الحمدللہ، لاہو ر رنگ، کا پرائم ٹائم شو نیوز نائیٹ، ان غریب، مظلوم اور بے کس عوام کی مدد کے لئے ایک برینڈنیم بن چکا ہے جن کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ حکمرا ن انہیں یوں نظرانداز کرتے ہیں جیسے وہ کسی دوسرے جزیرے کی مخلوق ہوں، ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے پاس ان کی کوریج کے لئے جگہ ہی نہیں کہ وہاں سیاستدانوں سمیت بڑے بڑے طاقتوروں کا قبضہ ہے۔
ہمارے خبرنامے اور پروگرام ہی سیڈ، اور شی سیڈ، سے شروع اور اسی پر ختم ہوجاتے ہیں۔ ایک سیاستدان کہتا ہے کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا، دوسرا کہتا ہے کہ میں تمہیں نمٹ لوں گا، تیسرا کوئی اور بڑھک لگا دیتا ہے۔ مجھے یہ دعویٰ کرنے میں عار نہیں کہ ہم نے مسائل کا شکار لوگوں کی آواز بلند کرنے کے پروگراموں کا ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نیوز نائیٹ، ہفتے میں پانچ رو ز آن ائیر ہوتا ہے اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں ہوتا جس میں اکثریتی پروگرام پسے ہوئے مظلوم طبقات پر نہ ہوں جیسے ہمارے کینسر کے وہ غریب مریض جن کی مفت ادویات اکثر بند کردی جاتی ہیں۔
ہمارے کلرک اور درجہ چہارم کے ملازمین جن کی تنخواہوں کے حوالے سے ایک نہیں کئی پاکستان بنا دئیے گئے ہیں۔ ہمارے تاجر اور دیہاڑی دار جنہیں کرونا کے دوران بدترین بے روزگاری کا سامنا رہا۔ ہمارے رکشہ ڈرائیور جنہیں آج بھی لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے اہلکاروں کے دو، دو ہزار کے چالانوں ہی نہیں بلکہ گالیوں اور تشدد تک کا سامنا ہے۔
ہمارے ینگ ڈاکٹرز جنہیں ہسپتالوں میں سیکورٹی کے مسائل درپیش ہیں اور حکومت سے جاب پروٹیکشن کے، ہمارے میڈیکل کے سٹوڈنٹس جنہیں ایک کرپٹ اور نااہل امتحانی نظام کے حوالے کر دیا گیا ہے، ہمارے پیرا میڈکس اور نرسیں۔ ہمارے پینشنرز جن کو کئی کئی مہینے پینشن نہیں ملتی اور وہ دہائیاں دیتے ہیں۔
ہمارے اساتذہ جوکورونا کے دوران حکومت ناقص فیصلوں کی وجہ سے بے روزگار ہوئے اور سبزی کی دکانیں کھولنے جیسے کاموں پر مجبور ہمارے پروفیسرز، لیکچررز، لیب اٹینڈنٹس اور ا ن کے علاوہ پیف سے وابستہ ہزاروں سکول جن کی پیمنٹس روکی جاتی رہیں۔ ترقیاتی کاموں میں نااہلی، بدنظمی اور تاخیر کی وجہ سے مشکلات کاشکارہمارے عوام ہمارے ینگ انجینئرزاور محکمہ انہار کے ملازمین۔
ہمارے وہ سیاسی کارکن جو مشکل وقت میں جدوجہد کرتے رہے مگر جس کی بھی حکومت آئی اس نے انہیں نظرانداز کیا اور پیراشوٹس والوں کو اقتدار کی چھت پر اتار لیا اور ایسے بہت سارے دوسرےمیں نے بہت سارے گنوا دئیے اور بہت سارے رہ گئے مگر میں پوری ایمانداری سے کہتا ہوں کہ اگر میں ان کی آواز ارباب اختیار تک پہنچاتا ہوں۔
ان کے آنسووں سے اپنی سکرین گیلی کرتا ہوں توکوئی احسا ن نہیں کرتا کہ یہ میرا پروفیشن ہے، مجھے اپنے چینل کی سکرین کا پیٹ بھرنے کے لئے کوئی نہ کوئی پروگرام تو کرنا ہی ہے، ہاں میرے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ میں وزیروں، مشیروں کے پیچھے ایک خوشامدی مسکراہٹ لے کر پھرتار ہوں، ان سے پروگراموں میں آنے کی درخواستیں کرتا اور یوں اپنی ایک پی آر ڈیویلپ کرتا رہوں۔
سچ کہوں، حکومت والے سمجھتے ہیں کہ میں ان کے خلاف پروگرام کرتا ہوں، انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وزیر، مشیر مجھے دیکھ کرکنی کترا کرنکل جاتے ہیں اورپروگرام کی دعوت دی جائے تو اگنو ر کردیتے ہیں مگر یقین جانئے اس نقصان سے بھی میرا رتی برابر نقصان نہیں ہوتا بلکہ ان کا وہ فائدہ رہ جاتا ہے جو ان کے اور عوام کے درمیان پل بن کر ان کی نیک نامی کی صورت میں انہیں پہنچایا جا سکتا ہے۔
ہمارے پروگرام ان کے بغیر بھی ہوجاتے ہیں اور رسپانس لے لیتے ہیں۔ یاد آیا، میٹرو بس سروس کے ڈرائیور احتجاج کر رہے تھے تو میں نے ان کے ساتھ پروگرام میں حکومتی جماعت کے ایک نوجوان رہنما کو بھی آنے کی دعوت دی۔ اس نوجوان نے پروگرام میں نہ صرف اپنی حکومت کا مقدمہ پیش کیا بلکہ سابق حکومت کے خلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ بھی کی۔
جب وہ مسئلہ حل ہوا تو وہ نوجوان ان سب کا ہیرو بن گیا اور اسی طرح اگر وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی ناصر سلمان وقت دیتے ہیں تو وہ اپنی پارٹی کا بھلا کرتے ہیں، اس کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا توڑ کرتے ہیں، عمران خان کی خوبیاں بیان کرتے ہیں، مجھے کیا دیتے ہیں؟
میں شائد ایک ہزار ایسے طبقات کی بات کرسکتا ہوں جن کے لئے ہم نے پروگرام کئے، ہمارا کام یہی ہے کہ ہم ان کی آواز پہنچا دیں اور مسائل حل کرنا حکمرانوں کا کام ہے، وہ کریں گے تو دعائیں لیں گے، ووٹ لیں گے، نہیں کریں گے تو بددعائیں اور بدنامی جیسے بہت پہلے سابق حکومت نے اگر ہماری آواز پر ینگ ڈاکٹرز کی تنخواہوں میں اضافہ کیا، نوکریاں دیں۔
انہیں جاب سیکورٹی اورسروس سٹرکچر دیا تو آج وہی ڈاکٹر انہیں بھلے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔ میں اپنی اور اپنی ٹیم کی طرف سے یہی کہہ سکتاہوں کہ ہم جن کے لئے پروگرام کرتے ہیں وہ ہمیں کوئی صلہ نہیں دے سکتے اور ہم بھی ان سے چائے کے کپ تک کے روادار نہیں، وزیراعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ ٹی وی اینکر مائیک لے کر غریبوں کے پاس چلے جاتے تو بہت برا کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھا کرتے ہیں، ہم عوام کے دکھ، درد ان تک پہنچاتے ہیں جو حکمران بننے کے بعد بڑی بڑی فصیلوں اوربڑے بڑے خوشامدیوں کے حصار میں قید ہوجاتے ہیں، اپنی آنکھوں اپنے کانوں اور شائد دلوں تک سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ہاں، اس سب میں ایک احسان ضرور ہے اور وہ نئی بات میڈیا گروپ کے چیئرمین جناب چوہدری عبدالرحمن کا ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنا پلیٹ فارم اس جہاد کے لئے فراہم کر رکھا ہے۔ میں اپنے کئی عشروں کے صحافتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ کانٹینٹ، کی جو آزادی نئی بات میڈیا گروپ کے چینلز اور اخبار میں ہے وہ کسی دوسرے ادارے میں نہیں دیکھی۔
یہ آزادی اس حد تک ہے کہ ہم نے سپیرئیر گروپ کے فلیگ شپ انسٹی ٹیوشنز دی سپرٹ سکولز، ہونے کے باوجود پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں کے حوالے سے پروگرام رکھا تو متعلقہ حکام کی سانسیں پھول گئیں، وہ ڈر گئے کہ شائد مالکان برا منائیں گے۔ میں نے گھبراہٹ دیکھی تو کہا کہ آپ جا کر پوچھ لیں کہ یہ ایشو ڈسکس ہونا وقت کی ضرورت ہے۔
پوچھنے پر جواب آیا کہ نیوز نائیٹ کی ٹیم پرائیویٹ سکولز کا موقف ضرور شامل کرے کہ اگر فیسیں نہیں ہوں گی تو اساتذہ کی تنخواہیں کہاں سے آئیں گی اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنا پہلے ہی ہماری صحافتی ذمے داری تھی۔ یہ ہم ہی ہیں جو چوہدری محمد اکرم ٹیچنگ ہسپتال کے صحت کارڈ کے پینل پر ہونے کے باوجود نیوز اور نیوز نائیٹ میں صحت کارڈ کی خامیوں اور ممکنہ منفی نتائج کو ڈسکس کرتے ہیں۔
نیوز نائیٹ کی ٹیم کو واقعی ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس ادارے کے سربراہ کے نعرے کے عین مطابق قوم کے ہر ہیرو کو متعارف کرنے اور ہر ولن کو ایکسپوز کرنے کا حقیقی مینڈیٹ حاصل ہے اور یہی اصل صحافت ہے کہ طاقتوروں سے پی آر کرنے کے بجائے غریبوں اور مظلوموں کے آنسو پونچھے جائیں، ان کی آواز بنا جائے ورنہ سیاسی جماعتوں کے نمائندے تو ہر پروگرام میں سٹیریو ٹائپ سچی جھوٹی باتوں کی جگالی کر کے چلے جاتے ہیں۔
میں جب ایسا پروگرام کرتا ہوں تو مجھے بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو اپنی نمازوں کے بعد دعائیں دیتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعائیں چوہدری صاحب تک جاتی ہیں جو مظلوموں کی آواز بننے کے لئے اپنے ادارے کے خسارے اور نقصان کی پروا نہیں کرتے، کروڑوں کے اخراجات برداشت کرتے ہوئے مسائل کا شکار عوام کے لئے اپنے چینل کا پرائم ٹائم پیش کر دیتے ہیں۔
اپنے مسائل کا شکار دکھی اور مظلوم بندوں کی اس مدد کی جزا اللہ رب العزت ہی جانتے ہیں، یہی دعائیں دنیا اور آخرت کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، ان کا کوئی مول نہیں ہے، چوہدری صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ۔