چودھری انور عزیز صاحب کی تعزیت کے لئے شکر گڑھ کا سفر درپیش تھا کہ اشفاق سلیم مرزا صاحب کی رحلت کی خبر آگئی۔ عرصہ ہوا ان سے سرسری ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ زندگی کے مختلف دائروں تک محدود ہوکر ایک دوسرے سے ہم جدا ہوچکے تھے۔ اپنی زندگی کے کئی برس مگر ہم نے خاندانی اکائی کی صورت گزارے ہیں۔ ان کی وفات نے بہت کچھ یاد دلادیا۔
انتہائی پریشان کن حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ طبعاََ ابھی تک موت کے تصور کو میں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ چودھری انور عزیز صاحب کے انتقال کے دن سے پے درپے ایسی خبریں مل رہی ہیں جن کی وجہ سے سوچنے کو مجبور ہورہا ہوں کہ میرے بہت ہی نزدیک کسی تاریک گوشے میں دبک کر بیٹھی قضا مجھ پر بھی کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
اشفاق صاحب کے ساتھ تعلق کی کہانی 1974کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ کالج سے فارغ ہونے کے بعد میں رزق کمانے کے ذرائع ڈھونڈ رہا تھا۔ خود کو بہت پڑھا لکھا اور ذہین سمجھنے کا گماں تھا۔"انقلاب" لانے کی دھن سرپر سوار تھی۔ ساتھ ہی مگر صحافی اور ڈرامہ نگار کے طور پر بھی مشہور ہونا چاہتا تھا۔ بے شمار خوابوں کو مگر عملی شکل دینے کی کوئی صورت دریافت ہی نہیں ہورہی تھی۔ سارا دن لائبریریوں، مال روڈ پر پیدل چلنے اور لکشمی چوک کے چائے خانوں کی نذر ہوجاتا۔
طالب علم سیاست کے ہنگام میں سیدممتاز احمد جو بعدازاں ایک کامیاب صحافی اور اخبار کے مالک ہوئے میرے بڑے بھائیوں جیسے دوست تھے انہوں نے مستنصر جاوید صاحب سے انتہائی قربت کے رشتے استوار کرلئے تھے۔ مستنصر صاحب نے نسبتاََ کم عمری ہی میں "جنگ" جیسے مشہور اخبار کے لئے کام کرتے ہوئے صحافت میں اپنا مقام بنالیا تھا۔ کراچی سے لاہور منتقل ہونے کے بعد وہ سرورسکھیرا کے نکالے "دھنک" کے مدیر بھی ہوئے۔ وہاں سے الگ ہوئے تو دوستوں کی معاونت سے ایک سیاسی ہفت روزہ نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ ممتاز صاحب کی مہربانی سے میں اشفاق سلیم مرزا کے ساتھ اس جریدے کی کلیدی ٹیم کا حصہ بن گیا۔ مالی بحران کے سبب مگر یہ جریدہ چند ہی ماہ بعد ٹھپ ہوگیا۔ مستنصر صاحب کو اپنے سے زیادہ دوستوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔ مجھے اور اشفاق سلیم مرزا صاحب کو انہوں نے سید ممتاز احمد صاحب کی PRمہارت کے سبب لاہور کے ایک "ڈمی" شمار ہوتے روزنامہ "مغربی پاکستان" میں ملازمت دلوادی۔ میں اس اخبار کے لئے روزانہ دوکالم لکھتا۔ اشفاق صاحب ادارتی امور کے نگہبان ہوئے۔ ضیاء شاہد اسی اخبار کے مدیر تھے۔ میں، ضیاء صاحب اور اشفاق صاحب کئی ماہ تک اخبار کی عمارت کے ایک کونے میں لکڑیوں کی مدد سے بنائے "دفتر"کو Shareکرتے رہے۔ مذکورہ اخبار کی اشاعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ مجھے اور اشفاق صاحب کو کڑی محنت کے باوجود تنخواہ بھی بہت کم ملتی۔ اہم بات مگر یہ تھی کہ ہر مہینے کی پانچ تاریخ کو ہر صورت مل جاتی۔
مستنصر جاوید صاحب کی صحافتی ساکھ کی بنیاد پر بالآخر ہم تینوں کو اسلام آباد میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں جسے ان دنوں ادارہ ثقافتِ پاکستان کہا جاتا ہے "اچھے گریڈوں "کی "پکی" نوکری مل گئی۔ ہم تینوں ایک ہی و یگن میں سوار ہوکر اپریل 1975میں اس شہر آئے۔ بعدازاں اسلام آباد کے F-7سیکٹر میں ایک دو منزلہ مکان کا نچلا پورشن کرائے پر دستیاب ہوگیا۔ دو سے زیادہ برس ہم تینوں اس مکان میں رہے۔ ایک کمرہ میرے اور مستنصر صاحب کے لئے مختص تھا۔ اشفاق صاحب شادی شدہ اور دو بچوں کے والد بھی تھے۔ امتیاز بھابھی نے مجھے چھوٹے بھائی کے بجائے اپنا بڑا بیٹا ہی شمار کیا۔ میرے اور مستنصر صاحب کے لئے بہت چائو سے کھانے بناتی رہیں۔ ہم خاندانی اکائی کی صورت ایک دوسرے کے ساتھ گہرے احترام اور پیار کے رشتے میں ہمیشہ کے لئے بندھ گئے۔
اشفاق صاحب نے فلسفے کو محض ڈگری کے حصول کے لئے ہی نہیں پڑھا تھا۔ تحقیق کی لگن ان پر جنون کی حد تک مسلط ہوچکی تھی۔ مارکسزم کی مبادیات اور تشریح ان کی اوّلین ترجیح رہیں۔ نظریاتی طورپر میجر اسحاق کی مزدور کسان پارٹی سے وابستہ تھے۔ کئی برس تک ٹھوس دلائل کے ذریعے اصرار کرتے رہے کہ پاکستان میں بھی چینی طرز کا انقلاب ہر صورت برپا ہوگا۔ میں اکثر کج بحثی سے ان کے گماں کو دھچکے دینے کی کوشش کرتا۔ وہ مسکراہٹ بھری شفقت سے میری "فضول باتیں " نظرانداز کردیتے۔ ان کے ساتھ قیام کے دوران ہی میں نے پی ٹی وی کے لئے ڈرامے لکھنا بھی شروع کردئیے تھے۔ رات گئے تک سگریٹ پھونکتا ایک ہی نشست میں سلسلہ وار ڈراموں کی نئی قسط مکمل کرنے کی کوشش کرتا۔ بالآخر نیند آجاتی۔
اشفاق صاحب علی الصبح اُٹھنے کے عادی تھے۔ کھانے کی میز پر میرے لکھے اور ہرطرف بکھرے صفحات کو یکجا کرنے سے قبل سگریٹوں کی وجہ سے پھیلے گند کو صاف کرتے۔ میرے لکھے ڈرامے کے مسودے کو بہت غور سے پڑھ کر حاشیوں میں سوالیہ نشان لگاتے۔ چند مکالموں کی زبان بھی درست کردیتے۔ ان کی توجہ کی بدولت نیند سے اُٹھنے کے بعد مجھے ڈرامہ مکمل کرنے میں آدھے سے زیادہ گھنٹہ بھی درکار نہ ہوتا۔ اس کے باوجود میں انہیں نظرثانی کو مجبور کرتا۔ میرے ہر"انڈی پنڈنٹ" ڈرامے کا چونکا دینے کی حد تک تخلیقی عنوان بھی ہمیشہ ان ہی کا دیا ہوتا۔
1977کے مارشل لاء کے بعد میں نوکری چھوڑ کر کراچی چلا گیا۔ مستنصر صاحب بھی اس ادارے سے جدا ہوگئے۔ اشفاق صاحب کوایک بڑے کاروباری ادارے نے "تھینک ٹینک" بنانے کے لئے Hireکرلیا۔ نہایت خلوص سے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ رزق کمانے کے لئے انسان کو سوجتن کرنا ہوتے ہیں، میں اکثر اشفاق صاحب کو چڑانے کے لئے یاد دلاتا کہ وہ مارکس کے کیسے "پیروکار" ہیں جو ایک "سیٹھ" کے لئے جانفشاں تحقیق کے بعد نت نئے Ideasسوچتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح وہ مسکرادیتے۔ ان کی مسکراہٹ کو میں چڑکر Buddha's Smileپکارتا تھا۔
اشفاق صاحب کی استقامت کو مگر خلوصِ دل سے سلام کرنا لازمی ہے۔ طالب علمی کے زمانے ہی سے فلسفہ ان کا اصل موضوع بن چکا تھا۔ وہ اس کے اسرارورموز تلاش کرنے کی لگن میں مرتے دم تک مصروف رہے۔ ترقی پسند اور پرانی وضع کے مارکسزم میں ابھی تک گہری دلچسپی لینے والوں کی ایک مخصوص برادری مستقل ان سے رہ نمائی کی طلب گار رہی۔ Post-Industrialدور کے نوجوانوں میں فلسفے کی بابت وہ رغبت نظر نہیں آتی جو میری نسل کے نوجوانوں کی بے پناہ تعداد کے ذہنوں پر حاوی تھی۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے نمودار ہوئے فیس بک اور ٹویٹر نے "علم" نامی شے کو مزید سطحی بنادیا ہے۔ واہی تباہی پر مبنی Postsکے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کامل خلفشار اور ہیجان کے اس موسم میں بھی اشفاق سلیم مرزا صاحب تحقیقی انہماک کی مجسم علامت بنے رہے۔ کسی نوجوان میں اس کی رمق بھی نظر آجاتی انتہائی شفقت سے اس کا حوصلہ بڑھاتے۔
Googleکے متعارف ہونے سے کئی دہائیاں قبل ہی انہوں نے اخبار میں چھپی خبروں اور مضامین کے تراشوں کو بہت محنت اور یکسوئی سے رجسٹروں میں یکجا کرنے کی عادت اپنالی تھی۔ اس کی بدولت وہ مجھ جیسے اتاولے صحافی کے لئے ہمیشہ Ready Reference کی صورت میسر رہے۔ دورِ حاضر میں لاوے کی طرح اُبھرتے بے تحاشہ سیاسی اور سماجی سوالات کے جوابات انہوں نے صوفیانہ ریاضت کے ساتھ فلسفے کی قدیم کتابوں میں تلاش کرنے کا سفر جاری رکھا۔ ان کا اندازِ تحریر اکثر لوگوں کو دقیق محسوس ہوتا ہوگا۔ جن فلسفیوں کے وہ حوالے دیتے تھے ان سے بھی اکثر لوگ آشنا نہیں۔ ستائش اور صلے کی پراہ کئے بغیر مگر اشفاق صاحب نے اپنا سفر جاری رکھا اور ایک لمحے کو بھی اپنی لگن کے بارے میں ملال کا اظہار کرتے سنائی نہ دئیے۔"وفاداری بشرط استواری" کی مجسم علامت۔