Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. PPSC Chor Hai

PPSC Chor Hai

میرے سامنے بڑی تعداد میں نوجوان پی پی ایس سی چور ہے، کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ ایجرٹن روڈ پر پنجاب پبلک سروس کمیشن کا دفتر تھا جسے ہم ٹھنڈی سڑک بھی کہتے ہیں۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ذمے سرکاری محکموں میں بڑی نوکریوں پرمیرٹ پر شفاف بھرتی ہے کیونکہ اگر سرکاری محکموں میں انہی کے ذمے داروں کے ذریعے بھرتی کی جائے توخدشہ رہتا ہے کہ محکموں کے بڑے نوکریاں اپنوں میں ہی بانٹ دیں گے یا بیچ دیں گے لہٰذا ایک ایسا علیحدہ اور بااختیار محکمہ ہونا چاہئے جو نوکریوں کے امیدواروں کے ٹیسٹ لے، انٹرویو لے۔

یہ نیا پاکستان بننے کے بعد سے عجیب صورتحال ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں نوکریوں کے لئے نوکریوں کی فروخت کی خبریں گردش کر رہی ہیں مگر تاحال کسی کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ یہاں پرچے فروخت کئے جاتے ہیں اور مجھے احتجاج کرنے والے امیدوار بتا رہے تھے کہ تحصیلدار کا پیپر چالیس لاکھ روپوں سے ایک کروڑ روپے تک میں فروخت ہوا۔ خریدنے والوں نے سوچا ہو گاکہ اگر وہ ایک کروڑ روپے قرض لے کر بھی یہ پرچہ خرید لیں اور کامیاب ہوجائیں تو وہ تین سے چار ماہ میں بمعہ سود رقم لوٹا دیں گے کیونکہ پرچہ بیچنے والے بھی کرپٹ، پرچہ خریدنے والے بھی کرپٹ لہٰذا جب وہ تحصیلدار لگیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ایک ہی مہینے میں ہی ایک پارٹی ایسی لگ جائے جو ایک کروڑ دے جائے۔ تحصیلدار کماو سیٹ ہے مگر ہسٹری کے پروفیسر کی سیٹ کماو نہیں ہے اوراس کا ریٹ مجھے پچیس لاکھ روپے بتایا جا رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کوئی ہسٹری کا لیکچرر لگنے کے لئے پچیس لاکھ روپے کیوں خرچ کرے گا تو جواب ملا کہ اس کے نتیجے میں زندگی بھر کی سرکاری روٹیاں لگ جائیں گی لہٰذا یہ بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ یہ کرپٹ فطرت لوگ پی پی ایس سی کی مہربانی سے منتخب ہو کر کرپشن کا کیسا بازار گرم کرتے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔

مجھے پنجاب پبلک سروس کمیشن پر ہرگز شک نہ ہوتا اگراس کے چئیرمین اور سیکرٹری پرچے فروخت ہونے کی اطلاعات پر ازخود نوٹس لیتے اور کرپٹ لوگوں کو گردن سے پکڑ لیتے کیونکہ وہ طاقتور لوگ ہیں مگر ہوا یوں کہ قیامت کے شور کے باوجود کمیشن مردہ بنا لیٹا رہا۔ جب اٹھائیس نومبر کو مظاہرہ ہو رہا تھا تو کمیشن کے چیئرمین نوجوانوں پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی کو دبنگ انداز میں کہہ رہے تھے کہ اگر پرچہ لیک ہوا تو وہ خو د کو میڈیا کے سامنے احتساب کے لئے پیش کر دیں گے۔ نوجوانوں نے چیئرمین سے درخواست کی کہ وہ پرچہ خریدنے کے لئے بھاری سرمایہ کاری میں مدد کریں اور جب وہ نہ مانے تو انہوں نے از خود ہی پیسے جمع کرکے ایک پرچہ خریدنے کی منصوبہ بندی کر لی مگر اس سے پہلے ہی اینٹی کرپشن نے سب پول کھول کے رکھ دیا۔ اب یہ دلچسپ امر ہے کہ جب کمیشن کے ریجنل عہدیداروں سے کلرکوں تک نے پیپرز فروخت کرنے کے اعترافات کر لئے تواس کے بعد بھی کمیشن نے ان پرچوں کو منسوخ نہیں کیا بلکہ انہی پرچوں کے نتائج پر انٹرویو لیٹر جاری کر دئیے۔ دیدہ دلیری (یا پیسے لینے کے بعد معاہدے ہر عملدرآمد) کی حد یہ تھی کہ وہ پیپر خرید کر کامیاب ہونے والے ملزم کو بھی انٹرویو لیٹر جاری کر دیا گیا۔ کمیشن کی طرف سے یہ بھی ہوا کہ انٹری کی آخری تاریخ کے بعدہی نہیں بلکہ پیپرز کے انعقاد کے بعد بھی امیدواروں کی فہرست میں اضافہ ہوتا رہا۔ میں جوں جوں امیدواروں سے کمیشن کی دیدہ دلیری سے کرپشن کے واقعات سن رہا تھا تومیرا یقین بڑھتا جا رہا تھا کہ پی پی ایس سی چور نہیں ہے کیونکہ چور بھی شرم لحاظ ہوا ہوتا ہے، یہ ڈاکووں کا کوئی گروہ ہے۔ یہ وہ نہیں جو صرف مردے کا کفن چوری کرتے ہیں بلکہ یہ مردے کے اعضا بھی چوری کرتے ہیں اور پھرزیادتی بھی کرتے ہیں۔

احتجاج کرنے والے نوجوان بہت محتاط تھے۔ و ہ کوئی سیاسی بات نہیں کرنا چاہتے تھے ا ور اس وقت وہ جذباتی بھی ہوئے جب جماعت اسلامی کے کچھ لوگوں نے ان کی حمایت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ نہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں اور نہ ہی مخالف تاہم ان کو شکوہ ضرور تھا کہ جہاں وزیراعظم عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کاجووعدہ کیا تھاوہاں ان کے بنائے نئے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں اعلیٰ سرکاری نوکریاں دینے والا ادارہ نوکریاں بیچ رہا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کا سربراہ ان امیدواروں کے سوالوں کے جواب دینے کے لئے بھی تیار نہیں تھا جنہوں نے اسی وعدے پر بلے پر نہ صرف خود مہریں لگائی تھیں بلکہ ضد کر کے اپنے جہاں دیدہ بزرگوں سے بھی لگوائی تھیں جو ان وعدوں پر شدید ترین تحفظات اور اندیشے رکھتے تھے۔ نوجوان کہہ رہے تھے کہ وزیراعلیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے اپنی انسپکشن ٹیم سے انکوائری کا حکم دیا تھا، د و جنوری کو حکم دیا گیا اور سات جنوری کو تحقیقات مکمل ہونی تھیں، یہی بات مجھے پی ٹی آئی میں سب سے زیادہ محنت کرنے والے منسٹر فار ہائیر ایجوکیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی راجا یاسر ہمایوں سرفراز نے بتائی تھی، انہوں نے یقین کا اظہار کیا تھا کہ ان کی حکومت کسی گندی مچھلی کو نہیں چھوڑے گی۔ میں جب گیارہ جنوری کی دوپہر احتجاجی نوجوانوں کے ساتھ بات کر رہا تھا تو اس وقت تک سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ نہیں آئی تھی اور نوجوان امیدوار اپنے بدترین اندیشے ظاہر کر رہے تھے کہ پی پی ایس سی کے پرچے او رنوکریاں یونہی نہیں فروخت ہو سکتیں، یہ اسی صورت ممکن ہے جب عثمان بُزدار کو اس میں سے حصہ جا رہا ہو۔ وہ گڈ بلکہ شہباز شریف کی ٹائیٹ گورننس کو یاد کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ شہباز شریف کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہیں تھا۔

مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے نوے کی دہائی میں کس طرح نقل ہوا کرتی تھی اور سوچا جاتا تھا کہ بورڈوں میں پرچے فروخت ہونے اور نمبر لگوانے کا کوئی توڑ ہی نہیں ہے مگر شہباز شریف نے یہ کر دکھایا تھا اورمیں نے کم از کم گذشتہ بیس برسوں میں پرچے فروخت ہونے، نقل کرنے کروانے، نمبر لگوانے اور پیپرتبدیل ہونے کے سکینڈل نہیں سنے۔ پنجاب کا امتحانی نظام اس حد تک فول پروف ہوتا جا رہا تھا کہ مختلف پروفیشنل انسٹی ٹیوشنز کے لئے انٹری ٹیسٹ ختم کرنے کے مطالبات ہونے لگے تھے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن نے یقینی طور پر پنجاب کے منہ پر کالک مل دی ہے۔ میں اس معاملے کو جتنا کریدتا ہوں تومیرا دل چاہتا ہے کہ میں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جناب قمر جاوید باجواہ سے مطالبہ کروں کہ وہ ذاتی دلچسپی لے کر پی پی ایس سی کے کم از کم ایک برس کے تمام امتحانات اور تقرریاں منسوخ کر دیں کہ یہاں پرچے اور نوکریاں اتنی ہی آسانی سے فروخت کی جا رہی ہیں جیسے کسی سبزی منڈی میں آلو اور گوبھی بکتے ہیں۔

مجھے علم ہوا کہ یہاں صرف چوری ہی نہیں ہورہی بلکہ غنڈہ گردی بھی ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ اس بارے میں آواز اٹھانے والوں کو دھمکا رہے ہیں اور موقف اختیار کر رہے ہیں کہ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ خراب کی جا رہی ہے تو ان سے کہنا ہے کہ کمیشن کی ساکھ امیدواروں یا میڈیا نے نہیں خراب کی بلکہ اس کے عہدیداروں نے خود کی ہے جو پنجاب کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ تاریخ کی بدترین ڈکیتی کو روکنے کے بجائے اس کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ میں ذی عقل یہ بات تسلیم ہی نہیں کر سکتا کہ چئیرمین اور سیکرٹری مہینوں سے جاری اس واردات سے لاعلم ہوں جبکہ یہ سب کچھ ان ناک اورمونچھوں کے عین نیچے اور منہ کے بہت ہی قریب ہو رہا ہو۔ پی ٹی آئی نوجوانوں کی جماعت کہلاتی ہے مگر اس کے دور میں نوجوانوں کے ساتھ ہی تاریخ کی سب سے بڑی زیادتی کر دی گئی ہے، کیا پی ٹی آئی نے نوجوانوں کا نام اس لئے لیا تھا کہ انہی کی اہلیتوں، خوابوں اورمستقبل کو بیچ کھائے؟