بالآخر اس امر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین خفیہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ انگریزی کے مؤقر روزنامہ "ڈان" کے متحرک رپورٹر اور تجزیہ کار-فہد حسین- نے مذکورہ مذاکرات کے ممکنہ اہداف بھی اپنے اخبار کے صفحہ اوّل پر اتوار کی صبح چھپی خبر کے ذریعے تفصیل سے بیان کردئیے ہیں۔
فہد حسین کی لکھی خبر نے ویسی تھرتھلی ہرگز نہیں مچائی جو اسی اخبار میں 2016کے دوران چھپی ایک اور "خبر" نے برپا کی تھی۔ مذکورہ "خبر" کو بلکہ "Dawn Leaks"پکارتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ الزام لگا کہ نواز حکومت کے چند سرکردہ افراد اس "خبر" کے ذریعے سازشی انداز میں دُنیا کو یہ باور کروانا چاہ رہے ہیں کہ ہماری عسکری قیادت منتخب حکومت کو جنوبی ایشیاء میں دائمی امن کے قیام کی جانب بڑھنے نہیں دے رہی۔ ممکنہ "سازش" کا سراغ لگانے کے لئے لہٰذا قومی سلامتی پر نگاہ رکھنے والے ریاستی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کی جانب سے ہوئی تفتیش پرویز رشید اور طارق فاطمی کو وزارتی مناصب سے فارغ کروانے کا باعث ہوئی۔"خبر" لکھنے والا بھی بالآخر صحافتی میدان چھوڑنے کو مجبور ہوگیا۔
اتوار کی صبح چھی خبر لکھنے کے لئے فہدحسین نے مگر قومی سلامتی کے ایک اہم ترین افسر سے ہوئی گفتگو پر کامل انحصار کیا ہے۔ یوں مناسب احتیاط برتتے ہوئے ایک حساس ترین معاملے کی بابت مصدقہ خبر فراہم کردی۔ اس خبر کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ دسمبر2020میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا پیغام بھجوایا تھا۔ پاکستان نے اس حوالے سے پیش قدمی نہیں دکھائی تھی۔ مودی سرکار پاکستان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرنے کو مجبور ہوئی تو اس کی ٹھوس وجوہات بھی عیاں تھیں۔ لداخ کے محاذ پر اسے چین کے ہاتھوں مسلسل خفت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ وہ یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ بیک وقت دو محاذو پر اپنی افواج کو حالت جنگ میں تعینات رکھنا اس کے لئے ممکن نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے آسانیاں تلاش کی جائیں۔ ہماری عسکری قیادت کو مذاکرات کا پیغام ملا تو سیاسی قیادت نے ہمارے بھی چند داخلی مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے مزید گفتگو پر آمادگی کا عندیہ دیا۔ طویل المدتی اہداف کی جانب پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے سفرکا یوں آغاز ہوگیا۔ سفر کا آغاز ہوتے ہی اس کے انجام کی بابت بدگمانیاں پھیلانے سے اجتناب برتنا لازمی ہے۔
اپنی صحافتی عمر کے کئی برس خارجہ امور کے بارے میں رپورٹنگ کی نذر کرنے کی وجہ سے میں نے ہمیشہ ذاتی طورپر اس ضمن میں بدگمانیاں پھیلانے سے ازخود گریز کیا ہے۔"حساس" معاملات کے بارے میں ریاستی حکام کی جانب سے برتی خاموشی اگرچہ بدگمانیاں پھیلانے والوں کی حقیقی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
بھارتی اور عالمی میڈیا میں پاکستان اور بھارت کے مابین خفیہ مذاکرات کے بارے میں جھوٹی سچی کہانیاں پھیلانے کا آغاز رواں برس کے فروری کے آخری ہفتے میں ہوگیا تھا۔ فروری 2019سے پاکستان اور بھارت کے مابین مسلسل تنائو کا ماحول دکھ رہا تھا۔ اس برس کے فروری میں تاہم "اچانک" اعلان ہوا کہ دونوں ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ کشمیر پر قائم لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے اس معاہدے کا مکمل احترام ہوگا جو واجپائی اور مشرف حکومتوں کے درمیان 2003میں طے ہوا تھا۔ خارجہ امور پر پیشہ وارانہ نگاہ رکھنے والے جبلی طورپر جانتے ہیں کہ ایسے اعلانات "اچانک" نہیں ہوا کرتے۔
مذکورہ حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے چند بھارتی صحافیوں نے کہانی یہ پھیلانا شروع کردی کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کئی ہفتوں سے جاری مذاکرات کی بدولت دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو بتدریج معمول پر لانے کے لئے ایک روڈ میپ یا نقشہ تیار ہوچکا ہے۔ سیز فائر معاہدے کا احترام اس کی جانب اٹھایا پہلام قدم ہے۔ اس اعلان کے بعد توقع تھی کہ تاجکستان کے دارالحکومت میں مارچ کے آغاز میں ہونے والی ایک علاقائی کانفرنس کے دوران پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے مابین ایک ملاقات بھی ہوگی۔ پاکستان اور بھارت کے سفیر اس ملاقات کے بعد نئی دلی اور اسلا م آباد میں قائم سفارت خانوں میں لوٹ آئیں گے۔ ان کے لوٹ آنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی مراسم بھی بحال ہونا شروع ہوجائیں گے۔
مارچ 2021میں لیکن جو کانفرنس ہوئی اس کے دوران پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے مابین ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ یہ ملاقات نہ ہونے کے باجود ہماری کابینہ کی اقتصادی کمیٹی نے فیصلہ کردیا کہ بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد ہونے دی جائے۔ وفاقی کابینہ نے مگر اس فیصلے کو بھی مؤخر کردیا۔ اس کے بعد سے ہمارے وزیر خارجہ مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ پاکستان اوربھارت کے مابین کوئی خفیہ مذاکرات نہیں ہورہے۔ حال ہی میں صدر پاکستان نے بھی وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے مذکورہ دعوے کی تصدیق کردی ہے۔ ہماری حکومت کی جانب سے یہ بھی بتایا جارہا تھا کہ بھارت جب تک اگست 2019میں آرٹیکل 370کی منسوخی کی بابت ہوئے فیصلے کو واپس نہیں لیتا اس وقت تک اس سے سفارتی اور تجارتی روابط بحال کرنا ممکن نہیں۔
فہد حسین کی لکھی خبرمگر صراحتاَََ واضح کررہی ہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کی بحالی جو مقبوضہ کشمیر کو دکھاوے کی "خودمختاری" فراہم کئے ہوئے تھی پاکستان کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے لئے تشویش کا حقیقی سبب 35-Aکی کالعدمی ہے۔ اس قانون کے تحت کوئی غیر کشمیری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا۔ ہمیں اصل خدشہ یہ لاحق ہے کہ 35-Aکی منسوخی کے بعد مودی سرکار کی اصل سرپرست ہندو انتہا پسند تنظیم -RSS-بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیدادیں خرید کر وہاں آباد ہونے کو اُکسائے گی۔ یہ ویسا ہی رویہ ہوگا جو جنونی صہونیوں نے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے خل کرنے کے لئے اختیار کررکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ہندو انتہا پسندی کا حتمی ہدف بھی وہاں صدیوں سے موجود آبادی کے تناسب کو وحشیانہ انداز میں تبدیل کرنا ہے۔ اس ہدف کا حصول وادیٔ کشمیر کو مسلم اکثریتی علاقہ نہیں رہنے دے گا۔
فہد حسین سے گفتگو کرنے والے افسر نے مگر حوصلہ افزاء پیغام یہ دیا ہے کہ خفیہ مذاکرات کے ذریعے بھارت پاکستان کو یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ 35-Aکی بحالی کی کوئی صورت نکالی جائے گی۔ یوں وادیٔ کشمیر اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھ پائے گی۔
عملی صحافت سے عرصہ ہوا میں ریٹائر ہوچکا ہوں۔ ٹھوس حقائق تک رسائی نہ ہونے کے سبب یہ دریافت کرنے کی صلاحیت سے لہٰذا قطعاََ محروم ہوں کہ بھارت 35-Aکے حوالے سے پاکستان کو پہنچائے نظربظاہر حوصلہ افزاء وعدے کی تکمیل کے لئے کونسا قدم اٹھاسکتا ہے۔ 1984سے بھارت کے پالیسی سازوں کے رویے کا مسلسل مشاہدہ اگرچہ یہ سوچنے کو مجبور کررہا ہے کہ مودی سرکار بتدریج جموں وکشمیر کی صوبائی اسمبلی کو بحال کرنے کے لئے انتخابات رچانے کی تیاری کررہی ہے۔ پاکستان سے اس تناظر میں درخواست ہوگی کہ وہ حریت کانفرنس میں شامل رہ نمائوں اور سیاسی جماعتوں کو ممکنہ انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کرے۔ ان کی آمادگی کی بدولت مقبوضہ کشمیر میں محصور ہوئے افراد کی حیران کن تعداد "انتخابی عمل" میں حصہ لیتی نظر آئے گی۔"صاف، ستھرے" اور قابل اعتماد دِکھتے "انتخاب" کے نتیجے میں جو صوبائی اسمبلی بحال ہوگی وہ کسی متفقہ قرار داد کے ذریعے نئی دلی کو 35-Aبرقرار رکھنے کی راہ دکھاسکتی ہے۔ اس کے سواکوئی اور راستہ فی الوقت مجھے تو نظر نہیں آرہا۔ جو لائحہ عمل میرے ذہن میں آیا ہے اس پر عملدرآمد بھی ممکن ہوگا یا نہیں۔ اس کی بابت بھی کوئی رائے دینے کو تیار نہیں ہوں۔ بنیادی حقیقت فی الوقت محض یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل وقفے کے بعد ایک بار پھر ہمارے خطے میں دائمی امن کے قیام کے لئے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ بات چل نکلی ہے۔ دیکھتے ہیں کہاں تک پہنچے۔