Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Phir Wohi Jazbatiat

Phir Wohi Jazbatiat

آج پی ڈی ایم ہے تب اے پی ڈی ایم تھی یعنی آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں نواز شریف جلاوطنی کاٹ کے نئے نئے وطن واپس لوٹے تھے اور اس وقت بھی پرویزمشرف کے خلاف ایک بڑے اتحاد کے ساتھ تھے۔ اس اتحاد میں عمران خان بھی شامل تھے اور قاضی حسین احمد بھی، محمود اچکزئی اس کے چیئرمین تھے جو 2008 میں ہونے والے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر چکے تھے مگر دوسری طرف اس وقت کی کنگز پارٹی مسلم لیگ (ق) تھی، پیپلزپارٹی تھی، ایم کیو ایم تھی، جمعیت العلمائے اسلام (ف) تھی۔ نواز شریف بھی انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں تھے اور اس کا باقاعدہ اعلان کر چکے تھے۔ یہ وہی انتخابات تھے جن سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا تھا۔ یہ سردیوں کے ہی دن تھے جب میں آج ٹی وی، کی طرف سے یورپی یونین کے سفیروں کے ایک وفد کی میاں نواز شریف سے ملاقات کی کوریج کے لئے جاتی امراپہنچا تھا۔ وہاں پہنچ کرعلم ہواکہ سفیروں کی فلائیٹ کم و بیش ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی ہے مگر اس وقت تک میاں نواز شریف تیار ہو کر اپنی رہائش گاہ سے اس گول کمرے میں آچکے تھے جو میاں محمدشریف مرحوم کا کمرہ کہلاتا تھا اور وہاں دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ باقی لوگوں کے نام میں بھول رہا ہوں مگر ان میں پرویز رشید اورکیپٹن صفدر مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ میاں نواز شریف وہاں موجود صحافیوں سے باری باری پوچھ رہے تھے کہ ان کا بائیکاٹ کا فیصلہ درست ہے اور مجھ سے پہلے تمام کی رائے یہی تھی کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ سو فیصددرست ہے، اس بائیکاٹ سے مشرف حکومت بہت زیادہ دباومیں آجائے گی۔

میں اس کی وجہ نہیں جانتامگرنوازشریف ہمیشہ مجھ سے گفتگومیں خودکوکمفرٹ ایبل محسوس نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ میری ان سے کبھی ون آن ون نہ ملاقات ہوئی نہ میں کبھی ان کے کسی بیرون ملک دورے کا حصہ بنا۔ مجھے ان کے وزیراعظم بننے کے بعدوہ توہین آمیز انرجی کانفرنس آج تک یاد ہے جس میں شرکت کے لئے پی آئی ڈی نے دعوت دی تھی اور ہم لاہور سے جاکر ایوان وزیراعظم میں موجودتھے۔ نواز شریف بارے مشہور ہے کہ وہ جس کےلئے ایک مرتبہ دل میں بغض رکھ لیں کبھی نہیں نکالتے۔ میں نے وہاں پانچ مرتبہ بات کرنے کی کوشش کی کہ میرے ذہن میں توانائی کے بحران کے حل کے لئے، میرے اپنے تئیں، ایک زبردست آئیڈیا کلبلا رہا تھا جو شمسی توانائی کے حوالے سے تھا مگر چارمرتبہ خودمیاں نوازشریف نے میری بات کو ٹوکا، میری بات شروع ہونے پر ایک مرتبہ خودبات شروع کر دی تومجھے خاموش ہونا پڑا، ایک مرتبہ کہا کہ روف طاہر کہاں ہیں انہوں نے سوال نہیں کرنا اور دومرتبہ کسی اور کی طرف اشارہ کردیا کہ وہ بات کرے، پانچویں مرتبہ مجھے علم ہواکہ پرائم منسٹرہاوس کے سٹاف نے میرا مائیک ہی بند کر دیا ہے۔ نواز شریف کا یہی رویہ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں گورنر ہاوس میں ہونے والی ملاقات میں بھی رہا تاہم تب میں نے سوچاتھاکہ بات ہی نہیں کرنی۔ ایسا ہی ایک مرتبہ ماڈل ٹاون کے ایک اجلاس میں ہوا۔ نواز شریف کی گڈبکس میں شامل رہنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ وہ اختلاف پسند نہیں کرتے اور میرے لئے خوشامد کبھی آسان کام نہیں رہی۔

بہرحال، گول کمرے میں وقت کافی تھا اورباری بار ی سب سے رائے لی جا رہی تھی تو ترتیب میں میری باری بھی آ گئی۔ میرا کہنا یہ تھا کہ آپ کا فیصلہ سیاسی حالات کے سیاق و سباق میں درست نہیں ہے۔ پرویزمشرف اپنے بارہ اکتوبر ننانوے کے مارشل لا کی جائزیت حاصل کرچکا ہے مگر اسی حکومت نے ابھی ایمرجنسی پلس لگائی ہے جو سراسر غیر آئینی اقدام ہے، اب پرویز مشرف کو اسمبلیوں سے اس کی توثیق بھی درکار ہو گی ورنہ اس پر یہ تلوار ہمیشہ لٹکتی رہے گی۔ حال ہی میں اسی پر پرویزمشرف کو خصوصی عدالت نے غداری کی سزا سنائی۔ جب یہ گفتگو ہورہی تھی تب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نہیں کی گئی تھیں۔ میں نے کہا، آپ بائیکاٹ کر کے اسمبلیوں سے باہر ہوں گے جبکہ اسمبلیوں میں چوہدری شجاعت حسین ہوں گے، محترمہ بے نظیر بھٹو ہوں گی، الطاف حسین ہوں گے، مولانا فضل الرحمان ہوں گے اور یہ سب مل کر پارلیمنٹ میں اپناکردار ادا کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے اپنے لئے مزید مراعات اور راستے لے لیں گے جبکہ مسلم لیگ نون کو کوئی پارلیمنٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی نہیں کرنے دے گا۔ سیاسی فیصلے، سیاسی حالات کی روشنی میں ہوتے ہیں اور نفع نقصان دیکھا جاتا ہے، پیپلزپارٹی پچاسی کے انتخابات کے بائیکاٹ سے سبق سیکھ چکی ہے جس نے اس کے خلاف ایک پوری سیاسی قیادت کھڑی کر دی۔

میاں نواز شریف نے میری بات سنتے ہوئے کیپٹن صفدر کو کہا کہ وہ ان تمام پوائنٹس کو نوٹ کر لیں اور شام کوماڈل ٹاون میں اپنے وکلا کا اجلاس بلائیں اور ان کے سامنے یہ سب رکھیں۔ وہ خوداس اجلاس میں شریک ہوں گے اور قانونی رائے لیں گے۔ میں شام کو انتظار کرتا رہا کہ اجلاس کے بارے کوئی خبر دی جائے مگر اس وقت اس کے بارے کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی۔ مجھے ایک دورہنماوں نے بتایا کہ قانونی ماہرین نے تمہارے بیان کئے ہوئے تمام نکات اور امکانات کی حمایت کی ہے۔ اس کا عملی نتیجہ یہ آیا کہ مسلم لیگ نون نے 2008 کے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیا اورالیکشن کی تیاری شروع کر دی۔ اسی دوران عرصے میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کر دی گئیں اور نواز شریف نے شدید جذباتی حالت میں مری روڈ راولپنڈی کے ہسپتال میں ایک مرتبہ پھر بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ دلچسپ یہ رہا ہے کہ جس پارٹی کی سربراہ شہید ہوئی تھیں یعنی پیپلزپارٹی، اس نے جوش پر ہوش کو ترجیح دی اور انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا جس پر میاں نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ بن چکی کہ مقتدر حلقے قاف لیگ کو ہی دوبارہ لانا چاہتے تھے مگر بی بی کی شہادت کے بعد پی پی کا راستہ نہ روکا جا سکا۔ مسلم لیگ نون کو انتخابات میں حصہ لینے کا بہت فائد ہ ہوا۔ مرکز میں پیپلزپارٹی کے ساتھ اقتدار میں ساجھے داری ہوئی جو پرویزمشرف کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا کہ جس نواز شریف کی وہ جان لینا چاہتا تھا اسی کے وفاداروں سے حلف لے رہا تھا۔ مسلم لیگ نون نے پنجاب میں حکومت قائم کی، پہلے دوماہ کے لئے دوست محمد کھوسہ اوربعد ازاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ انہی انتخابات کے بعد آصف زرداری صدر بنے اور پرویزمشرف کو ایوان صدر سے رخصت کیا گیا۔

میرا ا س واقعے کو دہرانے کامقصد یہ ہے کہ مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر جذباتیت سے کام لیتی نظر آ رہی ہے جس میں گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ مجھے عرض یہ کرنا کہ ای کیو، یعنی ایموشنل انٹیلی جنس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ محض جذباتی ہوں بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ آپ جذبات کو کنٹرول کرنا اور انہیں ذہانت سے استعمال کرنا سیکھیں۔ جذباتی ذہانت والے لوگ ہمیشہ اپنے کام اور تعلقات میں دوسروں سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ جذباتیت کو انجوائے بھی کرتے ہیں اور جب یہ نقصان دینے لگے تو اسے کنٹرول بھی۔ یہ دوسروں کے جذبات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور انہیں اپنے جذبات کے ساتھ ری کنسائل کر لیتے ہیں۔ اس وقت بھی نواز شریف کم و بیش مشرف دورکی صورتحال کا ہی شکار ہیں اور یہاں فیصلے بھی اسی دور کی طرح کے ضروری ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر آپ میدان سے باہر نکل آتے ہیں توکیا آپ کے بغیر کھیل جاری رہے گا اور اگر رہے گا تو نقصان سراسر آپ کا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ میدان سے نکلنے کے بعد اگر میدان ہی اکھاڑ دیا گیا تو ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ دوبارہ میدان بناتے بناتے بھی آٹھ، دس برس لگ جاتے ہیں۔ مجھے وہ پسند کریں یاناپسند، میں اپنی رائے میں بے ایمانی نہیں کر سکتا، باقی نواز شریف جہاں رہیں خوش رہیں۔