جناب شہباز شریف، سابق وزیراعلیٰ پنجاب، صدرپاکستان مسلم لیگ ن، قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی، امید ہے آپ جیل میں خیریت سے ہوں گے اور فارغ وقت میں جمع تفریق کر رہے ہوں گے کہ آپ نے قوم کو کیا دیا اور قوم نے آپ کو کیا دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کی پنجاب کے لئے محنت اور خدمت کا ہمیشہ سے معترف ہوں۔ اس امرپربھی ہم خیال ہوں کہ قومی اداروں کو آپس میں باہم دست و گریباں نہیں ہونا چاہئے، ایک دوسرے کی عزت، مقام اورمرتبے کا خیال رکھنا چاہئے اور یہ کہ مزاحمت کے بجائے مفاہمت کے ذریعے ہی ہم پاکستان کو ترقی اور عوام کو خوشحالی کا تحفہ دے سکتے ہیں۔ تمام قومی ادارے ایک جسم کی مانند ہیں اور اگر ہاتھ اپنے ہی چہرے کو نوچیں اور دانت اپنے ہاتھوں پیروں کو کاٹیں تو وہ جسم تندرست نہیں رہ سکتا، فعال نہیں رہ سکتا۔ اس جسم کا وہی حال ہوگا جو ہمارا ہے۔
میاں صاحب، آپ کی مفاہمت کی سیاست درست بھی، وقت کی ضرورت بھی، مگر تکلف برطرف، میں نے مریم نواز شریف کی قومی احتساب بیورو کی طرف سے طلبی کو ملتوی کرنے والی پریس ریلیز دیکھی تو یقین کریں کہ میرا ہاسا نکل گیا، اتنا ہاسا کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آپ کو یاد ہو گاکہ چند روز قبل پی ڈی ایم کے موضوع پر لیگی کارکنوں اور ارکان اسمبلی کے ساتھ ایک پروگرام ریکارڈ کرنے کے موقعے پر میں نے آپ سے اور حمزہ سے ملاقات کی تھی۔ آپ احتساب کی عدالت میں ایک کرسی پر بیٹھے جج صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔ کمرے کے اندر اور باہرپولیس کی بھاری نفری تھی کہ کہیں آپ بھاگ نہ نکلیں، سادہ کپڑوں والوں کی بھی بھرمار تھی، حمزہ شہباز بھی ماسک لگائے ساتھ ہی تھے جو ڈیڑھ برس بعد رہا ہوئے تھے جبکہ آپ عمران خان صاحب کے دورمیں دوسری مرتبہ جیل یاترا کر رہے ہیں اور ابھی حکومت کے اڑھائی برس باقی ہیں۔
بات میں ہاسا نکلنے کی کر رہا تھا، ہاسا نکلنے کی وجہ یہ تھی کہ نیب کی پریس ریلیز چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ ادارہ مریم نوازکی پیشی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں اور یہ اس کے باوجود تھا نیب کے دفتر پر باقاعدہ مورچے بن رہے تھے، رانا ثناءاللہ کو لکھے ہوئے خط کے مطابق ٹھوکر نیاز بیگ پرنیب کے دفتر کے ارد گرد تین، تین کلومیٹر کا علاقہ ریڈ زون قرار دیا جارہا تھا۔ پولیس کاایک افسر ایک پریس کانفرنس میں نون لیگیوں کو ایک سو چوالیس لگنے پر قانون نافذ کرنے کی تڑیاں، لگا رہا تھا اور ایک غیر رسمی اجلاس میں حکمرانوں کو یقین دلا رہا تھا کہ وہ پی ڈی ایم والوں کو ایسی مار لگائے گا کہ وہ پچھلی پیشی کے موقعے پر ذوالفقار حمید کی لگائی مار کو بھول جائیں گے۔ منصوبہ بندی ہو رہی تھی کہ رات گئے کہاں کہاں چھاپے مار کر پتھروں سے بھری گاڑیاں برآمد کرنی ہیں۔ ہزاروں پولیس والوں کے علاوہ رینجرز الگ سے طلب کئے گئے تھے۔ ملتان روڈ، رائے ونڈ روڈ اور کینال روڈ سمیت چھ سڑکوں کو کنٹینر رکھ کر بند کرنا تھا تاکہ مریم نواز کو کئی کلومیٹر دور سے اکیلے نیب آفس بھیجا جائے گا۔ اس سے پہلے نیب ہائی کورٹ سے یہ درخواست مسترد کرواچکا تھا کہ عدالت مریم نوازکو نہتی اور اکیلی حاضر ہونے کی پابندکرے۔
میاں صاحب! آپ کے پاس وقت ہی وقت ہے، یاد کیجئے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ نیب نے مریم نواز کے لئے اپنے دروازے اس وقت بھی نہیں کھولے تھے جب وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ نیب کے دفتر پہنچی تھیں مگر دروازے ان کے وہاں دوگھنٹے تک موجود رہنے اور انتظارکرنے کے باوجود اس لئے نہیں کھلے تھے کہ باہر پتھروں کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ یہ سب کچھ اس وقت بھی ہوا تھا جب نیب نے مولانا فضل الرحمان کو طلب کیا تھا اور ان کے بھائی نے پشاور کے ایک اہم ہاوس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کر دیا تھا اورکہا تھا کہ ا ن کے فدائی کارکنوں کا یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مولانا کی طلبی کے نوٹس واپس نہیں ہوتے اور پھر مولانا کی طلبی کی تاریخ دوبارہ نہیں آئی۔ اب بھی مریم نوازکی طلبی کی دوسری تاریخ اوپن ہے اورمجھے علم نہیں کہ کب اوسان بحال ہوں گے اور کب یہ سب دہرایا جائے گا۔ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ درست نہیں ہے مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیب جو کچھ کر رہا ہے وہ بھی درست نہیں ہے۔ حقیقت یوں ہے کہ مزاحمت کے حامی جیل سے باہر ہیں، ملک سے باہر ہیں مگر آپ مفاہمت کے حامی ہیں تو آپ کینسر کے مریض ہونے کے باوجود جیل کے اندر ہیں۔ آپ کا بیٹا جیل کے اندر تھااور شادی کے طویل عرصے بعد پیدا ہونی والی اپنی بیٹی کے ساتھ کھیلنے کے لئے مہینوں ترستا رہا تھا۔ آپ کی اہلیہ، بیٹی، بیٹے، داماد میں سے کوئی مفرور ہے تو کوئی ضمانت پرہے۔ آپ قسمیں کھاتے ہیں کہ آپ نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی اور اگر ثابت ہو جائے تو آپ کو مرنے کے بعد بھی قبر سے نکال کر پھانسی دے دی جائے مگر آپ کو ایک مرتبہ پکڑا گیا، چھوڑاگیا اورپھر پکڑ لیا گیا۔
میاں صاحب! میں جانتا ہوں کہ پارٹی کے اندر کارکنوں، عہدیداروں اور ارکان اسمبلی کی بھاری اکثریت آپ کے مفاہمت کے فارمولے کی حامی ہے مگر وہ نواز شریف کا ساتھ بھی نہیں چھوڑ سکتے، ان کے الفاظ کی عزت، بھرم اورمان بھی نہیں توڑ سکتے تو پھر ہم اس سارے کھیل سے ایک کامن سینس پرمبنی ایک منطقی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آپ ہوں یا خواجہ سعد رفیق، جو بھی مفاہمت کی بات کرے گا، مزاحمت کو قوم کے مفا د کے خلاف سمجھے گااسے حکومت ایک خطرہ سمجھتے ہوئے بھرپوررگڑالگائے گی مگر جو مزاحمت کی بات کرے گا اور کر کے بھی دکھائے گا وہی رگڑے کی اس ذلت، خواری اور پریشانی سے بچے گا، آہ، ہم کسی آئینی، قانونی اور اخلاقی ریاست میں نہیں ایک جنگل میں رہتے ہیں جہاں طاقت کا قانون نافذ ہے، بدتمیزی کی معافی، یہاں جو لمبا لیٹے گا اس کی تشریف پر جوتے برسائے جائیں گے مگر جو تن کر سامنے کھڑا ہوجائے گا اس سے نظریں چرا لی جائیں گی۔ آپ کو دلچسپ بات بتاوں، مجھے پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے بتایاکہ حکومتی سطح پر جناب عمران خان پر دباوبڑھتا چلاجارہا ہے کہ ضد چھوڑیں اورمریم نوازکو بیرون ملک جانے دیں کہ اس سے وہ باقی اڑھائی برس آرا م اورسکون سے پورے کر لیں گے۔ ہماری سیاست کا خلاصہ پنجابی میں یہی ہے، شور مچا ہوتا ہے، پے جاو، پے جاو، اور جب اگلا پے جائے، تو ایک پریس ریلیز آجاتی ہے، لمے پے جاو، لمے پے جاو، ، میرے بے تکلفانہ سوال کابرا نہ منائیے گا جو ایک آنکھ مار کے پوچھا جانا چاہئے کہ جناب کیا سمجھے؟
بہرحال!آپ سے ادھوری ملاقات کر کے خوشی ہوئی، دعا ہے کہ آپ جہاں رہیں، خوش رہیں۔ والسلام