پنجاب اسمبلی میں سات نشستیں رکھنے والی پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ پی پی پی، پنجاب کے عوام کو عید پر ان ہاوس تبدیلی کا تحفہ دے گی، مسلم لیگ نون پنجاب کے لئے اپنے وزیراعلیٰ کے امیدوار کا اعلان کرے تو پیپلزپارٹی اس کا ساتھ دے گی کہ حکومتی جماعت کے پچیس سے تیس ارکان ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ میں ذاتی طور پر حسن مرتضیٰ کوایک غیر سنجیدہ بلکہ مسخرہ قسم کا شخص سمجھتا ہوں جوپنجابی جگتوں سے سے واٹس اپ گروپوں میں سٹیج اداکاروں جیسی شہرت حاصل کئے ہوئے ہے۔ اس قسم کے مخولئے ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں مگر پیپلزپارٹی کی پنجاب میں عدم مقبولیت کا عالم یہ ہو گیا ہے کہ فلموں میں ولن کے ساتھ مزاحیہ ماریں کھانے والوں جیسے ایکسٹراز اب اس کے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پارلیمانی لیڈر ہیں۔ حسن مرتضیٰ اس لئے جوش اورجنون میں ہیں کہ ان کی پارٹی قومی اسمبلی میں سرکاری امیدوار کو سات ووٹوں سے شکست دیتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کروا چکی ہے اور اب یہ الگ بات ہے کہ ان کے ساتھ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں کیا ہوا، وہی ہوا، جو بے اصولی اور بے ضمیری کے ہرکاروبار میں ہوا کرتا ہے۔
یہ صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ عید پر ان ہاوس تبدیلی کا تحفہ دیں گے یعنی پیپلزپارٹی یہ سمجھتی ہے کہ رمضان المبارک میں بھی لوٹوں کی منڈی لگا سکتی ہے اور یہ بھی کہ جب اللہ رب العزت شیطان کو بند کر دیں گے تو یہ اس وقت بھی ضمیروں کے سودوں کے لئے آزاد اور کھلے ہوں گے۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی کے حلقوں کادعویٰ تھا کہ ان کے مقتدر حلقوں سے پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے پر اتفاق رائے ہو گیا تھا مگر نواز لیگ نے انڈرسٹینڈنگ سے روگردانی کی۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی نے وزیراعلیٰ بننے کی خواہش میں ہی نوازشریف کا ساتھ چھوڑا اور ڈپٹی پرائم منسٹر بننے کی خواہش میں چوہدری ظہور الٰہی کے دشمنوں کے ساتھ مل کر عہدہ سنبھال لیالہٰذا وہ اب بھی وزیراعلیٰ بننے کے شوق میں اپنے دس ارکان کے ساتھ ان کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی ڈی فیکٹو سربراہ مریم نواز نے اعلان کر دیا کہ چوہدری پرویز الہٰی کی بطوروزیراعلیٰ حمایت ان کے نظرئیے اور جدوجہد کی نفی ہوگی لہٰذا یہ کہانی تو ٹھُس ہو گئی اوراب وہ بھائی صاحب جو عملی طور پر نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں، نوازلیگ کو اپنا امیدوار لانے کا دانہ ڈال رہے ہیں۔ وہ اپنے تئیں شاطرانہ چال چل رہے ہیں کہ حمزہ شہباز شریف ان کاڈالا ہوا دانہ چگ سکتے ہیں اور یوں مریم اور حمزہ کے درمیان اختلافات عملی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
ہمیں پنجاب اسمبلی کے 368 ارکان کی موجودہ تقسیم پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جس میں پی ٹی آئی کے پاس 181، قاف لیگ کے پاس 10، آزاد4 اور راہ حق پارٹی کا ایک ایم پی اے ہے جبکہ مسلم لیگ نون کے پاس 165 اور پی پی پی کے 7 ایم پی ایز ہیں۔ حکومت بنانے کے لئے کسی بھی پارٹی کو 190 کے قریب ایم پی اے درکار ہیں اور ایک طرف تقسیم کے مطابق حکومتی اتحاد 196 جبکہ اپوزیشن اتحاد 172 ووٹ رکھتا ہے۔ نارووال، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ سے نواز لیگ کے چار سے پانچ ایم پی اے لوٹے ہونے کے بعد اس فرق میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے تاہم اگر کتابی صورتحال پر ہی رہا جائے تو اپوزیشن کو حکومت میں آنے کے لئے کم از کم 18ایسے ارکان کی ضرورت ہے جو اپنی نشستیں داو پرلگا کر اپوزیشن کے اس اتحاد کا ساتھ دیں جس کے مستقبل کابھی کسی کو علم نہیں۔ جب پی ڈی ایم ٹوٹ رہی ہے تو حکومت کا وہ کون سا ایم پی اے ہو گا جو پنجاب میں پیپلزپارٹی کا دانہ چگے گا، ہاں، نواز لیگ کے ٹکٹ میں ضرورکشش ہوسکتی ہے مگر نواز لیگ جب لوٹے خریدے گی تو وہ پی پی کے ذریعے کیوں خریدے گی؟
پیپلزپارٹی والوں کے پاس حکومتی ارکان جمع کرنے کی دو سے تین بڑی دلیلیں ہیں۔ ایک دلیل یہ ہے کہ پیپلزپارٹی مقتدر حلقوں کے ساتھ سیٹ ہوچکی ہے جبکہ عثمان بزدار مقتدر حلقوں کے لئے پہلے دن سے ہی ناقابل قبول ہیں۔ ان کی مبینہ کمزور کارکردگی نے ان کے ناقابل قبول ہونے کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور پیپلزپارٹی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسرے یہ کہ پنجاب کے ارکان میں عثمان بزدار کے لئے ناپسندیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ تیسری یہ کہ اگر پنجاب میں تبدیلی آتی ہے تو یہی تبدیلی خیبرپختونخوا سے سفرکرتی ہوئی وفاق تک جائے گی مگر میرے خیال میں پہلی بات کے علاوہ باقی دونوں مفروضے ہیں اور پہلی دلیل پر بھی جوابی نکتہ ہے کہ جناب عمران خان اب تک ہر قیمت پرعثمان بزدار کو ہی برقرار رکھنا چاہتے ہیں چاہے آپ اس کی روحانی یا غیر روحانی کوئی بھی وجہ بیان کرتے رہیں۔ سرکاری ارکان نہ یوولے ہیں نہ بغلول، وہ جانتے ہیں اگر انہوں نے کسی قسم کی مہم جوئی کی تو وہ بھی نیب، اینٹی کرپشن اور پولیس کے ریڈار پر آ نے کے علاوہ نااہل بھی ہوسکتے ہیں۔
میرے اس کالم کے تحریر کرنے کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ میں پنجاب میں تبدیلی نہیں چاہتاکہ پنجاب بدانتظامی کی بدترین مثال بن چکا، دو، اڑھائی عشروں کی ترقی اور خوشحالی کو ریورس گئیر لگ چکا مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر بے ضمیروں، موقع پرستوں اور لوٹوں کے ذریعے ہی کوئی تبدیلی آنی ہے تو ہم اس تبدیلی سے لنڈورے ہی بھلے، یہاں پہلی تبدیلی ہی کافی ہے، ان کے ذریعے ایک اور کمزور حکومت قائم ہوگی، اس کے خلاف بھی ریشہ دوانیاں ہوں گی، یوں پنجاب گندی اور غلیظ سیاست کا مرکز بنا رہے گا۔ اگر مسلم لیگ نون یہ سمجھتی ہے کہ مقتدر حلقوں کی مداخلت سے قائم ہونے والی حکومت غلط اور بری ہے تومیں سمجھتا ہوں کہ لوٹوں سے قائم ہونے والی حکومت بھی اتنی ہی غلط اور بری ہے، آہ، کب تک ہم ا ن موقع پرستوں کے ہاتھوں اپنی سیاست کے سیاہ ست بنا کے پیش کرتے رہیں گے۔ آپ پیشاب سے کپڑے کو لاکھ مل مل کے دھوئیں وہ صاف اور پاک نہیں ہوتا۔ میں کسی کامیابی کوکامیابی نہیں سمجھتا اگر اس کو اصولوں اورمیرٹ پر حاصل نہ کیا گیا ہو اور ایسی کوئی حکومت ڈیلیور کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتی۔ آپ جناب عمران خان کے وزیراعظم بننے کی مثال دیکھ لیں، وہ لاکھ کرشمہ ساز لیڈر ہونے کے دعوے کرتے رہیں مگر وہ حقیقی طور پرناکام ثابت ہوئے ہیں اور اگر حمزہ شہباز اٹھارہ بے ضمیر حکومتی اور سات پی پی ارکان کی مدد سے ایک کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بن بھی جاتے ہیں تو اس کا پنجاب کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔