میرا آج کا شہریاراں، ان چھ، سات سیاسی، تجزیاتی کالموں کی سیریز کے حوالے سے ہے جو میں نے آزاد کشمیر کے انتخابات میں نواز لیگ کی شکست کے بعد لکھے۔ یہ وہ وقت تھا جب نواز لیگ نے پہلے گلگت بلتستان اور اس کے بعد آزاد کشمیر میں دھواں دار انتخابی مہم چلا ئی تھی مگر انتخابات بری طرح ہار گئی تھی۔
میں نے بطور سیاسی تجزیہ کار دوامور کی نشاندہی کی تھی، پہلا یہ کہ مریم نواز نے بلاشبہ حکومت مخالف ووٹر کی توجہ اورمحبت حاصل کی ہے مگر ابھی وقت نہیں کہ انہیں فیصلہ ساز بنایا جائے، اس سے پہلے انہیں اپنے آپ کو عوام سے اوپر کے درجے کی سیاست میں قابل قبول بنانا ہو گااو ر دوسرا امر نواز لیگ کی پالیسی سے جڑا تھا، وہ پالیسی جس کے تحت میاں نواز شریف جارحانہ سیاست کر رہے تھے اور وقت ثابت کر رہا تھا کہ وہ اپنا اور پارٹی کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
میرا کسی منافقت اور اگر مگر کے بغیر مشورہ تھا کہ وہ اپنی حکمت عملی تبدیل کریں کہ ہاکی کے میدان میں فٹ بال کھیلیں گے تو ہاکیاں ہی کھائیں گے، روم میں وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو روم والے کر رہے ہوں۔
میں جانتا ہوں کہ میرے ان کالموں کو جاتی امرا میں ناپسند کیا گیا۔ مریم بی بی نے اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے ٹوئیٹر پر ہی ان فالو نہیں کیا بلکہ صابر ہاشمی سمیت ان کی پوری ٹیم نے اپنے اصلی اور نقلی سوشل میڈیا اکاونٹس سے گالیوں کی بوچھاڑ کر دی، اس تعلق پر بھی گالیاں دی گئیں جوان سے ہی نبھایا گیا تھا۔ کیپٹن صفدر جو بغیر سوچے سمجھے بولنے کی خاص شہرت رکھتے ہیں، جناب راغب نعیمی کی صاحبزادی کی شادی میں بہت سارے ارکان اسمبلی کے سامنے فرمانے لگے مجھے علم ہے تمہارے کالموں کا کمپیوٹر کہاں لگا ہوا ہے۔
بہت سارے نہیں جانتے کہ میں نے پولیٹیکل ایکٹیوازم ایم ایس ایف سے شروع کیا اور پھر گذشتہ دو، تین عشروں میں پرویز مشرف کے دور سمیت خواہ مخواہ ہی نواز شریف کے موقف کی حمایت کرتا رہا۔ طعنے دئیے گئے کہ مجھے پاکستان ریلویز کی ترجمانی کی ذمہ داری دے کر اس پارٹی نے کوئی بہت بڑا احسان کیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ میں اس وقت ایک مقبول چینل کا پرائم ٹائم شو کر رہا تھا جب خواجہ سعد رفیق نے برسوں کے تعلق کی بنیاد پر کہا کہ وہ بہت محنت کر رہے ہیں، ریلوے کا مردہ زندہ ہو رہا ہے مگر میڈیا میں اس کی کوئی کوریج نہیں ہے۔
ہم نفع نقصان سوچے بغیر تعلق نبھانے والوں کے قبیلے سے ہیں سو پرائم ٹائم شو چھوڑ دیاحالانکہ جتنے پیسے وہاں سے ملے اتنے تو پہلے بھی مل رہے تھے، ہاں، ایک ذاتی، جذباتی وجہ اور بھی تھی جسے دہرانا ضروری نہیں۔ مریم اورنگ زیب کی مہربانی یہ ضرور رہی کہ اس عرصے میں، میں نے پی ٹی وی پر جتنے شوز کئے ان کا معاوضہ مجھ سے پہلے والے اینکر کو سترہ ہزار روپے ملتا تھا اور مجھے اس کے چودہ سو روپے کے چیک دئیے گئے جو میں نے شکریہ کے ساتھ لینے سے انکار کر دیا۔ اس سے طنز اور تنقید کے سوا کیا کمایا کہ نیب نے سنا ہے کہ تین مرتبہ شیخ رشید صاحب کے کہنے پر انکوائری کی مگر ایک دھیلے کا بھی ہیر پھیر نہ ملا، بے ضابطگی نہ ملی۔
میری پاس کہنے کو بہت کچھ ہے مگرپورا کالم ہی اس کی نذر ہوجائے یہ مناسب نہیں۔ میاں نواز شریف نے مجھ سے پہلی جلاوطنی سے واپسی کے بعد ہی بات کرنا بند کر دی تھی کیونکہ میں ان سے سوال کرتا تھا اور وہ سوال ناپسند۔ سوال اورتجزیہ میری ذمے داری ہے، پیشہ وارانہ فرض ہی نہیں قومی قرض بھی ہے۔ میں دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کے ادوار نے ملک کو تعمیر اور ترقی دی ہے اور شہبازشریف کی گورننس نے غریب کو عزت، سہولت اور بہت کچھ۔
میری مقتدر حلقوں میں کوئی دوستیاں نہیں بلکہ شائد وہ میری باتوں کی وجہ سے پسند ہی نہیں کرتے مگر میری ایماندارانہ رائے یہ ہے کہ شریف فیملی اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک دوسرے کے ساتھ عزت اور انصاف کے ساتھ چلنا چاہئے۔ میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا زبردست حامی ہونے کے باوجود کہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی زیادتیاں ہی نہیں ہیں بلکہ ا س سے پہلے میاں نواز شریف کے فیصلوں کی خامیاں بھی ہیں جنہوں نے انہیں ہمیشہ اقتدار سے نکلوایا ہے۔ بہرحال، ان باتوں سے آگے بڑھتے ہوئے میں آزاد کشمیر کے جولائی میں ہونے والے انتخابات کے بعد کی صورتحال پر بات کرتا ہوں۔
میں نے جو کچھ لکھا اور جو کچھ کہا وہ نواز لیگ کے لئے نہیں تھا بلکہ پوری قوم کے لئے تھا۔ میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ ان تین، چار برسوں میں قوم کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ میں نے اپنی پوری صحافتی زندگی میں پنجاب میں بزدار دور سے بڑھ کربیڈ گورننس اورکرپشن نہیں دیکھی۔ مجھے خوشی ہے کہ تمام ترغصے کے باوجود ان مشوروں پر عمل ہوا جو میرے کالموں میں دئیے گئے۔
مریم صاحبہ کو بیک فٹ پر کیا گیا، شہباز شریف کو آگے لایا گیا اور صرف چھ ماہ کے عرصے میں یہ جادو ہو گیا کہ وہ عمرانی حکومت جو سیاسی ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہی تھی وہ اپنی چھتری سے محروم ہوگئی، وہ اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں رخصت ہو رہی ہے اور فرض کریں کسی معجزے سے عمران خان بچ بھی جاتے ہیں تو ان کی حکومت کے زہر والے دانت نکل چکے، مخالفین کے لئے اس سیاسی بھیڑئیے کے ناخن کاٹے اوردانت کھٹے کئے جا چکے۔ اب موصوف صرف کہہ ہی سکتے ہیں کہ وہ بہت خطرے ناک ہیں، وہ خطرے ناکی دکھا چکے، اپنی اننگز کھیل چکے۔ میں ہر شے کا مثبت پہلو دیکھتا ہوں، میرا خیال ہے کہ بہت اچھا ہواعوام اور مقتدر حلقوں نے خان صاحب کو آزما لیا، جانچ لیا، پر کھ لیا۔
یہ کہنا خود ستائشی ہوگی کہ شہباز شریف کو ڈرائیونگ سیٹ دینے کا فیصلہ میرے کالموں کا نتیجہ تھا، ان کی پارٹی میں بہت سارے سیانے موجود ہیں جو طریقے سے بات کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔ اجلاسوں میں بات ہوئی ہو گی اور حکمت عملی تبدیل کرنے پر دلائل بھی آئے ہوں گے، ان سب کا نتیجہ خوش آئند رہا، جذبات پر عقل اور منطق نے بالادستی حاصل کی۔
میں نے بطور صحافی شہباز شریف کو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں آصف زرداری کی طرح ہی سمجھتا ہوں کہ وہ گورننس کے حوالے سے ایک جن ہیں۔ وہ ٹیم بنانا اور اس سے کام لینا جانتے ہیں۔ اب اگر وہ وزیراعظم بن جاتے ہیں اور اپوزیشن جناب عمران خان کے فوری نئے انتخابات کے اعلان والے جال میں نہیں آتی تو پاکستان ٹیک آف کرنا شروع کر دے گا۔ امن، ترقی اور خوشحالی کا کم بیک شروع ہوجائے گا اوراس میں سب سے بڑا اور مرکزی کردار نواز شریف کا ہی ہو گا جنہوں نے اپنی سخت پالیسی تبدیل کی، وہ اڑے رہتے تو سب کچھ جامد رہتالہذا ان کا خصوصی شکریہ بنتا ہے۔
مجھے آخر میں یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت سارا گدلا اور کڑوا پانی گزر جانے دیجئے، مریم صاحبہ جو خواہش رکھتی ہیں وہ بھی پوری ہو سکتی ہے مگر اس وقت پوری ضرورت بہترین ایڈمنسٹریشن کے ساتھ ساتھ سیاسی رویوں کی ہے، ایسے سیاسی روئیے جن کی وجہ سے آصف علی زرداری سیاسی جادوگر کہلاتے ہیں۔