یہ بات بہت پرانی نہیں جب بہت سارے والدین شکایتیں کرتے تھے کہ ان کے بچوں کے ساتھ سکولوں میں سیاسی امتیاز روا رکھا جاتا ہے خاص طور پر پرائیویٹ سکولوں میں اور پوش ایریاز کے پرائیویٹ سکولوں میں۔ ٹیچرزان بچوں کو باقاعدہ طور پر مذاق، تضحیک بلکہ تذلیل کا نشانہ بناتے تھے اور بناتی تھیں جو یہ کہتے تھے کہ وہ نوازلیگ یا پیپلزپارٹی کو پسند کرتے ہیں۔ بچے بتاتے ہیں کہ اگروہ کہتے تھے کہ ان کے والدین ان دوجماعتوں کوسپورٹ کرتے ہیں تو انہیں گنوار، جاہل، کرپٹ اور ڈونکی سمیت نجانے کون کون سے القابات دئیے جاتے تھے۔ انہی پرائیویٹ سکولوں کے ٹیچرز نے اسلامیات اورمطالعہ پاکستان جیسے لازمی مضامین پڑھانے کا یہ انداز اختیار کر رکھا تھا جس میں پاکستان کی ہر خامی کو نواز شریف اور زرداری سے جوڑ دیا جاتا تھا جبکہ ہر خوبی اور خواب کو عمران خان سے۔ بہت سارے اساتذہ انگریزی وغیرہ میں بھی ایسے پیراگراف اور مضامین ترجمہ وغیرہ کے لئے تجویز کرتے تھے جو عمران خان کے قصیدے ہوتے تھے اور یہ کام محض ٹیچرز کا نہیں تھا بلکہ بڑے بڑے ایجوکیشنل گروپس کے مالکان پی ٹی آئی کا حصہ بن چکے تھے اوراس پالیسی پر ان کے خوشامدی ملازمین مزید دو ہاتھ آگے بڑھ جاتے تھے جب وہ یہ دیکھتے تھے کہ ان کے سکولوں، کالجوں سے پی ٹی آئی کے جلسوں اور تنظیم سازی کے لئے باقاعدہ بسیں روانہ کی جارہی ہیں۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ ہم ان شکایات پر کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، کچھ نہیں کر سکتے تھے اور اسی ماراماری اورافراتفری میں یوتھ کی پارٹی پی ٹی آئی ڈیکلئیر کر دی گئی۔
مجھے یہ سب باتیں اس وقت یادآ رہی تھیں جب میں بنی گالہ کے باہر استادوں پرلاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھامگروہ تو سرکاری اساتذہ تھے اور میں اس احتجاجی جلوس میں بھی موجود تھا جو پنجاب بھر کے پرائیویٹ سکولوں، کالجوں اور اکیڈیمیوں کی طرف سے ناصر باغ سے نکالا گیا تھا۔ اس جلوس پر بھی اسلام آبادکی طرح لاہورمیں بھی ایف آئی آر دی گئی۔ میں پی ٹی آئی کے غیر سرکاری ترجمان ٹی وی پر وزیر تعلیم مراد راس کی باتیں سن رہا تھا جو کہہ رہے تھے کہ سرکاری اساتذہ بغیر پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے پکی نوکری چاہتے ہیں اور یہ کہ اساتذہ نون لیگی ہیں۔ مجھے وہ کسان بھی یاد آ گئے جن میں سے دو احتجاج کرتے ہوئے لاہور میں مارے گئے تھے انہیں بھی نون لیگ کا کہا گیاتھا اوروہ کینسر کے مریض بھی، جن کی قیادت کرنے والے صاحب پی ٹی آئی کے باقاعدہ عہدیدار تھے اور اب بھی ہیں اور ان کی دوائیاں حکومت نے بند کر دی تھیں۔ پیف کے پارٹنرز اور اساتذہ کو بھی نون لیگی کہا گیا جو اپنے اپنے حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ساتھی تھے۔ وہ وائے ڈی اے بھی نون لیگی قرار پائی تھی جس سے وابستہ ینگ ڈاکٹرز نسخے پر دوا کے ساتھ ساتھ علاج کے لئے بلے پر ٹھپہ تجویز کیا کرتے تھے اور اب ان کا ایم ٹی آئی ایکٹ، کے ذریعے شافی علاج ہو گیا ہے۔
سترہ دسمبر کو تعلیمی اداروں کی بندش کے خلاف لاہور میں ہونے والی تعلیمی ریلی کی قیادت آل پاکستان کالجز اینڈ اکیڈمیزایسوسی ایشن کے چئیرمین رانا عنصر محمود، آل پنجاب اکیڈیمیز اینڈ کالجزایسوسی ایشن کے چئیرمین انجینئر عادل خلیق سکولزمینجمنٹ ایسوسی ایشن کے صدر کاشف ادیب جاودانی اور شیر شاہدرہ کے نام سے مشہور چودھری واحد کر رہے تھے۔ اسی حوالے سے پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا بھی غیر معمولی طور پرمتحرک ہیں۔ میرے سوال کاشف شہزاد چوہدری سے بھی تھے جوپنجاب بھر میں سرکاری ملازمین کو مستقل کروانے کے لئے قائم کی گئی تنظیم پیسپا، کے چئیرمین ہیں۔ میں نے کاشف شہزاد سے پوچھا، آپ مستقل ہونے کے لئے لوگ بنی گالہ جا پہنچے جبکہ اصول کی با ت تو یہ ہے کہ جب ایجوکیٹرز کو ملازمت دی گئی تھی توانہیں کنٹریکٹ بیس پر ہی دی گئی تھی اوردوسراسوال یہ ہے کہ آپ پکے ہونے کے لئے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان سے کیوں بھاگتے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ استاد خود تو بچوں کے ڈٹ کے امتحان لیں اورخودامتحان دینے کی باری آئے تو احتجاج شروع کردیں۔ اُن کا جواب تھا کہ سابق حکومت نے ایک قانون بنایا جس کے تحت تیس اپریل 2018 تک چار سال کنٹریکٹ ملازمت کرنے والوں کو پکا کیا جانا تھا۔ نئی حکومت آئی تو اس نے اس قانون کو اٹھایا، مدت چار سے تین سال کی اور تیس اپریل کی کٹ آف ڈیٹ ختم کر دی۔ اب قانون کے مطابق تین سال ملازمت کرنے والوں کا قانونی حق ہے وہ مستقل کر دئیے جائیں مگر وزیر تعلیم انہیں پبلک سروس کمیشن کی راہ دکھا رہے ہیں جو قانونی طوربھی غلط ہے اور اصولی طور پر بھی، وہ یوں کہ سات، سات برس ملازمتیں کرنے والے اب اوورایج ہوچکے، وہ سروس کمیشن کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے۔
پرائیویٹ سکولوں، کالجوں، اکیڈیمیوں کی تنظیموں کے رہنما کاشف مرزا اور راناعنصرمحمود تسلیم کر رہے تھے کہ ان کے اداروں میں پڑھنے والی بھی یوتھ تھی اور پڑھانے والے بھی پچیس، تیس برس کی عمر کے لگ بھگ تھے، پرائیویٹ سکولوں، کالجوں میں واقعی پی ٹی آئی کی لابنگ ہوتی تھی مگر اب معاملہ یہ ہے کہ ینگ ڈاکٹرز کی طرح ٹیچرز بھی عمران خان کی حکومت سے سخت مایوس ہوئے ہیں۔ ان کاسب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب بازاروں، دفتروں، فیکٹریوں اور سیر گاہوں سمیت ہر جگہ کھلی ہے تو تعلیمی ادارے مہینوں سے کیوں بند ہیں۔ اس وقت عملی طور پر ساڑھے سات کروڑ طالب علموں کا مستقبل داو پر لگا ہوا ہے۔ پیف سمیت ہزاروں پرائیویٹ تعلیمی ادارے بند ہورہے ہیں، لاکھوں اساتذہ گھروں میں فاقوں پر پہنچ چکے ہیں اور اب خدشہ ہے کہ حکومت نیا نصاب لانے کے لئے تعلیمی ادارے ستمبر تک بند رکھ سکتی ہے کیونکہ ابھی تک تو نئے نصاب کے ٹینڈرز تک بھی نہیں ہوئے۔ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے جس نے ایجوکیشنل انڈسٹری کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ پنجاب میں حکومت انصاف آفٹرنون سکول لارہی ہے جس کا نام ہی مضحکہ خیز ہے اور یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف آفٹر نون یعنی آفٹر مسلم لیگ نون لیگ، کوئی تصور لا رہی ہو۔ میری متعلقہ حلقوں سے پرزور اپیل ہے کہ تعلیمی اداروں کو ہرگز ہرگز سیاسی تقسیم میں نہ ڈالا جائے اور سیاسی جماعتوں کے نام اور منشور کے ساتھ تعلیمی اداروں کے قیام کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ انصاف اکیڈیمیز کے بارے بھی انکشاف ہوا ہے کہ وہاں میٹرک پاس آٹھ ہزار، ایف اے پاس دس ہزار اور بی اے بارہ ہزار پر ملازم ہوں گے جوواقعی ایک استاد کی تذلیل ہے۔ سکولوں میں بھی کالجوں کے سی ٹی آئیز کی طرح ایس ٹی آئیز لائے جا رہے ہیں جو چھ، چھ ماہ کے ملازم ہوں گے لہٰذا ان پر نتائج اور معیار کی ذمے داری نہیں ڈالی جا سکے گی سومجموعی طور پر یہی لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت تعلیم کے شعبے کا ایک عظیم الشان قبرستان تیار کر رہی ہے۔
میں نے استاد رہنماوں سے پوچھا، آپ اس لئے تنقید کر رہے ہیں کیونکہ آپ نون لیگی ہیں، مراد راس خود یہ بات کہہ رہے ہیں تو استاد رہنماوں نے قہقہے بلند کئے۔ مجھ سے پوچھا، زندگی کے کس شعبے میں اطمینان اور ترقی ہے کہ ہم سے کہا جائے کہ ہم حکومت سے مطمئن ہوں۔ یوں بھی جناب عمران خان کو معلوم کرنا چاہئے کہ ہمیں نون لیگی کہنے والے کی اپنی رشتے داری کس نون لیگی رہنما کے ساتھ ہے اور وہ کس کے ایجنڈے پر اس طبقے کو پی ٹی آئی سے متنفر ہی نہیں بلک فاقوں پرمجبور کرنے دئیے جانے کے بعد نفرت پرمجبور کر رہا ہے جس طبقے نے پی ٹی آئی کے لئے یوتھ کی پوری نرسری تیار کی۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ مراد راس اور حمزہ شہباز شریف میں رشتے داری ہے مگر کتنی ہے اور کیسی ہے اس کا مجھے کچھ علم نہیں، سو، اساتذہ رہنماوں کے مطالبے پر عمران خان ہی رشتے داری اور ایجنڈے کے الزام کی تحقیق کر سکتے ہیں مگرمجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لئے بہت کچھ کرجانے والے پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور ان کے اساتذہ کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور اچھا بھلا ہو گیا ہے۔