میں عورت مارچ میں تھا، جی نہیں، آنکھیں سینکنے نہیں گیا تھا جیسے بہت سارے پہنچ جاتے ہیں بلکہ یہ میرے صحافتی فرائض کاحصہ تھا۔ خواتین کے عالمی دن پر میرے شہر میں بہت ساری ایکٹی ویٹیز ہو رہی تھیں مگر میڈیا پر صرف ایک ہی نمایاں تھی جو عورت مارچ کے پلیٹ فارم سے دو پہر دو بجے لاہور پریس کلب کے باہر شروع ہورہی تھی۔
سچ پوچھیں تو میں عورت مارچ کا حامی ہوں کہ جب میرے ملک میں ایک مردسات روز کی بیٹی کو صرف اس لئے گولیاں ماردے کہ اسے بیٹا چاہیے تھا، وراثت میں حصے سے انکار اب بھی روایت ہو، ونی، سوارا، وٹہ سٹہ اور قرآن سے شادی جیسی لغویات موجودہوں تو عورتوں کے حقوق کی تحریک کی مخالفت کوئی بے وقوف اور بے شرم ہی کرسکتا ہے مگر ہماری سوسائٹی کو عورت مارچ کے بہت سارے نعروں اور مقاصد پر سنگین قسم کے تحفظات ہیں جوبے بنیاد بھی نہیں ہیں۔
ہماری دینی اور سماجی قوتیں عورت مارچ کو مذہبی اور معاشرتی اقدار کے خلاف سازش سمجھتی ہیں، کہتی ہیں کہ عورت مارچ دراصل خاندانی نظام تباہ کرنے اور فحاشی کے فروغ کی ایک منظم مہم ہے۔
عورت مارچ کی ایکٹی ویٹی سے پہلے گیارہ بجے مال روڈ پر مدرسہ عروۃ الوثقیٰ کا حیا مارچ تھا جس میں جامعہ نعیمیہ کی اساتذہ اور طالبات بھی شامل تھیں، ناصر باغ سے جماعت اسلامی نے اپنی خواتین کامارچ شروع کر رکھا تھا جبکہ اسلامی جمعیت طلبا کے زیر اہتمام پنجاب یونیورسٹی میں بھی ہزاروں طالبات، عورت مارچ کے خلاف، مارچ کر رہی تھیں۔ تعداد پر جاوں تومجھے یہ فیصلہ دینا پڑے گا کہ حیا مارچ والیوں نے عورت مارچ کو کلین بولڈ کر دیا۔
عورت مارچ کی خواتین چند سو تھیں مگر دوسری طرف ہزاروں۔ مدرسہ عروۃ الوثقیٰ کے مارچ میں کالے سیاہ برقعوں میں بھوتوں کی طرح نظر آنے والی خواتین کے جلوس کی دم کو اس کے سر کی طرف سے کھڑے ہو کر دیکھنا ناممکن تھا، ہاں، ان دونوں میں ایک فرق تھا کہ عورت مارچ والی خواتین خود آ رہی تھیں جبکہ ان مارچوں میں شرکت کے لئے مدرسوں کی انتظامیہ نے بسیں فراہم کی تھیں۔
عورت مارچ والیاں کہہ رہی تھیں کہ ان کی مخالف لڑکیوں کی ایک مخصوص قسم کی ذہنی تربیت کی گئی ہے۔ میں ان کی اس دلیل سے اتفاق کرتا ہوں مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ عورت مارچ والی خواتین کو بھی ایک مخصوص ماحول ملا ہے، ایک مخصوص سوچ ملی ہے جو مذہب مخالف ہے۔ یہ سوچ باپ، بھائی اور شوہر کی بالادستی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ جو عورت ایک مرد کو، چاہے وہ اپنے باپ، بھائی یا شوہر کی صورت ہو، خوش رکھنے کو غلامی سمجھتی ہے پھر اسے ٹکے ٹکے کے بیسیوں بلکہ ہزاروں غیر مردوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے، آزادی کے نام پر ان کی غلامی کرنی پڑتی ہے۔
اپنا تجربہ شئیر کرتا ہوں، حیا مارچ میں بھی سب خواتین بات کرنے کے لئے تیار نہیں تھیں، ہم سے بات خانم طیبہ بتول اور محترمہ ربیرہ نعیمی نے ہی کی مگر دوسری طرف عورت مارچ کی انتطامیہ بھی میڈیا سے بری طرح خوفزدہ تھی۔ ا نہوں نے ایک روز پہلے ہی لبرل ازم کی ایسی تیسی کرتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ ان کے جلوس کے شرکا سے وہی میڈیا پرسن بات کر سکے گا جسے وہ اپنا خصوصی کارڈ جاری کریں گے۔ میرا جسم میری مرضی، کے نعرے والی کالی ٹوپیاں پہنے لڑکیاں اور لڑکے خصوصی طور پر مانیٹر کررہے تھے۔
میں نے ان کے ایس او پیز کو قبول کیا اور کارڈ حاصل کیا مگر اس کے باوجود جب میں لاہور میں سول سوسائٹی کے معروف رہنما عبداللہ ملک سے بات چیت کر رہا تھا تو مجھے روک دیا گیا اور ان کے روکنے کا طریقہ انتہائی بے ہودہ تھا۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ان کے مارچ میں شامل تمام لوگ ان کے موقفھی کی وضاحت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو پھرا نہیں ایسے لوگوں کو نمایاں اور رضاکارانہ طور پر پیش کرنا چاہئے تھا جو بات کرسکتے ہوں۔
انہیں میڈیا پر پابندی لگانے کی بجائے اپنے شرکا پر پابندی لگانی چاہئے تھی کہ وہ ایسے پوسٹرز اور پلے کارڈز اٹھائیں جن کی وہ وضاحت کرسکتے ہوں جیسے ایک پوسٹر پر حجلہ عروسی بنا کے اس کے اوپر بربادی لکھا ہوا تھا یعنی پیغام یہ ہے کہ شادی بربادی ہے۔
میں ایک صحافی ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اگر سب کے سامنے قتل ہو رہا ہو تو بھی قاتل کو حق ہے کہ اپنا موقف دے، اپنا مقدمہ لڑے۔ میں بدتمیزی کا قائل نہیں اورنہ ہی موقف کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا میری عادت ہے۔ مجھ سے عورت مارچ میں شامل خاتون نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا، ان پر یہ الزام غلط ہے کہ ان کا ایجنڈا فحاشی ہے۔ انہوں نے مجھے اپنے ارد گرد خواتین دکھائیں اور پوچھا کہ کیا ان کے لباس ان کا ستر نہیں ڈھک رہے، کیا یہ ننگی ہیں۔
میرا دل چاہا کہ انہیں وہ بہت گوری اور سمارٹ لڑکی دکھاوں جس نے بہت مختصر کالا بلاوز اوراس کے اوپر سامنے سے کھلی ایک چھوٹی سی جیکٹ پہن رکھی تھی، اس کا خوبصورت سفید پیٹ پوری طرح نمایاں تھا۔ میں نے کیمرہ مین زاہد کو کہا تھا کہ اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پوسٹر کی ویڈیو گرافی کر لے مگر اس لڑکی نے کیمرا دیکھتے ہی ری ایکٹ کیا اور ہم نے اس کی طرف سے اجازت نہ ملنے کا احترام کیا۔ انہوں نے خاندان توڑنے کے الزام پرکہا کہ یہاں پر جتنی بھی خواتین ہیں وہ سب اپنی اپنی فیملی کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔
وہ خاتون، بیٹی کے جائیداد میں آدھے حصے پر برہم تھیں تو میرا سوال تھا کہ دنیا کا وہ کون سا نظام ہے جو بغیر کسی فرض کے حقوق عطا کرتا ہے۔ اسلام عورت پر ایک ٹکے کی معاشی ذمے داری عائد نہیں کرتا، نان و نفقہ پوری طرح مرد کا فرض ہے مگراسلام عورت کو مرد کے مقابلے میں آدھی وراثت دے دیتا ہے، اس پر تو مردوں کا احتجاج بنتا ہے۔ یہی حال آدھی گواہی بارے پروپیگنڈے کا ہے جس سے ہماری پڑھی لکھی خواتین بھی متاثر ہیں۔
گواہی کسی بھی معاشرے میں کوئی حق، رعائیت یا سہولت نہیں بلکہ ہر دور کے عدالتی نظام میں ایک ناگوار فریضہ ہے، یہ دشمن پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں اگر اسلام عورت پر یہ بوجھ آدھا کرتا ہے، اسے محفوظ بناتا ہے تو یہ اس کا عورت کو تحفہ ہے۔
حاصل کلام، دونوں طرف کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں، اپنے اپنے سچ ہیں۔ میں یہاں حیا مارچ والوں سے بھی شکوہ کروں گا کہ ان کی ہزاروں برقعہ پوش خواتین میں سے ایک کے پاس بھی ایسا پلے کارڈ نہیں تھا جس پر ونی، سوارا، وٹہ سٹہ اور وراثت سے انکار کی مذمت ہو۔ اس بچی کی حمایت ہو جس کو اس کے باپ نے میانوالی میں پیدائش کے ساتویں دن ہی تین گولیاں مار کے قتل کر دیا تھا کیونکہ اسے بیٹا چاہیئے تھا۔
میں جب عورت مارچ کی کوریج کر رہا تھا تو میری نظر میں وہی معصوم گول مٹول سی بیٹی گھوم رہی تھی۔ حیا مارچ والی عورتوں کو سارے پلے کارڈز مردوں کے بنائے ہوئے ہی نہیں اٹھانے چاہئے تھے بلکہ کچھ ان کی اپنی طرف سے بھی ہونے چاہئے تھے جیسے دوسری طرف عورت مارچ والیوں کے سب نعرے اور سب باتیں اسلام کے خلاف نہیں ہونی چاہئے تھیں انہیں اسلام کے ان احکامات کی تعریف بھی کرنی چاہئے تھی جو عورت کو تحفظ، عزت اور وقار عطا کرتے ہیں مگر میں نے کہا کہ ان سب کے پاس اپنے اپنے ایجنڈے ہیں، طوطوں طوطیوں کی طرح اپنی اپنی رٹی رٹائی باتیں ہیں، چھوٹے چھوٹے ذہن ہیں جن میں دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی اہلیت بلکہ اجازت ہی نہیں۔
گستاخی معاف، مجھے تو ویمنز ڈے دونوں اطراف شاہ دولے کی چوہیوں کا دن لگا۔