تحریک انصاف کے بلوائی اور فسادی ڈی چوک تک پہنچ گئے جس کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا دیا گیا جیسے کوئی انقلاب آگیا ہو۔ ایک صحافی کے طور پر میرے لئے بھی یہ حیران کن تھا کہ یہ لوگ بغیر کسی تصادم کے پہلے پنجاب، پھر اسلام آباد اور آخر میں ڈی چوک میں کیسے داخل ہو گئے۔ میں نے بہت سارے لوگوں کو پڑھا جن میں کچھ باخبر تھے اور کچھ بے خبر مگر سب ریاست پر برہم تھے کہ وہ کمزوری کامظاہرہ کر رہی ہے۔
میں نے سوچا، ریاست کا انٹرویو کیا جائے کہ وہ کیا کر رہی ہے، کیا سوچ رہی ہے اور تھوڑی سے کوشش کے بعد ریاست تک اسی طرح پہنچ گیا جس طرح ہم میں سے بہت سارے اپنے اندر سے سچ اور ضمیر تک پہنچ سکتے ہیں۔ میں نے ایک پروفیشنل صحافی کی طرح پہلا سوال ہی یہ داغا کہ تم ناکام ہوگئی ہو، بلوائی اور فسادی ڈی چوک تک پہنچ گئے ہیں۔
ریاست مسکراکے بولی، میری مجبوری یہ ہے کہ میں اپنے شہریوں کواس طرح قتل نہیں کرسکتی جس طرح گذشتہ روز میرے بیٹے مبشر کو شہید کیا گیا، رینجرز کے چار اہلکاروں کو گاڑی کے نیچے کچلا گیا، سنو، نہ میرے پاس بلوائیوں کومارنے کے لئے گولیاں کم ہیں اور نہ ہی انہیں کچلنے کے لئے گاڑیاں مگر میں ایسا کبھی نہیں کروں گی کیونکہ میں نے آئین اور قانون کے مطابق چلنے کا عہد کر لیا ہے، فسادی اور بلوائی میری اسی کمزوری کافائدہ اٹھا رہے ہیں کہ میں اپنے شہریوں کو مارنا نہیں چاہتی، میں ان کے لئے ماں جیسی ہوں، وہ ماں جو شرارت اور نقصان کرنے پر بچے کو تھپڑ تو مار دیتی ہے مگر اسے جان سے نہیں مارتی۔
میں نے ریاست کاموقف سنا مگر میرے لئے یہ بات پھر بھی ناقابل قبول تھی کہ چار، پانچ ہزار کا جتھہ کئی گنا سیکورٹی والوں کو چکمہ دیتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہوجائے اور ان میں سے چار، پانچ سو کنٹینروں پر بھی چڑھ جائیں۔ ریاست نے واضح کیا، انہیں علم ہے کہ ان کا راستہ محض لاٹھیوں سے روکا جا رہا ہے یا آنسو گیس کی شیلنگ سے مگریہ نرمی اور شفقت میری کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے جسے میں نے عشروں کے تجربوں کے بعد حاصل کیا ہے، جان لو، یہ چند ہزار گمراہ بھی راہ راست پر آ جائیں گے اور اس وقت تم سمیت سب مجھے سراہو گے کہ میں نے انہیں اپنے بچوں کی طرح ٹریٹ کیا۔
میں کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہوں اور تم مناسب سمجھو تو شائع کر دینا اور مناسب سمجھو تو اسے آف دی ریکارڈ رکھ لینا کہ اس وقت بیلارس کے صدر، وزرا اورکاروباری افراد کا ستر رکنی وفد پاکستان میں موجود ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ ان کے سامنے کوئی تماشا لگے۔
سردار ایاز صادق اور محسن نقوی نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملک و قوم کی رسوائی کا سامان کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ وہ ہر اس موقعے پر احتجاج کرتے ہیں جب کوئی بڑا غیر ملکی مہمان پاکستان آیا ہوتا ہے۔ ریاست نے اس موقعے پر شکوہ کیا کہ کیا تمہیں پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کے قتل کا کوئی دکھ نہیں ہے کہ تم اس کا سوال نہیں کررہے۔ میرا جواب تھا کہ اسی کی بنیاد پر تو یہ تاثر بن رہا ہے کہ ریاست کمزور ہے۔
میرا اگلا سوال تھا کہ عمران خان اور ان کے ساتھی تو تمہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور یہ کہ ان سے زیادتی ہو رہی ہے۔ ریاست پھر مسکرائی اور کہنے لگی ریاست کبھی اپنے شہریوں کی دشمن نہیں ہوتی۔ اگرمیں ان کی مخالف ہوتی تو اس وقت خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نہ ہوتی۔ ریاست تو اس وقت خود انتظامیہ اور عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے کہ نو مئی کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
سچ پوچھو تو ریاست عمران خان کی دشمن نہیں ہے مگر عمران خان ضرور ریاست کادشمن ہے۔ اس نے نو مئی برپا کرکے وہ غلیظ ترین حرکت کی جو ہندوستان ستر برس میں نہیں کرسکا تھا۔ اس نے پہلے آئی ایم ایف سے معاہدے توڑ کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش کی اور پھر اس کا پیکج روکنے کی کوشش کرکے قوم کو بھوکا مارنے کی سازش کی۔ میں نے پوچھا کہ کیا تم عمران خان سے بات کرنے کے لئے تیار ہو، جواب تھا، نہیں، وہ ایک سیاسی رہنما ہے اور اسے سیاسی رہنماوں کے ساتھ ہی بات کرنی چاہئے۔
آئین کسی بھی ایک ریاستی ادارے کو کسی سیاستدان کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ نہیں دیتا۔ اس نے ہمیں ٹارگٹ ضرور بنایا ہوا ہے مگر ہمارے ٹارگٹس اس سے بہت آگے کے ہیں۔ ریاست کی یہ بات سن کر میرے کان کھڑے ہوئے اور پوچھا کون سے ٹارگٹ، جواب تھا، پاکستان کو ایک عظیم اقتصادی قوت بنانے کا ٹارگٹ۔ اس وقت بہت سارے حکومتی اداروں کی تنظیم ایس آئی ایف سی قائم ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔
ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے بہادری کے ساتھ شرح سود کو مسلسل کم کیا جا رہا ہے۔ مالیاتی خسارہ ختم ہوچکا ہے اور افراط زر چالیس فیصد سے سات، آٹھ فیصد پر آ چکا ہے۔ ہمارا ٹارگٹ وہ بھی ہیں جنہوں نے بلوچستان اور خیبرپختونخوامیں دہشت گردی سے امن، تعمیر اور ترقی کا راستہ روکا ہوا ہے سو ایسے میں ہمارے پاس وقت ہی نہیں کہ ہم عمران خان جیسی شے کے بارے سوچیں جو ہماری ایک غلطی سمجھی جاتی ہے۔ ہم تو ان سے بھی کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کو ہزاروں ارب کا مقروض صوبہ بنا دیا، کرم اور بنوں سمیت پورا کے پی لہو لہان ہے۔
صوبے میں اڑتیس لاکھ ڈگری یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں جن میں سے سترہ ہزار ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں تو تم کن کاموں میں لگے ہو۔ نہ کوئی میگا پراجیکٹ ہے اور نہ ہی کوئی عوامی فلاح کا دوسرا منصوبہ، ان کے وزیراعلیٰ کو اپنے صوبے کے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ ہم سب مل کے پاکستان کو ایک عظیم قوت بنا سکتے ہیں۔ میں نے پوچھا اس وقت عمران خان فرسٹریشن کا شکار ہیں، وہ بہرصورت جیل سے باہر آنا چاہتے ہیں۔ جواب تھا کہ انہیں اپنے آپ کو ملک و قوم کا وفادار اورہمدرد ثابت کرنا ہوگا، وہ عدالتی نظام میں اپنی بے گناہی ثابت کرکے ہی واپس آ سکتے ہیں۔
میں نے کہا، تم انہیں باہر بھیج سکتی ہو تو جواب تھا، نہیں، ہم ماضی کی کوئی غلطی نہیں دہرائیں گے، یہ ہمارا مینڈیٹ نہیں۔ ویسے اس امر کی گارنٹی کون دے گا کہ پاکستان میں بیٹھ کے پاکستان کی معاشی موت کا سامان کرنے والا ملک سے باہر جا کے سازشیں نہیں کرے گا، اس کی تباہی کی کوششیں نہیں کرے گا۔
ریاست نے ایک سفید کاغذ پر ایک پیغام لکھا اور کہا کہ یہ بانی پی ٹی آئی تک پہنچا دینا، اس پر لکھا ہوا تھا۔ ہمارے صبر کو مت آزماؤ، جرائم کی معافی دھونس اور بدمعاشی سے نہیں ملے گی، تمہیں شرمندہ ہونا پڑے گا، معافی مانگنی پڑے گی۔