یہ بطور صحافی میرے لئے روایتی خبر تھی کہ تھانہ کاہنہ کی پولیس نے ڈکیتی کرنے کے بعد بھاگتے دوڈاکووں سفیان اوروقاص کو مقابلے میں ہلاک کر دیا ہے اور اس کی ایف آئی آر بھی سو فیصد روایتی تھی کہ مبینہ ڈاکو بھاگ رہے تھے، پولیس کے ساتھ سامنا ہوا، ڈاکووں کے ساتھیوں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس سے پولیس والوں کا تو بال بھی بیکا نہ ہوا مگران کے اپنے ہی دو ساتھی ہلاک ہو گئے۔ آپ کو یاد ہو گاکہ سانحہ ساہیوال کی بھی کچھ ایسی ہی پریس ریلیز تھی اورپولیس کے چھوٹے بڑے تمام دفاتر میں ایسی کہانیوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، بندے مارے جاتے ہیں نام بدلے جاتے ہیں اور خبر جاری ہوجاتی ہے مگراس کہانی میں موڑاس وقت آیا جب سانحہ ساہیوال ہی کی طرح اس واقعے کی بھی ویڈیوسامنے آ گئی۔ اس ویڈیو میں سفیان اور وقاص کو زندہ، چلتی پھرتی حالت میں باوردی، مسلح پولیس اہلکاروں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، وہ انہیں گالیاں دے رہے، تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور پھر وہ نوجوان خون میں لت پت نظر آتے ہیں۔ مجھے یہ ویڈیو اس علاقے کے رہائشی ایک نوجوان نے بھیجی اور میں نے اسے سی سی پی او لاہور کے پی آر او کو فارورڈ کر دیا۔ اسے سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کر دیا تاکہ اس کے ذریعے نوٹس لیا جائے۔ اسی ویڈیو پر ہمارے نوجوان باصلاحیت اینکراویس اقبال نے بولتا لاہور، میں ایک زبردست پروگرام بھی کیا مگر کسی کے کان پرجوں تک نہ رینگی اور پھر اس کے بعد ایک دوسری ویڈیو سامنے آ گئی جس میں قتل ہونے والے وقاص کا تایا روتے ہوئے بتا رہا ہے کہ وہ انصاف کے حصول کے لئے لاہور کی سیشن کورٹ میں گئے جہاں انہیں سادہ کپڑوں والے پانچ، چھ مسلح افراد نے گھیر لیا۔ انہوں نے سیشن کورٹ کے قریب واقع پارک میں انہیں بندوقوں کے بٹ مارے، گالیاں دیں اورکہا تمہارے بیٹوں کو تو مار دیا گیا ہے اور تم کسی حادثے میں بھی مرسکتے ہو لہٰذا یہ انصاف وغیرہ کی باتیں چھوڑو اور گھر بیٹھو۔ میرے لئے یہ ویڈیو شاکنگ تھی کہ کیا قاتلوں کا یہ گروہ اتنا طاقت ور ہو چکا کہ قتل بھی کرتا ہے اور رونے بھی نہیں دیتا، آہ، یہ کالم، پروگرام اس خبر کے بعد فضول ہیں جس کے مطابق سانحہ ساہیوال کے ذمے دار ایس ایس پی کو بہادری کا دوسربڑااقومی ایوارڈ ستارہ شجاعت دے دیا گیا ہے۔
میں نے اپنے چینل کے مقبول کرائم شو تفتیشی، کے اینکر سلمان قریشی سے پوچھا تومزید معلومات ملیں۔ پولیس کے مطابق سفیان کا ریکارڈ تھا اور وہ سات سال پہلے قتل کے ایک مقدمے میں ملوث تھا مگر میری نظر میں کسی کے بھی کسی مقدمے میں ملوث ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ و ہ زندہ رہنے کا حق کھو چکا ہے جبکہ وقاص کا کسی قسم کا کوئی کریمنل ریکارڈ ہی نہیں تھا۔ مجھے انسانی حقوق کی صوبائی وزارت کے ترجمان عمر صدیقی بتا رہے تھے کہ انویسٹی گیشن کے ایس ایس پی نے ان پولیس والوں کو معطل کر دیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ کاہنہ کاایس ایچ او اس وقت بھی وردی میں ہے اورصوئے آصل چوکی کا انچارج بھی اپنے عہدے پر موجود۔ ایک
انکوائری آئی جی آفس میں ضرور شروع ہوئی ہے مگر میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پیٹی بھراوں کی یہ انکوائریاں، انکوائریاں نہیں ہوتیں بلکہ ان کی وکالتیں ہوتی ہیں کہ یہ دوبارہ کیسے بحال ہوں اور آج تک کوئی قاتل پولیس والا پھانسی نہیں چڑھا۔ مجھے حیرت یہ بھی ہوئی کہ اس واقعے کا سی سی پی او لاہور سے لے کر وزیراعلیٰ پنجاب تک کسی نے بھی نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جیسے پولیس نے دونوجوان نہیں بلکہ دوچیونٹیاں مسل دی ہوں، بلدیہ نے دو کتے مار دئیے ہوں جبکہ گذشتہ دور میں ایسی واردات پر وزیراعلیٰ خود متاثرین کے گھروں میں جایا کرتے تھے، پولیس والوں کو ہتھکڑیاں لگوایا اورانصاف کی یقین دہانی کروایا کرتے تھے مگر اب یوں لگتا ہے کہ پنجاب کے عوام کرائے کی قاتل پنجاب پولیس کے سامنے چھری پھیرنے کے لئے برائلر مرغیوں کی طرح پھینک دئیے گئے ہیں۔ بے حسی اور بے شرمی کی انتہا دیکھئے، اس واقعے کی ویڈیو آنے کے باوجود پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔ مقتولین کے ورثاپولیس والوں کے ڈر سے گھروں سے بھاگے ہوئے ہیں بلکہ ظلم کی انتہا یہ بھی رہی کہ نوجوانوں کو قتل کرنے کے بعد پولیس نے خود ہی دفنا دیا، ماوں بہنوں کو اپنے بیٹوں بھائیوں پر ماتم کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، نجانے عثمان بزدار نے یہ کیسا پنجاب بنا دیا ہے؟
میں نے اٹھارہ مار چ کو آرپی اوز کانفرنس کے بعد لاہور پولیس کے کارکردگی بارے جعلی دعوے دیکھے مگر اس کارکردگی میں کرائے کی قاتل پولیس کا تیرہ مارچ کا یہ کارنامہ درج نہیں تھا۔ میری موجودہ سی سی پی او سے ایک ملاقات ہوئی ہے اور میرا تاثر یہ ہے کہ فائل بھرو سی سی پی او گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے ماہر ہیں مگر حقائق یہ ہیں کہ پولیس شتر بے مہار ہو گئی ہے، مافیا بن گئی ہے۔ اس مافیا نے واقعے کے تین دن بعد لائنز سے اپنی پولیس بس بھیج کر مقتولین کے خلاف ایک مظاہرہ کروایا جس میں قاتل چوکی انچارج خود کھڑا نعرے لگا رہا ہے اور وزیراعلیٰ یہ ویڈیوکلپ بھی مجھ سے لے سکتے ہیں۔ اب لاہوری تب تک ہی زندہ ہیں جب تک کوئی پولیس افسر انہیں مارنے کا فیصلہ نہیں کر لیتا۔ عمران خان کاپنجاب پولیس کو درست کرنے کا وعدہ سب سے بڑا یوٹرن ثابت ہوا ہے۔ ان اڑھائی برسوں میں صرف ایک امید کی کرن بنی تھی اور وہ عمر شیخ کا بطور سی سی پی او تقرر تھا۔ عمر شیخ کے دور میں درج ہونے والے سیاسی مقدمات پر مجھے شدید تحفظات ہیں مگرمیں اس دور کے پولیسنگ آف دی پولیس، کے نعرے کو پولیس گردی کا واحد حل سمجھتا ہوں۔ عمر شیخ کی درخواست پر اگر لاہور کے پولیس افسران کے اثاثوں کی تحقیقات ہوجاتیں تو علم ہوجاتا کہ ملک کا سب سے بڑا جرائم سے مال بنانے والا مافیا کون سا ہے۔ میں بلاخوف تردیدکہتا ہوں کہ اگر عمر شیخ لاہور کا سی سی پی او رہتا توبڑھتی ہوئی پولیس گردی کم ہوچکی ہوتی۔ عوام کویقین ہوجاتاکہ پولیس والوں کا بھی احتساب ہوسکتا ہے مگرکرائے کے قاتلوں، ڈاکووں اور بھتہ گیروں پر مشتمل پولیس ایک ایسا منظم مافیا ہے جو وزیراعظم تک سے فیصلے کروا لیتا ہے، اپنے بندے تعینات کروا لیتا ہے۔