Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Shariq Jamal Ka Murda

Shariq Jamal Ka Murda

یہ پولیس کے ایک ڈی آئی جی کی کہانی ہے جو حاضر سروس ہی گذشتہ برس اکیس اور بائیس جولائی کی درمیانی رات انتقال کر گیا۔ ایک ڈی آئی جی ایک بہت طاقتور مرد ہوتاہے مگرعمومی طور پر مردوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کے بعد اس کے بیوی بچے اس کی خوبیوں کو بیان کریں گے اور اسے ایصال ثواب کریں گے لیکن پچپن، چھپن برس کا ایک مرد، ڈی آئی جی ہو کے بھی نفسیاتی طور پر کمزور اورسماجی طور پر کتنا مظلوم ہوسکتا ہے تو اس کے لئے آپ یہ کہانی پڑھیں، جسے پڑھتے ہوئے ہر صاحب دل خون کے آنسو روئے گا، جس کے مرنے کے بعد اس کا موبائل ٹکے ٹکے کے یوٹیوبرز کو دکھا دکھا کے بتایا جاتا رہا، یہ دیکھو، کتنا مرنے والا کتنا گندا، کتنا بے شرم تھااور وہ اس پر وی لاگ کرتے رہے۔

خدا ایسا خاندان اور ایسی اولاد کسی کو نہ دے جو باپ کی لاش مرنے کے بعداس کے کپڑے اتار کے چوک، چوراہے پر لٹکا دے۔ زندگی میں وہ بھرے پرے گھر کی بجائے دو مرلے کے فلیٹ میں رہ رہا تھا، ہائے، سوچتا ہوں کہ شارق نے شاندار پرسنالیٹی اور بھرپور کیرئیر کے ساتھ بھی زندگی سے کیا پایا صرف تنہائی اور مرنے کے بعد کیا پایا، صرف بدنامی۔

ہو سکتا ہے کہ کسی کو اس پر بہت زیادہ غصہ ہوا کیونکہ میرے سامنے کلفٹن کالونی، شاہ کمال کی یونین کونسل کا ایک اندراج نمبر 300671 پڑا ہے جس کے مطابق پانچ نومبر2022ء کو طلاق کا نوٹس دیا گیا اور اسی برس پانچ نومبر کو یہ مؤثر ہوگئی سو میرا یہ شکوہ اس کے ساتھ نہیں مگر بیٹی کے ساتھ ضرور ہے کہ بیٹیاں تو باپ کے ساتھ ایسے نہیں کرتیں، وہ تو باپوں کی رانیاں ہوتی ہیں بھلا وہ مرنے کے بعد باپ کوننگا کرتی ہیں چاہے ماؤں نے انہیں جتنا مرضی بھڑکایا ہو۔ اب وہ خود ہی بتائے کہ ایک مرد جو ڈی آئی جی جیسے عہدے پر ہو اور اکیلا رہنے پر مجبور ہو وہ کیا کرے گا، اس کا جواب تھوڑی سی کامن سینس سے دیا جا سکتا ہے۔

مجھے افسوس ہوا کہ بیٹی نے باپ کے مرنے کے بعد اٹھانوے روز کے بعد ایک ایف آئی آر درج کروائی جس میں جان بچانے والوں پر قتل ہی نہیں بلکہ آٹھ کروڑ روپے کے مساوی ڈالرز اور پانچ لاکھ روپے لوٹنے کا الزام لگایا، کاش پولیس والے ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے ڈبل ون ڈبل ٹو کا ریکارڈ چیک کر لیتے، ریسکیو سٹاف سے ہی گواہی لے لیتے کہ وہاں کس طرح شارق کی جان بچانے کے لئے اپنی عزت اور کیرئیر تک پروا نہیں کی گئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص ایک دوست کے دو مرلے فلیٹ پر رہتا ہواوراس کا بھی اس نے کرایہ ادا نہ کیاہو، جس نے صحافی دوست عمران جاوید بٹ سے اپنی بیٹی کی فیس ادا کرنے کے لئے پانچ لاکھ روپے قرض لیا ہو(اس کے سالے سے مبینہ طور پر پچیس لاکھ بھی) اور جس کو اکانوے لاکھ روپے قرض دینے والا دوست سمیع اس کے پیچھے پیچھے پھر رہا تھا، اس کے پاس آٹھ کروڑ روپے کے مساوی ڈالرز کہاں سے آئے۔ یہاں میرے پنجاب پولیس سے کئی سوال ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا کسی موت کے تین ماہ کے بعد اس کے قتل کی ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے جبکہ پوسٹ مارٹم اور فرانزک دونوں میں طبعی موت ہو، سو آپ قتل کی بات کرتے ہیں تو قتل کہاں ہے۔

دوسرا یہ کہ آپ کا ہر ڈی آئی جی اتنا کرپٹ ہے وہ دو، دو مرلے کے گھر میں آٹھ، آٹھ کروڑ کے ڈالر لے کر بیٹھا ہوتا ہے، کیا آپ نے ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے مرحوم کی انکم ٹیکس ریٹرن چیک کی۔ دعویٰ کیا گیا کہ اس کے باپ کا پٹرول کا کاروبار تھا، کیا کوئی حاضرسروس سرکاری ملازم بغیر ڈیکلیئر کئے کاروبار کر سکتا ہے، کیا وہ فنانشل کرائم کر رہا تھا۔ سو تھانہ نشتر کالونی کی تین سو دو کی ایف آئی آر میں قتل کہاں ہے اور اگر بیچ میں ڈکیتی کا ذکر ہے تو پھروہ رقم کہاں سے آئی ہے۔ سچ بتائیے گا کہ اگر اس کی بیٹی درخواست میں لکھ دیتی کہ اس کے پاس کوہ نو ر ہیرا تھا تو آپ اس کی بھی ایف آئی آر درج کر لیتے؟ میں یہ کالم کبھی نہ لکھتا اگر سوشل میڈیاپر یوٹیوبرز نے طوفان نہ برپا کیا ہوتا۔

میرا سوال یہ بھی ہے کہ جج اورآئی جی کے سامنے ملکہ جذبات بن کر الزامات عائد کئے گئے، کیا طلاق یافتہ عورت خود کوبیوی ظاہر کرکے وارث بن سکتی ہے۔ مجھے آئی جی سے کہنا ہے کہ وہ شارق جمال کے واجبات جو دو تین کروڑ روپے بنتے ہیں دینے سے پہلے چیک کر لیں کہ شرعی اور قانونی وارث کون ہیں کیونکہ معاملہ پیسوں کی خاطر گھمبیر ہو چکا ہے۔ ہر وہ شخص جس نے شارق جمال کی جان بچانے کی کوشش کی یا اس کو قرض دئیے وہ مجرم بنایا جا چکا ہے۔

یہ لالچ اور حرص کی الٹی کہانی ہے جو تیزی سے بلیک میلنگ کے سنگین جرم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پولیس حکام کے بیانات کچھ اور ہیں مگرافسوس کیس کا انویسٹی گیشن آفیسراس بلیک میلنگ میں ایجنٹ بنا ہوا ہے۔ مجھے کاغذات دکھائے گئے ہیں جن میں طلاق کے بعد بھی خود کو بیوی ظاہر کرکے نادرا کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ نکلوایا گیا ہے۔ ایک مطلقہ عورت اپنے سابقہ خاوند سے زندگی بھر کا بدلہ لینے کے لئے کسی بھی حد تک جا رہی ہے اور پنجاب پولیس اس کی سہولت کار ہے۔

ہم شارق جمال کو ایک پولیس افسر اور ایک شاعر کے طور پر یاد رکھتے اگر اس کی اپنی فیملی اس کی کردار کشی نہ کرتی۔ میں تمام لڑکوں اور مردوں سے کہوں گا کہ وہ اچھے کیرئیر اور اچھی شخصیت کے لئے دعا بھی کریں اور کوشش بھی مگر اس سے پہلے وہ کوشش او ردعا کریں کہ انہیں اچھا خاندان ملے۔ ان کی بیوی اور بیٹی ان کی عزتوں کی محافظ ہو۔ ان کی نظریں صرف اور صرف مال پر نہ ہوں۔

میں عورتوں سے کہوں گا کہ اگر تم اپنے شوہر کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہو، اس کی انسانی، نفسیاتی، سماجی اور طبعی ضروریات پوری کرنے کی بجائے اسے نوٹ بنانے کی فیکٹری سمجھتی ہو تو پھر قانونی اور مذہبی علیحدگی کے بعد کیا جواز رہ جاتا ہے کہ تم تھانیدار بنو۔ ایک مرد زندگی بھر کی خاندانی اور جذباتی کمائی لٹنے کے بعد کیا کرے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ مڈل کلاس کی تین چوتھائی آبادی میں مرد مظلوم ہے۔

میں نے اس تحریر میں کسی خاتون کا نام نہیں لکھا اور لوٹ مار کا کوئی کاروبار آشکار نہیں کیا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ شارق جمال جس سے زندگی میں اچھا تعلق رہا، اس کی ڈیڈ باڈی کو اس کی (سابق)فیملی اور اس کے ساتھی آئی جی، ڈی آئی جی وغیرہ سب معاف کر دیں۔ اس کو جتنا نچوڑنا تھا نچوڑ لیا، جتنا بھنبھوڑنا تھا بھنبھوڑ لیا۔ فیملی اور پولیس نے اب مردے کا منہ کتنا کالا کرنا ہے۔ خدا سے ڈرنا چاہئے اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔