ہم سب رشتے دار مہندی کی تقریب میں کھانے کی میز پر بیٹھے تھے اور بات مہنگائی کی ہو رہی تھی۔ ہمارے حکومت کے حامی رشتے دار پی ڈی ایم کے ٹوٹنے پر خوش تھے۔ وہ مریم نواز کی نیب کی طرف سے دوبارہ طلبی کو بھی ملک و قوم کی عظیم کامیابی قرار دے رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ خان نے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر اس نے لوٹ مار کرنے والے اس ٹولے کی دوڑیں ضرور لگوادی ہیں۔ مریم نواز خود علاج کے نام پرملک سے فرار ہونا چاہتی ہے اور اس کا راستہ روکا جانا بڑی فتح ہے، چور اور لٹیرے خوفزدہ ہیں، ہراساں ہیں، پریشان ہیں۔ مجھے ان کی باتیں سن کر ہنسی آ رہی تھی کہ انہی لوگوں نے جب ان گرمیوں میں بجلی کے بل ادا کرنے ہیں توانہیں نانی یاد آ جانی ہے۔ اسی دوران خبر آ گئی کہ کابینہ نے دو آرڈی ننس جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت عوام سے تین سو ارب روپوں کے قریب مزید چھین لئے جائیں گے۔ ایک آرڈی ننس میں ایک سو چالیس ارب کی انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی جائے گی اور دوسرے آرڈی ننس میں گردشی قرضے کنٹرول کرنے کے لئے بجلی کے صارفین سے ڈیڑھ سو ارب روپے زبردستی وصول کر لئے جائیں گے جبکہ بجلی قیمتوں میں عارضی اور مستقل بنیادوں پر ہونے والے اضافے اس سے الگ ہوں گے۔
میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی سیاسی سوچ پر حیران ہوں جو مکمل طورپر تعصب، نفرت اور انتقام پر بنیاد کرتی ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ عمران خان کی حکومت نے اڑھائی برسوں میں کیا کیا ہے توجواب ملتا ہے کہ تیس برس تک حکمرانی کرنے والوں کے حامی اڑھائی برس میں کیوں سوال کرتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ بجلی کی قیمتوں میں بے محابا اضافہ کیوں ہو رہا ہے تو جواب ملتا ہے کہ سابق حکمران کرپٹ تھے اور انہوں نے مہنگی بجلی کے منصوبے لگائے مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ موجودہ حکومت اڑھائی برسوں میں سستی بجلی پیدا کرنے کے کتنے منصوبے شروع کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ کیوں بڑھتا چلا جا رہا ہے تو جواب ملتا ہے کہ اس کی وجہ زرداری اور نواز شریف کے لئے قرضے ہیں، عمران خان ان قرضوں کو اتارنے کے لئے قرضے لے رہا ہے۔ ان سے ایک منطقی بات پوچھ لی جائے کہ اگر نئے قرضے اس وجہ سے لئے جا رہے ہیں کہ پرانے قرضے اتارے جا سکیں تب مجموعی قرضوں کو کم ہونا چاہئے اور اگر کم نہیں بھی ہوتے تو اپنی جگہ پر منجمد رہنے چاہئیں مگر کرشمہ یہ ہو رہا ہے کہ عمران خان قرضے اتارتا چلا جارہا ہے اور ستر برس میں لئے گئے قرضوں میں اڑھائی برس میں آدھا اضافہ ہو گیا ہے یعنی انتیس ارب ڈالر سے چوالیس ارب ڈالر کی انتہائی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
عمران خان کی حکومت سابق دور میں کینسر کے مریضوں کو مفت ملنے والی دوا نہیں دینا چاہتی، ، عمران خان کی حکومت بڑھتی ہوئی مہنگائی میں بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھانا چاہتی، عمران خان کی حکومت لاہور سمیت بڑے شہروں سے کوڑے کے ڈھیر نہیں اٹھانا چاہتی بلکہ میں نے لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے راستے میں جی ٹی روڈ پربڑے بڑے پہاڑ دیکھے تو حیران ہو کرپوچھا کہ کیا ہم پہاڑی علاقے میں پہنچ گئے ہیں جو پہلے کھاریاں عبور کر کے نظر آتا تھا توجواب ملا کہ یہ مٹی یا پتھر کے نہیں بلکہ گوجرانوالہ کے کوڑے کے پہاڑ ہیں۔ عمران خان کی حکومت پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم نہیں کرنا چاہتی۔ عمران خان کی حکومت نے بہت سارے محکموں میں ریٹائر ہونے والے ملازمین کے واجبات اور پنشن دبانا شروع کر دی ہے جیسے ریلوے میں دو برسوں میں بہت ساروں کو ریٹائرمنٹ پر واجبات ہی نہیں ملے اور بہت سارے اساتذہ روتے ہیں کہ ان کی پنشن بند ہو گئی ہے۔ عمران خان کی حکومت پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن جیسے ادارے نہیں چلانا چاہتی جو لاکھوں طلبا وطالبات کو بہترین معیار کی تعلیم دے رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت ہائیر ایجوکیشن میں سکالرشپس نہیں دیناچاہتی۔ عمران خان کی حکومت کے لئے میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے جان کاعذاب ہیں۔ عمران خان کی حکومت سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن کروانے والوں کو ٹانکے لگوانے کے لئے دھاگہ تک نہیں دینا چاہتی مگر یہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کی زندگی اجیرن کرنا چاہتی ہے اوراس پر اس کے حامی مطمئن ہیں، خوش ہیں۔
مجھے بطور شہری وہ شاہ دولے کے چوہے لگتے ہیں تو آپ کی روٹی چھین لینے والے پہلوان کے اس گھونسے پر خوشی سے قلابازیاں لگاتے ہیں جو اس نے اپنے اورآپ کے ناپسندیدہ شخص کے منہ پر مارا ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میں جسے ناپسند کرتا ہوں اگر وہ جیل میں چلا جاتا ہے تو اس میں میرا فائدہ کیا ہے کہ اگرمیرے پاس روزگار نہیں، تعلیم نہیں، علاج نہیں۔ اگر مجھے ریٹائرمنٹ پر وہ فنڈز نہیں ملے جن سے میں نے بیٹی کو بیاہنا تھا یا بیٹے کودکان کھول کر دینی تھی تو ایسی صورتحال میں کیا میں نے مریم نواز کی نیب میں پیشی کو چاٹنا ہے۔ کیایہ انتقامی رویہ میرے گھر میں بھوک اور بیماری کا علاج کرسکتا ہے۔ رانا ثناءاللہ خان کو ہیروئن ڈال کر پکڑ لیا جائے اور اس پر ایک وزیر دورد پاک پڑھ کرجھوٹی قسمیں کھائے توکیا اس سے میرے گھر میں برکت آئے گی۔ مریم نواز کی ضمانت منسوخ ہوجائے اور کیپٹن صفدر کو بھی دھر لیا جائے تو مجھے کن نفلوں کا ثواب ہے۔ میاں نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ ہونے سے مجھے کیا ملے گا۔ حکومت یہ سب کچھ کربھی لے تو مجھے اپنی بجلی کا بل خود سے ادا کرنا ہے۔ ابھی مجھے یہ اطمینان ہے کہ نفرت اور تعصب کے مارے ذہنی مریضوں کے گھروں میں بھی بجلی کا وہی بل آئے گا جو میرے گھر آئے گا۔ انہیں بھی اپنے ضعیف ماں باپ اور بیمار بچوں کے لئے دوا اسی قیمت پر خریدنی پڑے گی جس پرمجھے خریدنی پڑے گی۔ موٹرسائیکل کی ٹینکی میں پٹرول ڈالواتے ہوئے ان کی بھی ایسی ہی چیخیں نکلیں گی جیسی میرے نکلیں گی کہ تحریک انصاف کے حامیوں کو بھی یہ سب کچھ میرے ساتھ ہی بھگتنا ہے۔
مگرمیرا سوال اوردکھ اس سے بڑھ گیا ہے اور اب میں سوچتا ہوں کہ ان لوگوں کی نفرت اور نادانی کی قیمت میں کیوں ادا کروں۔ نئے پاکستان کے جہنم میں مجھے کیوں رکھا جا رہا ہے۔ یہ مہنگائی، محرومیاں، مایوسیاں سب کچھ تحریک انصاف کے حامیوں کے لئے ہونا چاہئے۔ تعصب اور حماقت کے حامیوں کو یہ ہی یہ نیا پاکستان ملنا چاہئے۔ میں نے اس کے لئے نہ ووٹ دیاتھا اورنہ میں نفرت کے کسی لاعلاج مرض میں مبتلاہذیان بکتا مریض ہوں تومیں یہ بجلی کا یہ بل کیوں دوں، میں پٹرول کی یہ قیمت کیوں ادا کروں۔ مجھے میرے پرانے پاکستان کے نرخ دے دو، میں اسی کا حامی ہوں، یہ بیڈگورننس، مہنگائی اورلاچاری کے عذاب پی ٹی آئی والوں کو دو کہ وہی نفرت اور انتقام کے اس زہریلے ماحول میں نجانے کس کامیابی کاجشن منا رہے ہیں۔