عمرسرفراز چیمہ، گورنر پنجاب ہیں اور خبروں میں پوری طرح اِن ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ خود کو پنجاب جیسے بارہ کروڑ عوام کے صوبے میں کسی ایسی فوج کے قائد سمجھ رہے ہوں جو ملک کو امریکا سے آزادی دلانے کی جنگ لڑ رہی ہو، جی ہاں، سمجھنے کی کیا بات ہے کوئی خود کو کچھ بھی سمجھ سکتا ہے جیسے ا ن کے تازہ ترین دوست اور ساتھی عثمان بزدار، وہ اپنے آپ کو ان کی طرف سے جاری کئے ہوئے خط کے بعد وزیراعلیٰ سمجھ رہے ہوں کہ انہوں نے اس کے بعد پنجاب اسمبلی میں آدھی سے بھی کم رہ جانے والی کا بینہ کی میٹنگ بھی کر لی مگر جب وہاں سے باہر نکلے تو ساڑھے تین بر س سے ساتھ ساتھ ہوٹر بجاتا پروٹوکول جا چکا تھا۔
بہرحال اس کالم کے الفاظ عثمان بزدار پر ضائع کرنے کی ضرورت نہیں، بات ایک اولوالعزم اور پختہ کردار کے مالک سیاسی کارکن کی ہو رہی ہے جو برے وقت میں عمران خان کا ساتھی رہا لیکن جب اچھا وقت آنا ہی شروع ہوا تھا کہ اسے پارٹی کے سیاسی کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔
عمرسرفراز چیمہ کو پاکستان تحریک انصاف کا فاؤنڈر ممبر کہا جاتا ہے یعنی بانی کارکن اوراس کے ساتھ ہی تین اپریل سے پہلے تک وہی سلوک تھا جو اس پارٹی کے دوسرے بانی ممبران کے ساتھ ہورہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت پارٹی کی سیاست کو فواد چوہدری، شیخ رشید، شہباز گل اور پرویز الٰہی وغیرہ چلا رہے ہیں اور ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ ان کی عمران خان کے ساتھ نظریاتی جدوجہد کیا ہے۔
عمران خان کا اچھا وقت تیس اکتوبر دوہزار گیارہ کے بعد شروع ہوا تھا جس کے چند ہی رو ز کے بعد عمر سرفراز چیمہ کو مرکزی سیکرٹری انفارمیشن جیسے اہم عہدے سے براہ راست پارٹی کے کچرادان میں پھینک دیا گیا تھا۔ مجھے ابہام تھا کہ اس کے بعد شائد اس وفادار شخص کو کوئی ٹکٹ جاری کیا گیا ہو تو پارٹی کی ویب سائیٹ کے مطابق ہی اس کی آخری الیکشن ٹکٹ بھی بیس، بائیس برس پہلے کی بتائی جارہی ہے۔
جس روز اسے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری انفارمیشن کے عہدے سے ہٹایا گیا اسی روز عمران خان کالم نگار توفیق بٹ کی رہائش گاہ پر کھانے پرمدعو تھے۔ بہت ساروں نے بہت ساری باتیں کیں مگر میں نے ایک ہی بات کہی کہ میں ایک ایسے سیاسی کارکن کو عہدے سے ہٹانے پراحتجاج کرتا ہوں جس نے آج تک کے مشکل ترین سفر میں آپ کا ساتھ دیا اور آپ نے ایک ایسے بندے (شفقت محمود) کو اس کی جگہ دے دی جس کو تحریک انصاف جوائن کئے ہوئے ابھی پانچ، سات دن ہی ہوئے ہیں۔
عمران خان کے پاس اس کا روایتی جواب تھا کہ کپتان بہتر جانتا ہے کہ کون سے کھلاڑی کو کھلانا ہے او ریہ کہ اس نے شوکت خانم اورنمل کو بہترین ٹیم کے ذریعے ہی چلایا ہے۔ میری اس سے پہلے عمر سرفراز چیمہ سے بہت ساری ملاقاتیں تھیں مگر پھر وہ ایکٹو نہیں رہے مگر پارٹی کے ساتھ رہے، وفادار رہے۔
عمر سرفراز چیمہ کانام بہت سارے برسوں کے بعد تین اپریل کو سامنے آیا جب انہیں چوہدری محمد سرور کی جگہ پنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا۔ یہ وہ دن تھے جب سیاست کے طالب علموں کو بھی علم ہوچکا تھا کہ عمران خان اپنی انا، ہٹ دھرمی، نااہلی (اورملکی تاریخ کی ریکارڈبدترین کرپشن) کی وجہ سے اقتدار سے محروم ہو چکے ہیں۔ وہ اسد قیصر اور قاسم سوری کے غیر آئینی کردار کی وجہ سے کرسی سے چمٹے ہوئے تھے۔
پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کا کھیل ختم ہوچکا تھا۔ یہاں علیم خان تک جیسے وفادار ساتھی ان سے ناراض ہوچکے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب عمر سرفراز چیمہ کو گورنر پنجاب کے لئے نامزد کیا گیا تو انہیں عمران خان کے پاس جانا اورکہنا چاہئے تھا کہ میں آپ کی پارٹی کا رکن رہوں گا اور آپ کی جدوجہدمیں آپ کے ساتھ مگر یہ عہدہ انہیں فیصل واوڈا جیسے لوگوں کو دے دیں جن کے گھیرے میں آپ رہتے تھے۔ مگر عمر سرفراز چیمہ نے ایک سیاسی کارکن والی عزت اور انا نہیں دکھائی۔
انہوں نے عہدے کو چمٹ جانا مناسب سمجھا چاہے وہ چند روزہ ہی تھا اوراس کے ساتھ ہی وہ نظریاتی سیاسی کارکن کسی قبرستان میں دفن ہو گیا جس کا چہرہ اپنے کمٹ منٹ اور جدوجہد کی وجہ سے چمک رہا تھا اور اب ہمارے سامنے ایک گورنر ہے جس کی چند ہفتوں کی گورنری آئین سے کھلواڑ اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار سے بھری پڑی ہے۔ اب عمر سرفراز چیمہ کو آئین کے باغی اور پارٹی سربراہ کے غلام کے طور پر ہی یاد رکھاجا سکے گا جبکہ سیاسی کارکنوں کی جدوجہد ہی آئین، جمہوریت اور نظرئیے کے لئے ہوتی ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ عمر سرفراز چیمہ اپنے اوپر جبر کرتا اور ناپسندیدہ شخصیت سے وزیر اعلیٰ کا حلف لیتا جس کا انتخاب بھی اس کی نظر میں غیر آئینی اور غیر پارلیمانی تھا مگر وہ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد استعفیٰ دے سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ کوئی اوتھ کمشنر یا ذاتی ملازم نہیں کہ اسے پارٹی کی قیادت کی طرف سے جو بھی غیر آئینی اور غیر قانونی کام کہا جائے گا وہ کرتا چلا جائے گا۔ عمر سرفراز چیمہ مجھے بار بار حیران کرتا رہا جب اس نے عثمان بزدار کو بطور وزیراعلیٰ بحال کیا اوراس پر بیوروکریسی اور قانون کے شعبوں میں جس طرح اس کا مذاق اڑایا گیا اور میمز بنائے گئے وہ بھی ہمیشہ یاد رہیں گے۔
عمر سرفراز چیمہ نے ایک ایسے استعفے کو مسترد کیا جو اسے دیا ہی نہیں گیا تھا۔ اس شخص نے عدالت کے آئین، قانون اور جمہوریت کے لئے دئیے ہوئے مشورے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور میں سمجھتاہوں کہ عدالت واقعی تحمل سے کام لیتی رہی۔ یہ بھی بچگانہ حرکت تھی یا کوئی بہت بڑی سازش کہ اس نے عدالتی احکامات پر منعقد ہونے والی حلف کی تحریک کو رکوانے کے لئے صدر مملکت سے رینجرز بھجوانے کی سفارش کر دی۔ اس نے الفاظ استعمال کئے کہ پنجاب کے گورنر ہاؤس پرسینکڑوں پولیس والوں کی مدد سے غنڈوں نے قبضہ کر لیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ رینجرز سے چیف سیکرٹری پنجاب کی قیادت کی میں سول انتظامیہ اور پنجاب پولیس پر حملہ کروانا چاہتا تھا جو عدالتی حکم پر عمل کروا رہے تھے، وہ عدالتی حکم جو پہلے بھی دو مرتبہ جاری ہوچکا تھا اورپامال کیا گیاتھا۔ حالات یہ ہیں کہ اس کے بطور گورنر پنجاب افعا ل و کردار میں اس کا پرنسپل سیکرٹری بھی اس کے ساتھ نہیں تھا۔ میرا ان تین، چار ہفتوں کے دوران عمر سرفراز چیمہ کی کارکردگی دیکھتے ہوئے گمان ہے کہ وہ ابھی کابینہ کی حلف برداری میں بھی رکاوٹیں ڈالیں گے۔
بدقسمتی سے عمر سرفراز چیمہ نے اپنا پورا تاثر ہی خراب کر لیا ہے۔ وہ سیاسی غلامی میں آئین کی سبوتاژی تک پہنچ گئے ہیں۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ ان کی گورنری چند دنوں کی ہے مگر اس کے بعد وہی سڑک چھاپ سیاست ہو گی بلکہ بہت سارے گوگی خان اور ڈوگی خان تو اندھا دھند مال بنانے کی وجہ سے جیل جائیں گے تو عمر سرفراز چیمہ نے یہ حماقت کیوں کی کہ دس برس سے مسلسل نظرانداز کئے جانے والی سیاسی زندگی کے بعدایک ایسی گورنری کے لئے آئین شکنی اور سنگین غداری جیسے کالے الزامات پرآرٹیکل سکس کا خطرہ مول لے لیا جس کی عمر آٹھ، دس ہفتے بھی نہیں ہوگی۔
عمر سرفراز چیمہ نے بہت گھاٹے کا سودا کیا، اس نے اس گورنری سے سوائے تاریخ کی کالک کے کیا کمایا جو مستقل اس کے چہرے پرموجود رہے گی۔