قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے قومی حکومت کے قیام کی تجویز پیش کر دی ہے۔ ہمارے بہت سارے جمہوری دوستوں نے اس پر آواز لگائی ہے کہ قومی حکومت کا آئین میں کہاں ذکر ہے اور اس سے پہلے یہ شوشا صرف منتخب حکومتوں کو گھر بھیجنے اور ان کی جگہ لینے کے لئے چھوڑا جاتارہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں جتنی بھی نام نہاد قومی حکومتیں بنیں وہ ہومیوپیتھک تھیں۔
ان کے وزراء بظاہر غیر سیاسی تھے اورکچھ اپنے شعبوں کے کسی حد تک ماہر، یہ حکومتیں نگران قسم کی زیادہ تھیں جن کی مدت بہت کم تھی اور اگر کسی فوجی حکمران نے ایسی کوئی قومی حکومت قائم کی تو وہ دراصل اس کے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے تھی، وہ قومی سے زیادہ اس آمر کی اپنی حکومت تھی مگر قوم کو لاحق امراض کے علاج کے لئے شہباز شریف کا تجویز کردہ نسخہ اپنے اجزائے ترکیبی اور مدت استعمال میں مختلف دکھائی دیتاہے۔
مجھے سب سے پہلے اس حکومت کے غیر آئینی ہونے پر مکالمہ کرنا ہے کیونکہ میں کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کر سکتا چاہے وہ کتنا ہی خوبصورت اور شاندار کیوں نہ نظر آ رہا ہو، اس کے نتائج کے حوالے سے چاہے کتنے ہی بڑے دعوے کیوں نہ ہوں۔ مجھے بہترین نتائج کی گارنٹی دیتے ہوئے غیر آئینی اقدامات ہمیشہ بھاٹی لوہاری کے مجمعے بازوں کے سٹرائیڈز لگتے ہیں جوہمیشہ مرض کو بڑھا دیتے ہیں، عام درد کے مریض کو کینسر کروا دیتے ہیں۔
میں شہباز شریف کی تجویز کو جہاں تک سمجھا ہوں یہ ماضی کی دونمبر قومی حکومتوں جیسی بات نہیں ہے۔ یہ جمہوری سیاسی جماعتوں کو دعوت ہے کہ وہ ملکی مسائل کے حل کے لئے بڑے ظرف اور کردار کا مظاہرہ کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کی پارٹی الیکشن میں اکثریت لیتی ہے جس کی واضح امید نظر آ رہی ہے تو وہ قومی حکومت کے حل کی طرف جائیں گے لیکن اگر کوئی دوسری پارٹی آتی ہے تو وہ اپنی حکمت عملی پر چل سکتی ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات وہی کر سکتا ہے جو شیئرنگ کا ظرف اور حوصلہ رکھتا ہو، جس کا پیٹ بھرا ہوا ہو اور جسے آمرانہ اقتدار کی خواہش نہ ہو۔ اگر قومی حکومت عوام کی حقیقی نمائندہ جماعتیں قائم کریں گی تو یہ عین آئینی ہو گی، قانونی ہوگی۔
ہمیں اس سوال کا جواب لینا ہے کہ کیا ملک کو ایک قومی حکومت کی واقعی ضرورت ہے تو ہمیں اپنے پچھلے تیس سے پچاس برس کی سیاست کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان پانچ عشروں میں دو مارشل لاز بھی شامل ہیں۔ ان میں جناب ذوالفقار علی بھٹوکا دور بھی شامل ہے جس میں اختلاف کرنے والے سیاستدانوں اور صحافیوں تک نے قلعوں اور عقوبت خانوں تک کو بھگتا۔ اسی میں ضیاء الحق کا مارشل لاء بھی شامل ہے جس نے کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر دیئے۔
اس میں نوے کی دہائی بھی شامل ہے جب اٹھاون ٹو بی کا ہتھوڑا چلتا رہا اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی رہیں۔ مشرف کا دور اور موجودہ صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ ہمارے سامنے دو قسم کے بحران ہیں۔ ایک بحران سیاسی پختگی، قومی سطح پر تعاون اور عام آدمی کی امید کا بحران ہے۔ ہم سیاسی انتہا پسندی کے مرض کا شکار ہیں۔ مارشل لائوں کے بعد جناب عمران خان نے اس مرض کو انتہا پر لے جانے میں اپنا کردارادا کیا ہے۔ ہماری سوچیں اور ہماری باتیں بہت زیادہ سیاست زدہ ہوچکی ہیں۔
ہم ایک دوسرے کو کافر، غدار اور کرپٹ قرار دینے میں لمحہ نہیں لگاتے۔ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نظر نہیں آتے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نہ اپنی اسٹیبلشمنٹ بدل سکتے ہیں نہ اپنے سیاستدان، ہم اپنے عوام بھی نہیں بدل سکتے، ہاں اپنے رویئے ضرور بدل سکتے ہیں جس کے لئے مناسب ماحول اور اچھی تربیت کی ضرورت ہے۔
ہماری ضرورت ملک میں سیاسی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر معاشی استحکام کی ہے۔ ہماری ہراپوزیشن جماعت ہر وقت ہرحکومت کو ہر صورت گرانا چاہتی ہے جس کا حل یہی ہے کہ وہ سب سسٹم کا حصہ ہوں۔ اس سے فیض یاب ہو رہی ہوں۔ کیا مولانا فضل الرحمان، نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اتنے ہی مایوس اور غصے میں ہوتے اگرو ہ پارلیمنٹ کا حصہ ہوتے، میرا خیا ل ہے نہیں۔ قومی حکومت کے قیام کی دوسری بڑی ضرورت معاشی استحکام کا حصول ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان ان تین، ساڑھے تین برسوں میں بری طرح تباہ ہوا ہے۔ ہم کرونا کا جواز پیش کرتے ہیں مگر کرونا سے پہلے ہی پاکستان کی جی ڈی پی کریش کر چکی تھی، ڈالر کا ریٹ بہت اوپر جا چکا تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم انفلیشن میں دنیا کے بدترین کارکردگی کی حامل حکومتوں کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔ امیر، امیر ترین اور غریب، غریب ترین ہوتا جا رہا ہے۔ ناقص کارکردگی نے کرپشن کو تین گنا بڑھا دیا ہے اور فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے خطرات دگنا ہوگئے ہیں۔
اگر آپ پاکستان کو چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو دو اقدامات فوری طورپر کرنا ہوں گے، پہلا یہ کہ پاکستان کا منتظم اس شخص کو بنانا ہوگا جو اپنی انتظامی صلاحیتوں کے حوالے سے اوج کمال پرہو، دوسرے سیاسی نظام کو معاشی ترقی کے لئے استحکام کو دینا ہوگا جو ایک قومی حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مجھے قومی حکومت کے اس فارمولے میں جو شے سب سے کمزور نظر آتی ہے وہ جناب عمران خان کی عدم موجودگی ہے مگر اس اعتراض کا یہ جواب بھی قابل غور ہے کہ سیاسی نفرت میں انتہا کو پہنچے ہوئے عمران خان کیا ملک کی خاطر آپس میں تعاون اور اختیارات کی تقسیم کار پر آمادہ ہوسکتے ہیں تو جواب نفی میں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ سیاستدان راہیں نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں مگر اس کی کیا راہ نکلے گی کہ اگر مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی، جمعیت العلمائے اسلام، ایم کیو ایم، قاف لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر چھوٹی قوتیں بھی ساتھ مل جائیں تو ملک میں ترقی اور خوشحالی کے انقلاب کی بنیاد رکھنے کے لئے ہاتھ اور دل ملا لئے جائیں تو عمران خان اس کی واحد اپوزیشن ہوں اور حکومت سے ناراض ہونے والے ہر شخص کی واحد امیدبن جائیں۔
یہ فارمولہ عمران خان کو ایک مرتبہ پھر اسی طرح فائدہ دے گا جس طرح پچھلے پندرہ، بیس برسوں میں، مشرف کے مارشل لاء اور اس کے بعد، مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے میثاق جمہوریت سے ایک نئی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔ پیپلزپارٹی نے جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں ایک مخلوط (اور کسی حد تک قومی کہہ لیجئے) حکومت بھی قائم کی مگر عمران خان نے اس انتہائی مثبت کوشش کو بھی منفی سیاسی رنگ دیا اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا حتیٰ کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے اپنا لاہور کا جلسہ کامیاب کروانے میں کامیاب ہوگئے۔
انہوں نے اس کے لئے اس وقت کے مقتدر حلقوں سے کامیاب اتحاد کیا جو پرانی اور مقبول سیاسی جماعتوں کے اشتراک عمل، تعاون اور کامیابی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ عمران خان نے بار بار کہا اور اب بھی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ایک ہی ہیں۔ وہ اس نعرے کو پھر استعمال کریں گے اور اپنی بدترین کارکردگی کی حامل حکومت کی ناکامیاں اس بیانیے میں چھپا لیں گے۔ ملک کے بہترین مفاد میں قومی حکومت کی قربانی پیش کرنے والوں کو اس سیاسی نقصان بارے سوچنا ہو گا۔