مجھے لوگوں سے ملتے اور ان کے دلائل سنتے ہوئے عشرے گزر گئے مگر یقین کیجئے کہ مفاد عامہ کی رٹ درخواستیں دائر کرنے والے نوجوان وکیل شیراز ذکا نے اپنے دلائل سے مجھے جس طرح متاثر کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور سب سے بڑھ کر مجھے اس وکیل میں مختلف گروہوں کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے کی ابھی تک کوئی دلیل بھی نہیں ملی۔ جب ہم بہت چھوٹے ہوئے ہواکرتے تھے تو ایم ڈی طاہر مرحوم کی پبلک انٹرسٹ کی رٹ درخواستوں کی بہت دھوم ہوا کرتی تھی مگر ان کا ایک مسئلہ تھا کہ وہ رٹ مناسب تیاری کے ساتھ دائر نہیں کرتے تھے۔
ان کا اصل مقصد اخبارات میں خبر لگوانا ہوتا تھا جو لگ جاتی ہے اور ان کی قدر و قیمت میں اضافہ کر دیتی تھی مگر اس سے انکا رنہیں کیا جا سکتا کہ ان رٹوں کی بھی اپنی اہمیت تھی۔ عوامی مفاد کی رٹ درخواستیں دائر کرنے کے لئے ہمارے دوست اظہر صدیق بھی بہت مشہور ہیں اور ان کا جوڈیشئل ایکٹوازم پینل سیاسی، عدالتی اور صحافتی حلقوں میں ایک خاص شہرت رکھتا ہے، مجھے شیراز ذکا کام دوسروں سے مختلف نظر آیا۔
شیراز ذکا نے اس سے پہلے سموگ سمیت بے شمار پبلک ایشوز پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انہوں نے عدالتوں کے ذریعے وہ کام کروائے جو بنیادی طور پر حکومتوں کی ذمے داری ہوتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ انہیں جج بھی اچھے ملے جو عوام کے مسائل کا درد رکھتے ہیں، انہیں حل کرنے کے لئے کمٹڈ نظر آتے ہیں حالانکہ یہ بنیادی ذمے داری وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ کی ہے۔ شیراز ذکا بتا رہے تھے کہ وہ حکومت کی طرف سے ریور راوی فرنٹ ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے نام پر کسانوں کی زمینیں اونے پونے ہتھیانے کے خلاف عدالت میں گئے۔ انہوں نے عدالت میں ثابت کیا کہ حکومت سوا سو برس سے بھی زائد پرانے ایک قانون کے نام پر زرعی زمینیں ایکوائر کر ر ہی ہے۔
1894 کے بعد اب تک ایک سواٹھائیسواں برس گزر رہا ہے۔ یہ قانون دینے والا انگریز اپنی حکومت چھوڑ کر واپس اپنے گھر جا چکا ہے۔ انڈیا اس قانون میں متعدد ترامیم کر کے جاگیرداری تک کا خاتمہ کر چکا ہے مگر ہماری حکومتیں اور پارلیمنٹیں اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں، بالکل اسی طرح جیسے ہم آج بھی پولیس کا انگریز دور کے مطابق ہی استعمال کرتے ہیں یعنی لوگوں کو مارنے اور اپنے ساتھ ملانے کے لئے، یہی حال اس قانون کا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ حکومت پرائیویٹ زمین کسی عوامی مفاد کے منصوبے کے لئے ہی ایکوائر کر سکتی ہے مگر روڈا، کی ایکشن کمیٹی کے سربراہ مصطفی رشید مجھے بتا رہے تھے کہ حکومت کا نیا شہر بنانے کا منصوبہ اصل میں غریبوں اور کسانوں سے اس قانون کی آڑ میں زمینیں قابو کر کے رئیل سٹیٹ کے مگرمچھوں کے حوالے کرنے کا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ڈیل ہے جس میں ظاہر ہے بڑا مال بھی انوالو ہوگا کیونکہ کوئی ڈیل کمیشن کے بغیر نہیں ہوتی۔
حکومت کہتی ہے کہ وہ اس نئے منصوبے میں ساٹھ لاکھ درخت لگائے گی مگر عدالت میں سیکرٹری فاریسٹ کہتے ہیں کہ اتنے ہی درخت کٹ جائیں گے۔ ایشو یہ ہے کہ ہم دن رات زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بناتے چلے جا رہے ہیں اوریہی سلسلہ جاری رہا تو ہماری فوڈ سیکورٹی کا کیا بنے گا۔ ہمارے پاس وہ کیا ضروریات اور ان کی وضاحت کرنے والے بائی لاز ہیں جن کے تحت زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
سچ پوچھیے تو معاملہ صرف کسانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ وہاں ہزاروں انڈسٹریل یونٹس قائم ہیں جن میں لاکھوں محنت کش کام کرتے ہیں جو کئی برسوں کے لئے بے روزگار ہو جائیں گے۔ یہ یونٹس روزگار ہی نہیں دیتے بلکہ ان سے اربوں، کھربوں روپوں کاٹیکس بھی وصول ہوتا ہے۔ اور بات صرف ان صنعتکاروں کی ہی کیوں کی جائے، میں نے جب اس علاقے کا وزٹ کیا تو مجھے وہ لوگ ملے جنہوں نے تین، چار لاکھ روپے مرلہ قیمت میں دو، دو مرلے زمین خریدی۔ ان دو مرلوں پر چار، پانچ لاکھ روپے لگا کر گھر بنایا اور اب حکومت وہ گھر ڈی سی ریٹ یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ مرلے میں ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر غریب مزدوروں سے ان کی یہ چھت چھن گئی تو وہ کیا ان کے بچے بھی زندگی بھر اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے، کرائے کی کوٹھڑیوں یا جھگیوں میں ہی زندہ رہیں گے، وہیں مرجائیں گے۔ مصطفی رشید اور شیراز ذکا کے میرے پروگرا م میں بیان کئے گئے اعداد وشمار دلچسپ ہیں کہ حکومت ایک نیا لاہور بنانا چاہتی ہے، اس وقت لاہور کا رقبہ ایک لاکھ دو ہزار ایکڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ یہ نیا لاہور ایک لاکھ چھ ہزار ایکڑ سے بھی زیادہ کا بتایا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت سے پرانا لاہور تو سنبھالا نہیں جا رہا، اس کی سڑکیں ٹوٹ چکیں، وہاں کوڑے کے ڈھیر لگ چکے اور اب وہ ایک دوسرا لاہور بنانے جا رہی ہے جو تیس برس کا منصوبہ ہے، وہ پہلے پرانے لاہور کو تو سنبھال لے۔
عدالتی فیصلے کے دو، تین روز بعد ہی جناب وزیراعظم لاہور تشریف لائے اور انہوں نے اس منصوبے کی افادیت پر ایک لمبا چوڑا خطبہ دیا۔ میں کسی بھی ترقیاتی منصوبے کے خلاف نہیں ہوں مگر میرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ نیا شہر بنانا چاہتے ہیں تووہ لاہور میں ہی کیوں ہے جس کی آبادی اس وقت بھی اتنی ہو چکی ہے کہ اس کے ایک سے زیادہ ضلعے بنانے کی ضرورت ہے۔ میرے دوست ناصر سلمان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نئے شہر بسانے کا حکم دیا اور میرا بصد احترام کہنا ہے کہ انہوں نے نئے شہر بسانے کا حکم دیا پرانے شہروں کی توسیع کا نہیں۔
ہمیں اس طرح کے مسائل میں دین کو نہیں گھسیڑنا چاہئے، بحث میرٹ اور منطق پر ہونی چاہئے۔ میرٹ اور منطق یہ ہے کہ زمین ایکوائر کرنے کا قانون پرانا ہے اور موجودہ دور کی ضروریات پوری نہیں کرتا۔ میرٹ اور منطق یہ ہے کہ آپ لوگوں کو بے گھر کر کے ان کی بددعائیں لے رہے ہیں۔ میرٹ اورمنطق یہ ہے کہ اگر زرعی رقبہ اسی طرح ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نذر ہوتا رہا تو یہاں صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہی رہ جائے گا باقی کچھ نہیں۔
میرٹ اور منطق یہ ہے کہ کوئی بھی مہذب ریاست غریبوں کے گھر اونے پونے لے کر وہاں امیروں کے بنگلے بنانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ میرٹ اور منطق یہ ہے کہ حکومت نے اس منصوبے کی انوائرمنٹل اسیسٹمنٹ بھی نہیں کروائی۔ میرٹ اور منطق یہ ہے کہ جب روڈا نام کی اتھارٹی بنی تو اس کی شق اڑتالیس اور انچاس میں افسران کو خدائی اختیارات دے دئیے گئے کہ ان کے فیصلے عدالتوں میں بھی چیلنج نہیں ہوسکیں گے جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ خدا ایک ہی ہے، اس طرح کے زمینی خدا ؤں میں سے کوئی منوں مٹی تلے ہے، کوئی اپنے گھر اور پیاروں سے دور ہے اور کوئی کسی ہسپتال میں ایڑھیاں رگڑ رہا ہے۔
جناب عمران خان نے لاہور میں آ کر ریور راوی فرنٹ ڈویویلپمنٹ پراجیکٹ کے بارے جو کچھ کہا، وہ جانیں اور لاہور ہائی کورٹ جانے۔ مجھے ان سے صرف یہ کہنا ہے کہ آپ میرے مزدوری والے کارخانے، میری فصلوں والی زمینیں، میری عمر بھر کی کمائی سے بنے دو دو مرلے کے گھر مفاد عامہ اور میگا پراجیکٹ کے نام پر رئیل اسٹیٹ کے مگرمچھوں کے حوالے نہیں کر سکتے، کوئی آئین اور قانون آپ کو میرے گھر، میری فصلیں اور میرے بزرگوں کی قبریں روندنے کا حق نہیں دیتا۔