میں اس بحث میں جانا ہی نہیں چاہتا کہ کسی بھی مقدمے میں کس کے پاس کیا دلائل ہیں۔ یہ بتانا قانون دانوں کا مسئلہ ہے کہ اگر وزیراعظم کابینہ کے بغیر وزیراعظم نہیں ہے تو چیف جسٹس برادر ججوں کے بغیر چیف جسٹس کیسے ہے اور یہ کہ جس معاملے میں آپ خود فریق ہوں اور آپ کے مفادات متاثر ہو رہے ہوں تو اس میں آپ کے پاس منصف ہونے کا حق کیسے ہوسکتا ہے۔
میں اس پر بھی بحث نہیں کرنا چاہتا کہ چیف جسٹس کا آفس اگر سینئر موسٹ ججوں کے ساتھ شئیر کیا جائے تو اس میں حر ج کیا ہے جب ہم خود کہتے ہیں کہ ہمیں ہر جگہ آمریت کا راستہ روکنا اور افراد کی جگہ اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔ میں اس وقت پارلیمان کے قانون سازی کے حق پر بھی دلائل نہیں دینا چاہتا کہ اگر پارلیمان نے قانون سازی ہی نہیں کرنی تو پھر اس نے کیا کرنا ہے اور یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کچھ اداروں کے بارے تو قانون سازی کر سکتے ہیں مگر کچھ کے بارے نہیں کر سکتے، کیوں؟ دنیا بھر میں پارلیمنٹ کو مدر آف آل انسٹی ٹیوشنز کہا جاتا ہے، یہ پارلیمنٹ ہی ہوتی ہے جو آئین کی خالق ہوتی ہے اور پھر اس آئین سے تمام ادارے اپنے اپنے اختیارات لیتے ہیں۔
ہمارے بہت سارے دوست فکری ابہام پیدا کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ نہیں، آئین کا ساتھ دو۔ کمال کی بات ہے کہ خالق غلط ہے مگر اس کی تخلیق کی ہوئی شے درست ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ جو تمام اداروں کی ماں ہے وہ غلط ہے، ہیں جی، ماں نالوں دھی سیانی اے؟
ہمیں بار بار کہا جاتا ہے کہ جج آئین کے محافظ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ امریکا سے انڈیا تک جہاں آئینی اور جمہوری روایات مستحکم ہیں وہاں ایسا ہی ہوتا ہو مگر ہماری تاریخ اس قول کے درست ہونے کی شہادت نہیں دیتی۔ میں قیام پاکستان سے اب تک کی تاریخ دیکھتا ہوں، یہاں لگے ہوئے ننگے مارشل لاوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان ستر سے زائد برسوں میں صرف اور صرف آئین کی پامالی کے فیصلے ہی ملتے ہیں۔
ہمارے ججوں نے آئین کو ہر آمر کے پاؤں کے سائز کی ایسی جوتی بنایا جسے پہن کر وہ آسانی سے عوام اور عوام کی نمائندہ سیاسی قوتوں کو روندتا رہا۔ یہ بات نہیں کہ جب کوئی جمہوری اور عوامی حکومت ہوتی ہے تو تب اسے جوتا نہیں بنایا جاتا، بنایا جاتا ہے مگر اس وقت یہ جوتا جمہوری حکمرانوں کے سر پر برسانے کے لئے ہوتا ہے، انہیں دن میں تارے دکھانے کے لئے ہوتا ہے اور انہیں لمبا لٹانے کے لئے ہوتا ہے۔
ایک مشہور واقعہ ہے کہ نوے کی دہائی کے ساتویں برس اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر اپنے کارکنوں کے ذریعے حملہ کروا دیا مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ وہ چیف جسٹس آئین کی تیرہویں ترمیم کے ذریعے صدر کو ملے ہوئے اس ڈریکولین اختیار کوبرقرار رکھنا چاہتے تھا جو تین عوامی اسمبلیاں قبل از وقت کھا چکا تھا۔
وہ چیف جسٹس، دوتہائی اکثریت کے حامل وزیراعظم کو توہین عدالت کے قانون کے ذریعے سزا دینا چاہتا تھا۔ آج جب تاریخ کے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی گزر چکا ہے تو یہ واضح ہوچکا کہ عدالتوں کی اصل توہین ان کے غلط فیصلے تھے، عدالتوں کی توہین غلط فیصلوں کے خلاف آہ وبکا اور چیخ وپکار ہرگز نہیں تھی، جنہیں توہین کہتے ہیں وہ ان ججوں کو تاریخ کی عدالت میں باعزت بری رہنے کی درخواستیں تھیں جو بیشتر مسترد ہوئیں اور جرم سمجھی گئیں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے بھرپور اختیارات کے ساتھ ون مین شو بن جانے والے ایک جج نے اپنی کرسی پر بیٹھ کر کہا تھا کہ آئین اور قانون وہ ہیں جسے وہ آئین اور قانون کہے، نہیں مائی لارڈ، ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کرسی پر بیٹھ کے جو رویہ اختیار کرتے ہیں اور لوگ آپ کے سامنے جناب، جناب کرتے نہیں تھکتے کیا وہ آپ کا رویہ اور طنطنہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی رہتا ہے۔
میں نے ایک ایسے جج کو دیکھا جو ایک وفاقی وزیر کو اپنی عدالت میں طلب کرکے ٹکے ٹکے کی باتیں کرکے اپنی انا کی تسکین اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر رہا تھا اور پھر میں ایک بڑے آدمی کے بیٹے کی شادی پر گیا تو وہاں وہی جج اپنے کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اسی سابق وزیرکی آمد ہوگئی جسے عدالت کے بلند ترین منصب پر بیٹھ کے دھمکیاں دی جاتی تھیں (اور پھر ان دھمکیوں پرعمل بھی کیا گیا)۔
سابق وفاقی وزیر نے وہا ں بیٹھے اس سابق فرعون کو دیکھا تو کہا کہ میں نے اس کی طرف نظریں اٹھا کے نہیں دیکھنا، میں اس سے نہیں ملنا چاہتا، اس نے بہت ظلم اور ناانصافیاں کی ہیں لہذا ہم آپس میں بہت اہم گفتگو میں مصروف ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں پھر میں یہاں سے اٹھ کے چلا جاوں گا۔ وہ سابق فرعون عزت ملنے کا منتظر رہا کہ کوئی اس کے پاس آئے اور پھر اسے خود اٹھ کے آنا پڑا تاکہ ہیلو ہائے کرکے اپنی پی آر ٹھیک کر سکے۔ اس سیاستدان کی اعلیٰ ظرفی کے وہ اس کم ظرف کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔
میں نے اسے ڈیڑھ برس پہلے ایک جنازے میں دیکھا تو وہ کسی ناکام و نامراد شخص کی طرح تنہا کھڑا تھا۔ وقت گزر جاتا ہے اور تاریخ لکھی جاتی ہے۔ لکھی ہوئی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس ذوالفقار علی بھٹو نے آئین دیا اور پھر اسی آئین کے تحت اسلام آباد میں سپریم کورٹ کو پرشکوہ عمارت دی، اسی سپریم کورٹ نے اسی ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ایسے مقدمے میں موت دے دی جس مقدمے کا حوالہ بھی اب کسی دوسرے مقدمے میں نہیں دیا جاتا۔
جس نواز شریف نے اس چیف جسٹس اوراس کے ساٹھ ساتھیوں کو بحال کروایا جس کے بال سڑک پر نوچے گئے تھے اور انہیں عہدوں سے ہٹا کے گھروں میں بند کر دیا گیا تھا اسی نوازشریف کو عدالتوں میں سینکڑوں مرتبہ بلا کے گھیسٹا گیا، اسے جیل دی گئی، اس کی بیٹی سمیت پورے خاندان کوجیل میں رکھا گیا مگر وہ آمر جنہوں نے انہیں آئین کی بجائے اپنا ذاتی وفادار بنائے رکھا وہ عزت و تکریم کے قابل ٹھہرے۔ کیا شرمناک تاریخ ہے۔
میں کیوں کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ کا ساتھ دو کیونکہ میری نظر تاریخ پر ہے، اخلاقیات پر ہے، سیاسیاست پر ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہمیشہ پارلیمنٹ کے مقابلے میں، اسے دبانے اور کچلنے والی کسی بھی دوسری قوت کے ساتھ جانے والوں کو، ان کے ساتھیوں کو، ان کی اولادوں کومورخ کے ہاتھوں ذلیل ہونا پڑا اور وہ لوگ سرخرو ٹھہرے جو چاہے موت کی کوٹھڑی تک سے ہو آئے یا انہوں نے پھانسی کے پھندے چومے، وہی کامیاب ٹھہرے جو اپنی مادر وطن سے جدا ہو گئے مگر اس کے عوام سے غداری نہیں کی۔
میں جانتا ہوں کہ اب بھی پارلیمنٹ کے اختیار، کردار اور وقار میں نفی کرنے کے لئے بہت سارے دلائل موجود ہیں مگر وہ سارے کے سارے دلائل فکری مغالطے ہیں۔ مجھے کہنا ہے کہ ہمارے پاس یہی پارلیمنٹ ہے، یہی فوج ہے اور یہی عدلیہ ہے۔ ہمارے پاس یہی سیاسی جماعتیں ہیں اور ہم نے انہی میں سے اپنے ہیرو اور ولن چننے ہیں اور میر ا ولن وہ ہے جو پارلیمنٹ کی نفی کرتا ہے، اسے اہمیت نہیں دیتا، اس کے خلاف سازشیں کرتا ہے، اسے کچلنے والوں کو طاقت دیتا ہے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ آخری فتح عوام کی ہوگی، پارلیمنٹ کی ہوگی اور اگر یہ فتح عوا م اور پارلیمنٹ کی نہیں تو پھر آپ یقین کر لیجئے کہ یہ آخر نہیں ہے، لڑائی ابھی جاری ہے۔