پیارے عمران! صحت اورسلامتی کے ساتھ رہو، رزق اورعزت میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے، ایک ماں جنت میں بھی ہو تو وہاں بھی اپنے بیٹے پرفخر کرتی ہے جب بیٹا تم جیسا شاندار ہو۔ میں جانتی ہوں کہ تم اس وقت اپنے ہم وطنوں کے بہتر مستقبل کے لئے مصروف ہو، تمہیں سیاست کے روایتی ہتھکنڈوں کا بھی سامنا ہے تمہاری مصروفیات میں مخل ہونا مناسب نہیں مگر یقین کرو کہ اگرمعاملہ سیاست کا ہوتا تو میں کبھی ڈسٹرب نہ کرتی مگر یہ ایشو سیاست اور حکومت سے زیادہ ہے، اتنا اہم کہ سیاست اور حکومت اصل میں اسی کے لئے ہیں، اگر یہ حل نہ ہو تو ان دونوں کی کوئی ضرورت، کوئی فائدہ نہیں۔
پیارے عمران! اللہ تعالیٰ کے فضل اور تمہارے ذریعے ملنے والی لاکھوں لوگوں کی دعاوں کی وجہ سے میں جنت میں ہوں اورتمہارے والد بھی تمہارا ذکرکرکے اکثرمسکراتے اور فخر کا اظہارکرتے ہیں۔ یہاں ہر وقت ٹھنڈی خوشگوار ہوائیں چلتی ہیں، پھلوں اورمیووں کی کثرت ہے، ہر خواہش دل میں آتے ہی پوری ہوجاتی ہے مگرمجھے کبھی کبھار وہ تکلیف یادآتی ہے جو میں نے کینسر کی مریضہ ہونے کی وجہ سے برداشت کی۔ تم نے میرے نام پر کینسر ہسپتال بنا کے وہ تاریخ رقم کی ہے جسے دنیا ہمیشہ بیٹے کی ماں لازوال محبت کے طورپر یاد رکھے گی۔ وہاں آنے والا ہرمستحق مریض اپنی دعاوں سے میرے درجات بلند کرکے جاتا ہے مگر میں تمہیں ایک انتہائی حیرت انگیز بات بتانا چاہتی ہوں کہ تمہاری حکومت قائم ہونے کے بعد مجھے اچانک جنت میں وہی جان لیوا تکلیف محسوس ہوئی جوکینسر کے دوران علاج اور ادویات نہ ملنے کی وجہ سے ہواکرتی تھی۔ میں حیران بھی ہوئی اورپریشان بھی۔ فرشتوں سے استفسارکیا کہ میرے رحمان اوررحیم رب کی جنت میں کیا معاملہ ہوا کہ یہاں تو دکھ، درداورتکلیف کاداخلہ ہی منع ہے، یہاں تو صرف ایصال ثواب پہنچتا ہے، دعائیں پہنچتی ہیں۔ فرشتے بھی لاعلم تھے مگر پھر میری درخواست پر اللہ رب العزت نے مجھے ایک حقیقت دکھانے کے لئے جنت اورزمین کے درمیان کے پردے ہٹا دئیے۔
پیارے عمران! میں نے دیکھا کہ پاکستان کے صوبے پنجاب میں کینسر کے ساڑھے پانچ ہزار مریض حکومت کی طرف سے مفت ادویات نہ ملنے کے باعث تڑپ رہے ہیں، سسک رہے ہیں، التجائیں کر رہے ہیں مگر ان کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ تمہاری حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا تھا جب تمہاری بنائی ہوئی وزیر صحت یاسمین راشدنے ادویات کی فراہمی میں کرپشن کاالزام لگاتے ہوئے اس کا آڈٹ شروع کروا دیا تھا۔ مجھے کینسر کے حال ہی میں فوت ہوکرآنے والے کچھ مریضوں نے بتایا ہے کہ اس آڈٹ میں سے بھی کچھ نہیں نکلا۔ میں تمہاری کرپشن کے خلاف مہم کو سراہتی ہوں مگر تمہاری وزیر کی کرپشن اور آڈٹ کے نام پر غریب کینسر کے غریب مریضوں کی ادویات بند کرنا اور بار بار بند کرنا کون سی انسانیت ہے۔ بعض مریضوں ایک مہینے میں دو سے چار لاکھ روپوں تک کی ادویات استعمال کرتے ہیں اور بیٹا خود ہی سوچو کہ مہنگائی کے اس دور میں جب بیس، تیس یا چالیس ہزار روپے کمانے والا اپناکچن ہی نہ چلا سکتا ہو تو وہ لاکھوں روپوں کی ادویات کیسے خرید سکتا ہے۔ میں تمہیں یاد کرواتی چلوں کہ کینسر کے یہ مریض ستمبر2019 میں بھی سڑکوں پر آئے تھے اور انہو ں نے مال روڈبلاک کی تھی۔ ان کی ادویات مارچ 2020 میں بھی کورونا لاک ڈاون کے نام پر بندکی گئی تھیں اور اب یہ کام تیسری مرتبہ ہوا ہے، حکومت نے گذشتہ برس جولائی سے ادویات کی فراہمی کے معاہدے کی تجدید ہی نہیں کی اورکمپنی نے آٹھ ماہ پیمنٹ نہ ملنے کے بعد ان کی فراہمی روک دی ہے۔ میں نے دیکھا بدھ کے روز ادویات کے بغیر مرتے ان مریضوں نے کلمہ چوک لاہور پر احتجاج کیا اورمیٹرو بس کا ٹریک بند کر دیا، پنجاب بھر سے احتجاج کے لئے آنے والوں کے پاس کرائے اور کھانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔
پیارے عمران! اب میں تمہیں بتاتی ہوں کہ میں یہ خط لکھنے پر مجبور کیوں ہوئی۔ کل میاں شریف مرحوم بھی اپنی اہلیہ شمیم اختر اور بہو کلثوم نواز کے ساتھ جنت میں مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میری بہن، میں سیاسی معاملات پرکوئی بات نہیں کروں گا مگریہ ضرورکہوں گاکہ کینسر کے جن مریضوں کے لئے میرے بیٹے شہباز شریف نے انٹرنیشنل کمپنی نوارٹس کے ساتھ ایک زبردست معاہدہ کیا تھا جس کے تحت نوارٹس یہ مہنگی ترین ادویات صرف دس فیصد قیمت پر فراہم کرتی تھی اور شہبازشریف بغیرکریڈٹ لئے مریضوں کومفت دیتا تھا مگرعثمان بزدار المشہور وسیم اکرم پلس نوارٹس کو دس فیصد ادائیگی بھی نہیں کر رہا۔ میرا خیال ہے وہ درست شکوہ کررہے تھے کہ ہر معاملے پر کرپشن، کرپشن کی رٹ نے ملک اور عوام کوبہت زیادہ نقصان پہنچا دیا ہے کہ لوگ جینے سے بیزار ہوئے بیٹھے ہیں۔ وہ طعنہ دے رہے تھے کہ کم از کم کینسر کے مریضوں کے ساتھ تمہارے بیٹے کو یہ سلوک نہیں کرنا چاہئے تھا اور اسے تمہارا اوراپنا ہی خیال کرلینا چاہئے تھا، میرا اس طرح میں بھی کینسرکی مریضہ تھی اورمیں نے یہ تکلیف خود دیکھی ہے اور اپنا اس طرح کہ تم نے میرے نام پر کینسر کا ہسپتال بنا کے بہت نیک نامی کمائی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جس طرح تم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کر دیا ہے اور صحت کارڈکانام انصاف صحت کارڈرکھ دیا ہے اسی طرح کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی کا نام جو چاہے رکھ لو مگر ان کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنادو۔ میں نے بھی اتفاق کیا کہ اگر کوئی اس میں کرپشن کررہا ہے، کوئی جعلی مریض ہے یا ادویات مارکیٹ میں فروخت کرتاہے تو اسے پکڑا جائے، اس سے ریکوری کی جائے اور اسے قرارواقعی سزا دی جائے مگریہ سزا ان مستحق تڑپتے جاں بلب مریضوں کو نہیں ملنی چاہئے۔ میں نے ان سے وعدہ کیاکہ بھائی صاحب میں اپنے بیٹے کی توجہ اس طرف مبذول کرواوں گی اورمجھے یقین ہے کہ وہ چئیرمین سینیٹ کے انتخابات سے بھی زیادہ اہمیت اس ایشو کو دے گا۔
پیارے عمران! میں صحت کے معاملات پر بات نہیں کرنا چاہتی مگرتمہیں دیکھنا ہو گا کہ کیا صحت کارڈ واقعی غریب پاکستانیوں کے صحت کے مسائل حل کرسکتا ہے کہ غریبوں کو یہ کارڈمل گیا مگروہ جو بیس سے پچاس، ساٹھ ہزار بھی کماتے ہیں وہ کہاں جائیں گے۔ اس وقت سرکاری ہسپتالوں میں ادویات تک موجود نہیں ہیں۔ آپریشن کروانے کے لئے جانے والوں کو کہاجاتا ہے کہ اپنی سرنج اورٹانکے لگانے کا سامان تک خود لے کر آئیں۔ میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ تمہاری لگائی ہوئی وزیر صحت نے اپنے شعبے کے لوگوں ہی نہیں بلکہ مریضوں تک کی زندگی عذاب بنارکھی ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں اورپیرامیڈکس سمیت کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہے اور کینسر کے مریضوں کی ادویات بار بار بند کر کے تو حد ہی کردی ہے۔ مجھے لوگ بتا رہے تھے کہ یہ عوا م کے ووٹوں کے سے منتخب ہو کر نہیں آئی لہذا اسے عوام کی کوئی پرواہ بھی نہیں ہے مگر مجھے علم ہے کہ تم ایسے نہیں ہو۔ تم جس طرح مسافر خانے اورلنگر خانے بنا رہے ہو، کوئی بھوکا نہ سوئے جیسے پروگرام لا رہے ہو ظاہر کر رہاہے کہ تم ایک سچا اورہمدرددل رکھتے ہو۔ ذرا سوچو، غضب خدا کا، یاسمین راشد کو خود یہ بیماری ہونے کی اطلاعات ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اس کی کیمو بھی ہورہی ہے مگر وہ ان مریضوں پر ترس نہیں کھا رہی۔ میں نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ یہ گائنی کی لیڈی ڈاکٹریں سب سے زیادہ ظالم، مغرور، کھڑوس اور بے پرواہ ہوتی ہیں، عورتیں درد زہ سے چیخ رہی ہوتی ہیں اور یہ کہہ رہی ہوتی ہیں بی بی شور نہ مچا، ڈرامے نہ کر۔
پیارے عمران! جنت میں نہ تعصب ہے اور نہ ہی سیاست، ہم سب یہاں ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے اور اپنے رب کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم مجھے میاں صاحب کے ساتھ ساتھ کینسر کے ان مریضوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دو گے جو محض تمہاری وزیر صحت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ادویات نہ ملنے پر شدید درداورتکلیف کے ساتھ مرجائیں گے۔ میں اس تکلیف کو جانتی ہوں اور اگرنہ جانتی ہوتی تو کبھی تمہیں ڈسٹرب نہ کرتی۔ تم میرے قابل فخر بیٹے ہواورمجھے یقین ہے کہ تم میرامان رکھو گے۔ تمہاری پیاری والدہ۔ شوکت خانم۔ مقیم جنت الفردوس۔