Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Pti Core Commander House Mein

Pti Core Commander House Mein

میری نظرمیں گذشتہ برس نو مئی کے بعد سب سے بڑی پولیٹیکل ڈویلپمنٹ عام انتخابات نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کابینہ کا الیون کور میں افطار ڈنر ہے۔ یہ اس لئے بھی ایک بڑا واقعہ ہے اس سے پہلے کوئی وزیراعلیٰ اپنی کابینہ لے کر کورکمانڈر ہاؤس نہیں گیا۔ پی ٹی آئی کا کور کمانڈر ہاؤس کا یہ دورہ نو مئی کے دوروں، سے بہت مختلف ہے جب باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پی ٹی آئی کے عہدیدار، کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ فوجی چھاؤنیوں میں پہنچے تھے۔

جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا تھا، لاہور کے کورکمانڈرہاؤس کو جلا کے راکھ کر دیا گیا، سرگودھا سمیت مختلف جگہوں پر شہدا کی یادگاروں پر حملہ کیا گیا۔ گوجرانوالہ کینٹ پر حملہ کرنے والے پی ٹی آئی کے ایک ایم پی اے سمیت نوکارکنوں کو مجموعی طور پر بیس بیس سال قید اور تیس تیس ہزار روپے جرمانوں کی سزائیں بھی ہوچکی ہیں۔ ہم ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات دیکھیں تو وہ فوج سے محاذ آرائی کے خلاف نظر آتے ہیں مگر کسی بھی پارٹی کی اصل پالیسی اور سوچ سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے۔

خیبرپختونخواہ کابینہ کے الیون کور میں افطار ڈنر، سکیورٹی امور پر بریفنگ اور وہاں وزیراعلیٰ کے خطاب کودیکھا جائے تو یہ فوج کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس کے محض ایک افطا ر ڈنر سے پی ٹی آئی کا اینٹی سٹیٹ اور اینٹی آرمی بیانیہ خود شیر افضل مروت کے الفاظ میں وڑگیا ہے۔

یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے کہ پی ٹی آئی اس سے پہلے امریکا پر اپنی حکومت کے خاتمے کی سازش کا الزام لگاتی رہی لیکن پھر امریکا میں بھاری معاوضوں پر لابنگ فرمیں ہائر کی گئیں، ریاست مخالف خطوط لکھے گئے، امریکا میں ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے پاکستان کی معاشی مدد یعنی لائف لائن روکنے کے لئے مظاہرے کئے گئے مگر پی ٹی آئی کو پاکستان سے تعاون رکوانے میں ناکامی ہوئی۔

یہ ریاست اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف کی کامیابی تھی کہ ایک طویل عرصے بعد امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستانی حکومت کو ایک خط لکھا گیا جس میں اعلان کیا گیا کہ خطے کے ساتھ ساتھ عالمی بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان اپنی گرفتاری سے قبل انٹرنیشنل میڈیا کو دئیے گئے اپنے انٹرویوز میں امریکا پر اپنے الزامات واپس لے چکے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے بیانات کچھ اور ہیں اور انٹرنیشنل میڈیا میں وہ بالکل مختلف باتیں کرتے ہیں۔ بہرحال حکومت کے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے خاتمے کے بعدیہ ان کا دوسرا بڑا یوٹرن ہے۔ یہاں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی سیاسی حکمت عملی کا تجزیہ بھی دلچسپ ہے۔ علی امین گنڈا پور گذشتہ برس نو مئی کے حملوں کے منصوبہ سازوں میں سمجھے جاتے ہیں۔

پی ٹی آئی بار بار کہتی ہے کہ وہ پنجاب کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتی مگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ایک سے زیادہ مرتبہ ایوان وزیراعظم کی یاتراکر چکے ہیں۔ ان کی دو یاتراوں میں ایک وزیراعظم سے باقاعدہ سیاسی اور کسی حد تک ون آن ون ملاقات تھی اور دوسری ایس آئی ایف سی کی اپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت تھی جس میں انہوں نے وزیراعظم اور دیگر وزرائے اعلیٰ کے ساتھ تصویریں بھی بنوائی تھیں۔

اس میٹنگ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی کہ نومئی تحریک انصاف کی بہت بڑی غلطی تھی۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے ہی ملک کے اداروں پر حملے کرکے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے تمام ٹرولز کو یہ دوٹوک ہدایات جاری کرے کہ حیدرمہدی، شاہین صہبائی اور عادل راجا کے دئیے ہوئے بیانئے کو آگے نہیں بڑھانا، وہ غدار وطن ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے کہ الیون کور میں پوری کابینہ کو بریفنگ اور وہاں وزیراعلیٰ کا خطاب موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے لئے ایک کامیابی بھی ہے اور اگر یہ ایک یوٹرن ہے تو یہ اس سڑک پر ایک اچھا اور مثبت یوٹرن ہے جس سڑک پر آگے بہت بڑا گڑھا ہے۔ یہ کہنے میں عار نہیں کہ فوج نے بھی پوری کابینہ کو بلا کے اور سکیورٹی امور پربریفنگ دے کر جہاں خیبرپختونخوا کے مینڈیٹ کا احترام کیا ہے وہاں ایک مرتبہ نومئی سے اب تک ظاہر کئے جانے والے میچور رسپانس کا اعادہ کیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس تبدیل شدہ صورتحال میں کیا بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملے گا اورکیا کور کمانڈرکے اجلاسوں کے ان اعلانات پر عمل ہوگا کہ نو مئی کے ذمے داروں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ میرا تجزیہ ہے کہ پی ٹی آئی کو خود کو شرپسندوں سے الگ کرنا ہوگا۔ نومئی کے ذمے داروں کو سزائیں ملنا شروع ہوگئی ہیں اور ان ملاقاتوں کے باوجود مجھے ان سزاوں کا سلسلہ رکتاہوا نظر نہیں آتامگر اسی صورتحال کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر جیسے ذمے داروں نے یہ دعوے کرنا شروع کردئیے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی اسی ماہ جیل سے باہر آ جائیں گے۔

میں نے دیکھا ہے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی اس اہم ترین ایشو پر سیاسی محاذ اور سوشل میڈیا پر کھیلنے میں ناکام رہی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر مریم نواز اپنی کابینہ لے کر اسی طرح کور کمانڈر لاہور کے دفتر میں جاتیں تو ان پر حملے ہو رہے ہوتے۔ اس کے ذریعے ان کے مینڈیٹ کو جعلی ثابت کیا جا رہا ہوتا۔ کاسہ لیسی اور پالش سمیت دیگر طعنے دئیے جا رہے ہوتے۔

میں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پالیسی اور بیانیہ سازی کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ آج عمران خان دوبارہ اسی سٹیٹ آف مائنڈ میں چلے جائیں جو دو ہزار گیارہ سے دوہزار بائیس تک رہی توچند ہی تقریروں میں اپنے فالورز کو قائل کر لیں گے کہ مفاہمت ہی بہترین پالیسی ہے توکیا وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون اگر فوج کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے تو اسے جسٹی فائی نہیں کرپاتی؟ فوج سے اپنے تعلق کو فخر سے بیان نہیں کرپاتی؟ ہمیشہ ڈیفنسیو کیوں رہتی ہے؟ اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہونا ہرگز شرمندگی کاباعث نہیں ہے۔ آپ وزیراعلیٰ کے پی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کی بات سنیں، انہوں نے اپنے یوٹرن کے باوجود ڈٹ کرکہا، ہم اپنی فوج کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے تو بھارتی فوج کے ساتھ بیٹھیں گے؟

مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی ہوچکی۔ پی ٹی آئی حکومت جانے کے غم سے سنبھل چکی۔ اب وہ زیادہ منطقی اور ماہرانہ اندازمیں اپنے پتے آگے بڑھا رہی ہے۔ اب مسلم لیگ نون کے پاس وزارت عظمیٰ بھی ہے اور ملک کی سب سے بڑی وزارت اعلیٰ بھی۔ اس کے پاس پیپلزپارٹی بھی ایک مخالف کی بجائے اتحادی کے طور پر موجود ہے۔ شہباز شریف پوری محنت کرکے ریاست کو بچانے میں کامیاب نظر آ رہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کور کمانڈر ہاؤس پہنچنے کے بعد نواز شریف سیاست بچانے کے لئے اپنی ہائبرنیشن ختم کرتے ہیں یا نہیں۔