ہمیں ڈاکٹر امجد ثاقب کے بہت سارے شکریے ادا کرنے ہیں جیسے بلاسود قرضوں کے ذریعے عام بلکہ غریب ترین پاکستانیوں کو روزگارکے دینے پر شکریہ، خواجہ سرا پروگرام کے ذریعے بوڑھے نادار او رلاوارث خواجہ سراوں کو طبی اور نفسیاتی امداد فراہم کرنے پر شکریہ، کلاتھ بینک قائم کر کے لاکھوں پاکستانیوں تک پہننے کے قابل کپڑے پہنچانے پر شکریہ، اخوت یونیورسٹی اور اس سے پہلے کے تمام تعلیمی پروگراموں کے ذریعے پاکستان بھر کے نوجوانوں کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے پر شکریہ، پنجاب ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ کے ذریعے لاکھوں ہونہار بچوں کو سرکاری ہی نہیں بلکہ اعلیٰ نجی اداروں کی فیسیں دینے پر شکریہ اور اب غریب پاکستانیوں کو گھر جیسی عظیم نعمت دینے کے شاندار پروگرام کا آغاز جس میں انہوں نے نیا پاکستان ہاوسنگ اتھارٹی کے ساتھ ساتھ کمرشل بنکوں کو بھی اپنا شریک کار بنا لیا ہے کہ وہ کم ترین شرح سود پر دو، تین، چار مرلے زمین رکھنے والوں کو گھر بنانے کی سہولت دیں گے، وہ بتا رہے تھے کہ اب تک ملک بھر میں نوہزار گھرانوں کو یہ شاندار خوشی فراہم کر چکے ہیں، اپنے گھر کی خوشی، اپنی چھت کی خوشی۔ شائد کالم کے الفاظ ختم ہوجائیں اور وہ شکریے ختم نہ ہوں جو لاکھوں، کروڑوں پاکستانیوں کی طرف سے واجب الادا ہیں۔
ان سب شکریوں کے درمیان میری طرف سے ایک عجیب وغریب شکریہ واجب الادا ہے۔ میں عجیب سا پاکستانی ہوں کہ ایک طرف حقیقی جمہوریت، انسانی حقوق، معاشی ترقی اور نجانے کون کون سی محرومیوں پر کڑھتا ہوں، ابلتا ہوں تو دوسری طرف ان تمام کمیوں او رکوتاہیوں کے باوجود اپنی قوم سے محبت کرتا ہوں، آہ، اس بچے کی طرح جس کی ماں کمزور، بیمار اور بدصورت بھی ہو تو وہ اس کے سوا کسی دوسری عورت کو ماں نہیں کہہ سکتا، اس عورت کی طرح، جس کی اولاد نافرمان اور کم شکل بھی ہو تو اسے وہی پیاری لگتی ہے، راج دلاری لگتی ہے۔ مجھے بہت برا لگتا ہے جب میری قوم کو چور کہاجاتا ہے، بددیانت کہاجاتا ہے، سست اور کاہل قرار دیاجاتا ہے، ہاں ہم بہت پیچھے رہ گئے، شرمناک طور پر اپنے ہمسائے انڈیا سے بھی پیچھے جس کا اس برس کورونا کے باوجود گروتھ ریٹ ساڑھے گیارہ فیصد ہے اور ہمارا صرف ڈیڑھ فیصد مگر اس کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بطور قوم پیچھے رکھنا ہی نہیں بلکہ ہمیں برا اور غلط کہنا کوئی بہت بڑی سازش ہے، بالکل ویسی سازش جیسی سازشوں کی باتیں ہم اپنے ڈرائنگ روموں، گلی محلوں کے تھڑوں، نائیوں کی دکانوں اور اپنے یوٹیوب چینلوں میں کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا رکھنے کے لئے امریکا، اسرائیل اور انڈیا نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے بلکہ اس سازش میں افغانستان اور روس کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور فرانس کی ایجنسیاں بھی شامل ہیں، وہ ایجنسیاں ہمارے ہاں بم دھماکے بھی کرواتی ہیں اور ہماری نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے ملکوں میں گندی گندی ویڈیوز بنا کے اپ لوڈ کر دیتی ہیں اور ان کا اصل ٹارگٹ ہمارے بچے ہوتے ہیں کہ کہیں یہ بچے اقبال کے شاہین نہ بن جائیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے ان دو عشروں میں ایک کمال کیا ہے اور وہ کمال اس کمال سے الگ ہے کہ اب تک ایک سو تیس ارب روپوں سے زائد کی رقم کے قرض دے چکے، تینتالیس لاکھ سے زائد لوگ اس کے ذریعے اپنے پاوں پر کھڑے ہو چکے ہیں، وہ تیس لاکھ افراد کو کپڑے فراہم کرچکے وغیرہ وغیرہ۔ کمال یہ ہے کہ انہوں نے اب تک غریب پاکستانیوں کو ایک سو تیس ارب روپوں کی خطیر رقم جو قرضوں کی صورت دی ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے روزگار کا کوئی وسیلہ تراش سکیں، ان قرضوں کی واپسی ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد رہی ہے جو دنیا بھر میں ایک ریکارڈ ہے۔ ہمارے بہت سارے مثالیت پسند ہو ں یا سیاستدان ہوں، وہ کسی کمرے میں بیٹھے ہوں یا کسی کنٹینر پر سوار ہوں، ان کا ایک ہی رونا دھونا ہوتا ہے کہ پاکستان اور پاکستانی کرپٹ ہیں۔ وہ خود کو دودھ کے دھلوں کے طور پر پیش کرتے ہیں اور باقی پاکستان کی عزت یوں روندتے ہیں جیسے کوئی ظالم درندہ کسی تین سال کی معصوم بچی کو ریپ کے بعد قتل کردیتا ہے مگر دوسری طرف ایک حقیقی تصویر یہ ہے کہ دس، بیس، پچاس ہزار تک بھی نہ رکھنے والے پاکستانی اتنے دیانتدار اور وعدے کے پابند ہیں کہ لئے ہوئے قرض کا ایک ایک روپیہ واپس کرتے ہیں۔ قرض کی واپسی امانت اور دیانت کی سب سے بڑی اور اعلیٰ شکل ہے۔ دنیا بھر کے ادارے سروے کرتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ کون کسی قوم کتنی دیانتدار ہے، کتنی ایماندار ہے اور وہ سب سروے زبانی کلامی ہوتے ہیں مگر اخوت کا یہ سروے ایک سو تیس ارب روپوں کی خطیر رقم کے ساتھ ہو رہا ہے۔ وہ رقم ان لوگوں کو دی جار ہی ہے جن کو کوئی بنک قرض نہیں دیتا کہ ان کے پاس گروی رکھنے کو کچھ نہیں کہ کل کلاں اگر یہ بھاگ جائیں تو اس گروی رکھی ہوئی شے کو بیچ کر دیا ہوا روپیہ وصول کیا جا سکے۔
جی ہاں ! مجھے ڈاکٹر صاحب کا یہی شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے ایک بڑے تصور کے بت کو چکنا چور کر دیا ہے، ہماری بددیانتی، بے ایمانی اور حرام خوری کا جعلی بُت، مان لیجئے، ہم دنیا کی ایماندار ترین قوم ہیں کہ دنیا کی کسی قوم کے پاس اخوت جیسی تنظیم نہیں جو مسجد میں بیٹھ کے بلاسود قرض دیتی ہے اور پھر دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جس کے تینتالیس لاکھ لوگ قرض لیتے ہیں اور پھر پائی پائی لوٹاتے ہی نہیں بلکہ دلچسپ اور حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ پھر وہ چند ہزار روپے قرض لے کر کاروبار شروع کرنے والے خود اخوت کے پلیٹ فارم سے دنیا کے صدقہ جاریہ کے سب سے بڑے پروگرام کا حصہ بن جاتے ہیں، جی ہاں، قرض لینے والے اپنے ہم وطنوں کو قرض دینے والے بن جاتے ہیں۔ نیچے والا ہاتھ اوپر ہوجاتا ہے اور مانگنے والا دینے والا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ ہماری بددیانتی اورنااہلی کاجھوٹا بت اس سے کہیں زیادہ بڑا اور خوفناک ہے جیسا بت سومنات کے مندر میں تھا اور اسے محمود غزنوی نے سترہ حملے کر کے توڑا تھا۔ اسی سے جڑی ہوئی ایک اور بات، ڈاکٹر امجد ثاقب درست کہتے ہیں کہ کوئی قوم دھن دولت ختم ہونے سے نہیں مرتی مگر وہ مرتی ہے تو امید ختم ہونے سے مرتی ہے۔ اخوت ایک امید بھی دیتی ہے کہ اپنا کاروبار ہو گا، اپنا گھر ہوگا، اپنے پاس بھی کپڑے ہوں گے، اپنے بچے بھی تعلیم حاصل کریں گے اور یہی امید زندہ رکھتی ہے، مجھے اس انقلاب کے لانے پر، اس حقیقی نئے پاکستان کے بنانے پر بھی ان کاشکریہ ادا کرنا ہے۔