Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Sanu Ki?

Sanu Ki?

ساہنوں کیہ، پنجابی میں اردو کے دو الفاظ ہمیں کیا، کا ترجمہ ہے مگر اردو میں ہمیں کیا وہ مزا اور مطلب نہیں دیتا جو پنجابی میں ساہنوں کیہ دیتا ہے۔ یہ لاتعلقی کے احساس کا اظہار ہے اور اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت ساری ٹینشنوں اور مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ نون کی طرف سے ٹکٹوں کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر شوروغوغا برپا ہے۔ کئی ہیں جنہیں آئی پی پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ مسئلہ ہے اور سب سے بڑا مسئلہ تو غلام سرور خان کے ساتھ ہے جس کی زبان نواز لیگ کے رہنمائوں کے حوالے سے بہت زہریلی رہی ہے۔

کسی کو نارووال سے دانیال عزیز کو ٹکٹ نہ ملنے پر افسوس ہو رہا ہے اور کسی کو گجرات سے جعفر اقبال کے مقابلے میں کسی سروسز چیف کے بھائی کواکاموڈیٹ کرنے پر۔ لاہور سے بھی یہی مسائل ہیں کہ میاں نعمان کو ٹکٹ کا وعدہ خود میاں نواز شریف نے کیا یا اڑتیس برس پرانے کارکن ماجد ظہور ہیں۔ میاں نعمان لاہور کے دینی گھرانے کا ایک باکردار اور پارٹی کے ساتھ کمٹڈ رہنما ہے۔ اس نے عمران خان کی آمریت میں صرف پارٹی سے وابستگی کی بنیاد پر دس ماہ کی جیل بھی کاٹی۔ میاں نعمان کے ساتھ پہلے بھی ٹکٹ کے حوالے سے پرینک ہوتا رہا ہے اور اب تو اس کی طرف سے انتخابی مہم شروع کرنے کے بعد اطلاعات ہیں یہ ٹکٹ عون چوہدری کے پاس جا رہا ہے۔

جب میں یہ کہتا ہوں کہ ساہنوں کیہ تواس کے بہت سارے مطلب ہوتے ہیں اور پہلا مطلب تو یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے شہباز شریف، مریم نواز اور اسحق ڈار کے ساتھ بہت دیر تک سرجوڑ کے یہ فیصلے کئے ہیں تو غلط تو نہیں کئے ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کسی کا ایک فقرہ بھی نہیں بھولتے اور ناراضی کو دل میں رکھتے ہیں تو انہیں رانا غلام سرور خان، فردوس عاشق اعوان یا فیاض الحسن چوہان کیا کیاکہتے ہیں یہ میرے بتانے والی بات تو نہیں ہے اگر وہ انہیں معاف کر دیتے ہیں مگر چوہدری نثار علی خان اور شاہد خاقان عباسی کو نہیں کرتے تو ساہنوں کیہ۔

دیکھیں، غورکریں، اگر کارکنوں کی مرضی کے مطابق ٹکٹ نہیں ملے تو وہ خود فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے شیر، پر ٹھپے لگوانے ہیں یا نہیں اور اگر فیصلہ نہیں لگوانے تو کس کو جتوانا ہے جس سے وہ اگلی حکومت میں ہسپتال، تھانے، کچہری کے کام کروا سکیں سو یہاں بھی تبصرہ یہی ہے کہ ساہنوں کیہ۔ شورہے کہ جن کوٹکٹیں دی گئی ہیں وہ ہار جائیں گے تواس پر اگلے منظرنامے کی طرف چلے جائیں کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تو میاں نواز شریف، شہباز شریف یا مریم نواز نے بننا ہے۔ اب اگر یہ ٹکٹ ہولڈرہار جائیں گے تو بھائی لوگو، اسمبلیوں میں نمبر گیم تو میاں صاحبان نے پوری کرنی ہے کسی سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ نے تو نہیں۔ اب اگر کسی سوشل میڈیائی دانشوربہن، بھائی کے مطابق تعداد پوری نہیں ہوتی تو پارٹی قیادت ہی اس کی قیمت ادا کرے گی اس میں کسی صحافی یا کسی یوٹیوبر کو پریشانی لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی ٹکٹوں کی تقسیم کے نتیجے میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نہیں بنتے تو اس پر بھی ساہنوں کیہ؟

ویسے آپ کو دوسرا نکتہ نظر بتائوں کہ کچھ ماہرین کے مطابق جس طرح کی ٹکٹیں دی گئی ہیں اس کے بعد سادہ کیا دو تہائی اکثریت نظر آ رہی ہے مگرمجھے اس پر بھی کہنا ہے کہ اگر دوتہائی اکثریت بھی آتی ہے تو ساہنوں کیہ۔ میں نے یہاں پر دو تہائی اکثریت والی حکومتوں کو بھی مارشل لا پر ختم ہوتے اور ایک، دو ارکان کی اکثریت کے ساتھ وزرائے اعظم کو برسوں گزارتے دیکھا ہے۔

حکومت کے تسلسل میں دوتہائی اکثریت اہم نہیں ہے۔ اب اسی دوسرے نکتہ نظر میں ان رہنمائوں کی طرف آجائیں جن کے بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ بہت وفادار تھے مگر ٹکٹ سے محروم ہو گئے تو جب ہم کسی ایسی پارٹی کی بات کرتے ہیں جو اقتدار میں آنے والی ہوتی ہے توا س کے پاس صرف ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی ٹکٹیں ہی نہیں ہوتیں بلکہ سینکڑوں دیگر ایسے عہدے بھی ہوتے ہیں جو کسی ایک رکن اسمبلی سے کہیں زیادہ تگڑے اور بھاری ہوتے ہیں یعنی اگر آپ ٹکٹ میں کسی وجہ سے کمپرومائز ہو گئے ہیں تو حکمران جماعت آپ کو کسی بھی دوسری جگہ ایڈجسٹ کر سکتی ہے سو چیخیں مارنا سراسر نادانی ہے۔

ایک تیسرا پوائنٹ بھی ہے کہ کارکن اپنی قیادت کے ساتھ گلے شکوے کرتے ہیں مگر دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اب ہر حلقے سے سینکڑوں کی تعداد میں نکلنے والے کارکن تب کہاں تھے جب میاں نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں تھے اور انہیں پلیٹ لیٹس کم ہونے کی شکایت پر ہسپتال منتقل کروانے کے لئے پارٹی کو مظاہرہ کروانا پڑ گیا تھااور جو بیچارہ آدھی رات کو احتجاج کا اہتما م کر رہا تھا وہ ہانپا ہوا تھا کہ کوئی دستیاب ہی نہیں ہو رہا تھا۔ سروسز ہسپتال کے باہر بھی لیگی کارکنوں کی تعداد سو، ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں تھی، اب تو ماشاء اللہ کارکنوں کی بہار ہے، تکلف برطرف، کیا نواز شریف کوکارکن وطن واپس لائے ہیں؟

نواز لیگ کی اس حوالے سے تعریف کرنی چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا دیکھ کے نہ پارٹی عہدیدار بنا رہی ہے اور نہ ہی ٹکٹیں دے رہی ہے۔ اگر سوشل میڈیا دیکھ کے عہدیدار بنائے جائیں تو میرٹ کچھ اس طرح کے ہوجاتے ہیں کہ ایک بندہ پروگرام تو وڑ گیا، کہہ کے ٹک ٹاک پر مشہو رہوتا ہے اور اگلے روز پارٹی کا سینئر نائب صدر بنا دیا جاتا ہے مگر اس پر بھی مجھے کہنا ہے کہ وہ پارٹی بھی عہدیدار ٹک ٹاکر لے یا یوٹیوبر، ساہنوں کیہ؟ جیل میں موجود لیڈر کے وکیل نہلے ہوں یا دہلے، کون سا ہمیں سزائیں ہونی ہیں لہذا ساہنوں کیہ؟ ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو وڑ گیا اور میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ شکر کریں کہ وڑ گیا کہ اگر وہ نہ وڑتا تو اب تک پوری قیادت جیل میں وڑی ہوتی۔

مجھے اپنے پورے یقین کے ساتھ کہنا ہے کہ اگر نواز شریف اور شہباز شریف وہی غلطی کرتے جو سوشل میڈیائی ایکٹیویٹس کے ہینڈ سم لیڈر نے کی ہے تو اس وقت نہ اقتدار میں آنے والی بات ہو رہی ہوتی اور نہ ہی پاکستان کی تعمیر و ترقی کا دوبارہ خواب دیکھا جا رہا ہوتا بلکہ نواز لیگ والے بھی ایک مرتبہ پھر پرویز مشرف دور کی طرح قیادت کو دیکھ کر کہہ رہے ہوتے ساہنوں کیہ۔ یہ وہ دور تھا جس کے بارے نواز شریف نے خود شکوہ کیا تھا کہ قدم بڑھائو نواز شریف کانعرہ لگانے والے ان کے قدم بڑھانے پرپیچھے سے غائب ہو گئے تھے۔ ویسے نواز شریف وہ لیڈر ہے جس نے نوے کی دہائی سے عروج و زوال کی سب بڑی داستان رقم کی ہے۔ اسے پاکستان کا سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان کہا جا سکتا ہے اور اگر وہ زمینی حقائق کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیائی دانشوروں کی بات نہیں سن رہا تو ٹھیک ہی کر رہا ہوگا۔۔ ساہنوں کیہ؟