Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Nai Baat/
    3. Sadar e Mumlikat Imran Khan

    Sadar e Mumlikat Imran Khan

    کہا جا رہا ہے کہ، پلان یہ نہیں کہ فوری طور پر صدارتی نظام کو کسی ڈنڈے کے ذریعے نافذ کر دیا جائے گا، بلکہ پلان یہ ہے کہ اسی برس کے آخر تک صدرعارف علوی اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے، جس کے بعد صدر کے عہدے پر انتخاب آئینی ضرورت بن جائے گا۔ موجودہ پارلیمنٹ، یعنی صدر کے انتخابی ادارے میں حکومت کے پاس ستتر ووٹوں کی اکثریت موجود ہے۔ جناب عمران خان، وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہوکرصدر مملکت منتخب ہوجائیں گے، جس کے بعد انہیں عہدے سے دو تہائی اکثریت کے ذریعے ہی ہٹایا جا سکے گا۔

    پلان بتانے والے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت دلائی جائے گی، اور ایسے قوانین متعارف کروائے جائیں گے، جن کے بعد وزیراعظم کا عہدہ بے اختیار اور صدر کا عہدہ بااختیار ہوجائے گا۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں، بلکہ اگلی اسمبلیوں میں چونکہ پی ٹی آئی کی ہی اکثریت ہوگی اورصدر مملکت عمران خان کی آئینی مدت انہی اسمبلیوں کے دور میں پوری ہوجائے گی، لہٰذا وہ ایک نئی مدت کے لیئے انہی اسمبلیوں سے منتخب کر لیئے جائیں گے۔ یعنی وہ وزیراعظم کے طور پر چار، ساڑھے چار برس گزارنے کے بعد بطور صدر بھی دس برس گزاریں گے۔

    بتانے والے نےیہ بھی بتایا ہےکہ، موجودہ صدر مملکت عمران خان کے ساتھ موجودہ کابینہ کے شائد دس فیصد ارکان ہی چل سکیں گے۔ جن میں پرویز خٹک، شاہ محمود، اسد عمر، شوکت ترین، علی زیدی اور مراد سعید ہوسکتے ہیں، باقی سب اپنی اپنی فیلڈ کے ماہرین اور نئے چہرے ہوں گے۔ صدارتی نظام کی یہ گونج بلاوجہ نہیں، اور یہ پلان اتنا ہی پرفیکٹ لگتا ہے جتنا کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا تھا، مگر یہاں کچھ مفروضے وضاحت طلب ہیں۔ ایک مفروضے کا جواب موجود ہے کہ، کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو اتنا طاقتور بنا دے گی کہ وہ آل ان آل ہوں؟ کیونکہ پرویز مشرف دور میں بھی وزیراعظموں کو ایک، ایک ووٹ سے جتوایا او ربنوایا گیا۔

    یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ دس، بیس، یا پچاس ووٹ مزید نہیں دلوا ئے جاسکتے تھے بلکہ مقصد انہیں کمزور رکھنا تھا۔ جیسے ایک طویل منصوبے کے باوجود، عمران خان کو قومی اسمبلی میں چند ووٹوں کی اکثریت دی گئی۔ مگر اس کا جواب ہے کہ یہاں طاقت اورکمزوری دونوں ہی اہمیت نہیں رکھتے کہ، یہاں دو تہائی اکثریت والی حکومتیں بھی اتنی ہی آسانی سے گھر چلی جاتی ہیں، جتنی آسانی سے ایک ایوان میں وہ قانون منظور کروا لیا جاتا ہے۔ جس کی مخالفت اس ایوان کے ارکان کی اکثریت کر رہی ہوتی ہے۔ سو لیڈر جتنا مرضی سیاسی اور پارلیمانی طور پر مضبوط ہو، اس کی رتی برابر اہمیت نہیں ہے۔

    میں نے یہ سوال کچھ اہل علم کے سامنے رکھا کہ اس وقت مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی وغیرہ صدارتی نظام کی حامی نہیں ہیں، لہٰذا یہ تو ممکن ہی نہیں کہ موجودہ اسمبلیوں سے دو تہائی اکثریت سے آئین کو تبدیل کر دیا جائے۔ میرے سامنے اس سے آگے کامرحلہ بھی ہے کہ ہم وہ منفرد نظام رکھتے ہیں، جس میں آئینی ترامیم تک کو عدالتوں نے معطل کیا اور واپس بھیجا کہ وہ آئینی ترمیم ہو ہی نہیں سکتی، جو آئین کی بنیادی روح اور ڈھانچے کو تبدیل کر دے۔ ہمارا آئین اس وقت اسلامی، وفاقی اور پارلیمانی نوعیت کا ہے۔

    اہل علم میرے سوال پر مسکرائے، بولے، تین ساڑھے تین برس کی پارلیمانی قانون سازی کی تاریخ پڑھ کر دیکھو، کون سا قانون پاس نہیں ہوا؟ جس طرح سادہ اکثریت والے قانون پاس ہوسکتے ہیں، اسی طرح دو تہائی والے بھی ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے میرے سوال کے دوسرے حصے کو جواب دینے کے قابل بھی نہیں سمجھا۔ میں نے کہا کہ ابھی تک کچھ مفروضے ہیں اور سب سے بڑا مفروضہ یہ ہے کہ، اگلے عام انتخابات میں حکمرانوں کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی، جس کی بنیاد پر جناب عمران خان کی صدارت چل بلکہ دوڑ سکے گی۔

    جبکہ زمینی حالات یہ ہیں کہ مارشل لاء جس غیر مقبولیت کی طرف دس، بارہ برسوں میں پہنچتے ہیں جناب عمران خان کی حکومت تین، ساڑھے تین برس میں پہنچ چکی ہے۔ مہنگائی نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں اور وہ یہ سننے، ماننے کے لئے تیار نہیں کہ یہ ایشو عالمی نوعیت کا ہے، جس کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ آج آپ کسی حد تک فئیر اینڈ فری انتخابات کروا دیں، تونواز لیگ پنجاب کلین سویپ کر لے گی اور پیپلزپارٹی سندھ میں کسی دوسرے کو نہیں آنے دے گی۔ یہ درست ہے کہ، اپوزیشن جماعتوں کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت دلوا سکتی ہے۔

    مگر سوال یہ ہے، کیا وہ انتخابی نتائج اتنے ہی ٹھنڈے طریقے سے قبول کر لیئے جائیں گے جیسے گذشتہ انتخابات قبول کئے گئے؟ کہ یہ ان کی سیاسی موت کے مترادف ہو گا۔ دوسرے اگر تمام تر کوششوں کے باوجود مشرف دور کے دوسرے انتخابات والا نتیجہ آ گیا، تو جب پرویز مشر ف کو ایوان صدر سے جانا پڑ گیا تھا، تو کیا عمران خان کو اسی طرح نہیں جانا پڑے گا؟ اس کا جواب یہ تھا کہ، پرویز مشرف کو بھجوانے میں آصف زرداری اور نواز شریف کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی دلچسپی لے رہے تھے، مگر عمران خان فائنل چوائس ہیں۔

    میرا سوال یہ بھی تھا کہ، کیا وہ ابھی تک چوائس ہیں؟ توجواب تھا کہ پلان بی میں شائد بلاول بھٹو زرداری ہوں مگر یہ پلان بی اسی قسم کا ہے، جس قسم کا شہباز شریف کے لیئے تھا جن سے کابینہ کے ارکان کے نام بھی کلئیرنس کے لیئے، لے لیئے گئے تھے۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق عمران خان، مقتدر حلقوں کی توقعات پر پورے اترے ہیں، ہاں، ان کی ٹیم پر اختلافات اور اعتراضات ہو سکتے ہیں مگرخودان کی پوزیشن ایسی ہی ہے، جیسے کسی ایڈہاک جج کو کنفرم کر دیا جائے۔ ہمارے بعض دوستوں کا دعویٰ ہے کہ مقتدر حلقے نواز شریف کے ساتھ رابطے میں ہیں، وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں مگر نواز شریف ایسا نہیں چاہ رہے۔

    وہ چاہتے ہیں کہ، عمران خان اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کریں تاکہ تبدیلی والا کیڑا پوری طرح مر جائے، اس پر فی الوقت نوکمنٹ کہ یہ ایک لمبی بحث ہے، ہاں، شہباز شریف مقتدر حلقوں کی چوائس ضرور تھے اور اب بھی کچھ کی ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ، عمران خان حکومت کا سب سے بڑا ٹارگٹ نہ نواز شریف ہیں اور نہ ہی مریم نواز، اس کا سب سے بڑا نشانہ شہباز شریف ہیں۔ دلچسپ اطلاعات یہ ہیں کہ، شہباز شریف کی راہ میں عمران خان سے بڑی رکاوٹ نواز شریف اور مریم نواز ہیں۔ بہرحال، ان مفروضوں پر فی الحال بات کرنے کی اس لیئے ضرورت نہیں کہ، عمران خان اپنے پتے بہت دانشمندی اور ہوشیاری سے کھیل رہے ہیں۔

    میں ایک قومی اخبار کے ادارتی صفحے پر کالم اور ویب سائیٹ پر بلاگ کی صورت چھپنے والے پلان کے بارے یہی کہوں گاکہ، یہ سب مفروضے ہوسکتے ہیں۔ مگر دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ، ماضی کے مقابلے میں اس وقت سیاسی منصوبہ بندی کا کام بہت زیادہ سنجیدگی، جدت اور مہارت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پاکستان ستر برس سے بطور ریاست، مغربی جمہوری نظام کے لیئے غیر موزوں ثابت ہو رہا ہے۔ اس خطے میں چین سے ایران اور بنگلہ دیش سے افغانستان تک، وہ جمہوریت موجود ہی نہیں جس کے نمونے انگلستان اور امریکا کے نظام ہائے حکومت کے طور پر ہمیں پڑھائے جاتے ہیں، ہمارے آئیڈیل بنائے جاتے ہیں۔

    میں اپنا ایک پرانا شکوہ پھر دہرا دیتا ہوں کہ، ہمارے جو لوگ جمہوریت کے چیمپئن بنتے ہیں مجھے ان سے بھی شکوہ ہے کہ، وہ اپنی پارٹیوں میں تو جمہوریت لاتے نہیں مگر ملک میں مانگتے ہیں۔ وہ ایسے مولوی ہیں جو بانگ دیتے ہیں اور نماز پڑھنے کے وقت شغل میلے میں لگ جاتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں، ان کی بانگ پر نماز پڑھنے کون آئے گا؟