مترادف ہیں جو پوری تیاری کے ساتھ اپنی اہلیت ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں آپ نالائقوں اور نااہلوں کو موقع دیں گے کہ وہ لائقوں اور محنت کرنے والوں کے برابر پہنچ جائیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ان امتحانات کے نتیجے میں لی گئی ڈگریاں محض خود کو دیا گیا دھوکا ہوں گی۔ دلیل دی گئی کہ گذشتہ برس بھی آن لائن امتحانات لئے گئے تھے جیسے پنجاب یونیورسٹی نے ستر ہزار امیدواروں کو آن لائن امتحان کے بعدڈگری جاری کی تو جواب ہے کہ اس وقت پورا ملک بند تھامگر اب پورا ملک کھلا ہوا ہے۔ کیاکورونا صرف تعلیمی مراکزاورامتحان گاہوں کے لئے ہے۔ وہ تمام نام نہاد طالب علم جو بہتر گریڈز کے لئے دونمبر آن لائن ایگزام کی خاطر مظاہرے کررہے تھے، ان سے پوچھنا ہے کہ کورونا لڑکیوں لڑکوں کے اکٹھے مظاہروں میں نہیں آتا جب وہ ایک دوسرے میں گھسے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں مگر امتحانی مرکز میں آجاتا ہے جہاں وہ دور دور بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی باتوں سے آپ جناب وزیر تعلیم کو ہی چونا لگاسکتے ہیں جو ایک ٹوئیٹ میں تعلیمی معیار برقرار رکھنے کی بات کر کے اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوگئے۔
ایک دلیل یہ ہے کہ آن لائن ایگزامز کے ذریعے طلبا و طالبات کا نقصان نہیں چاہتے بلکہ انہیں بہتر گریڈز دینا چاہتے ہیں تو اس دلیل سے مان لیا گیا کہ آن لائن امتحان محض اچھے گریڈز لینے اور دینے کا ایک طریقہ کار ہے اور یہاں میرا پہلا سوال ہے کہ کتنی جامعات کے پاس ایگزامینیشن کے فول پروف سافٹ وئیرز موجود ہیں اور دوسرا یہ کہ طالب علموں کے مطابق انہیں لیکچرزہی سمجھ نہیں آئے تو وہ آن لائن ایگزام میں چیٹنگ کے ذریعے اچھے گریڈز لے بھی لیں گے تو کیا عملی زندگی میں انہیں چاٹیں گے جب انہیں پتا ایک ٹکے کا بھی نہیں ہو گا۔ ہم اس برائی کو انتہا پر لے جا رہے ہیں جس کے ذریعے ہم گیارہ سو میں سے ایک ہزارنوے، بانوے، چورانے اوراٹھانوے نمبر والے تو بہت سارے دے دیتے ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے علم اور فکر میں نہ اقبال بنتا ہے اورنہ ہی آئن سٹائن۔ بنیادی طور پر ہم خود کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور اپنے نوجوان نسل کو بھی اور ایسے اچھے گریڈز کے ساتھ کچرا مارکیٹ میں پھینک دیتے ہیں۔ برا ہو کوروناکا کہ جس کی آڑ میں نئے پاکستان میں سُستوں، نالائقوں اور نوسر بازوں کی ایک پوری نسل تیار کر دی ہے اور اسے فکری مغالطوں کے ذریعے طالب علموں کا مفاد قرار دیا جا رہا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بہت ظلم کیا جب وہ ان چند سو بلیک میلروں کے ہاتھوں یرغمال ہو گئی جو مختلف یونیورسٹیوں سے ایک یونیورسٹی میں پہنچے، وہاں توڑ پھوڑ کی، آگ لگائی، دو سے تین ملین کا نقصان کیا اور نقل کرنے کی سہولت والے امتحان کی اجازت حاصل کر لی۔ میں تو اس وقت کے بارے سوچ رہا ہوں جب بلیک میلنگ اورنوسر بازی کی عادی اس نسل میں سے کوئی جج بنے گا اور کوئی بیوروکریٹ، کوئی صحافی ہو گا اور کوئی تاجر، تب پاکستان کا کیا بنے گا؟