تاریخ اور مہینہ یاد نہیں رہا۔ غالباََ گزشتہ برس کے ستمبر یا اکتوبر میں یہ واقعہ ہوا تھا۔ وفاقی کابینہ کا اجلاس تھا۔ وہاں ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب نے اپنے لیپ ٹاپ کے بٹن دباتے ہوئے چند اعدادوشمار دکھائے۔ ان کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ ہماری معیشت بالآخر "بحال" ہوجانے کے بعد "استحکام" کی جانب گامزن ہے۔ اگلا موڑ یقینا خوشحالی کی جانب لے جائے گا۔ اعدادوشمار سے لدی یہ Presentationختم ہوئی تو اجلاس میں خاموشی چھاگئی۔ ندیم افضل چن نے مگر اپنی کرسی کے سامنے رکھے مائیک کا بٹن دبادیا۔ وزیر اعظم نے ان کی رائے سننے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
درباری تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زمینی حقائق سے دیوانگی کی حد تک جڑے ندیم افضل چن نے ایک کھرے جاٹ کی طرح برجستہ ایک سوال کابینہ میں موجود دیگر شرکاء کی جانب اچھال دیا۔ سوال کی تمہید میں اقرار کیا کہ موجودہ کابینہ میں حتمی اختیارات کے حامل وہ وزراء ہیں جنہیں انتخابات میں لوگوں سے ووٹ کی بھیک نہیں مانگنا پڑتی۔ دیگروزراء کی اکثریت کو تاہم اس عمل کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اس تمہید کے بعد انہوں نے عوام کے ووٹوں کے محتاج وزراء سے فقط اتنا پوچھا کہ وہ حفیظ شیخ صاحب کی"سب اچھا" دکھاتی Presentationاپنے حلقے کے ووٹروں کے روبرو رکھ کر انہیں مطمئن کرسکتے ہیں یا نہیں۔ انہیں فوری اور مختصر جواب دینے کوجب کوئی اور وزیرتیار نہ ہوا تو سوات سے اُبھرے جواں سال مراد سعید نے مائیک سنبھال لیا۔ وہ عمران خان صاحب کے دفاع میں کسی بھی حد تک جانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ندیم افضل چن کے اٹھائے سوال کا براہ راست جواب دینے کے بجائے لیکن مراد سعید نے ان کی پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے طنز کے نشتر برسانا شروع کردئیے۔ چن کو ایسے طعنوں سے خاموش کروانا ممکن نہیں۔ بات "توتڑاخ" تک پہنچی تو وزیر اعظم نے دونوں کو خاموش کروادیا۔ ندیم افضل چن کو البتہ باور کروایا کہ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں جو زبان اور لہجہ استعمال کرتے ہیں وہ جلسوں کے لئے تو مناسب ہے مگر کابینہ اجلاس کے معیار کے مطابق نہیں۔
ندیم افضل چن کو اس روز عمران خان صاحب خاموش کروانے کے بجائے عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوئے وزراء کو ان کے اٹھائے سوال کا ایمان دارانہ جواب دینے کو مجبور کرتے تو پیر کی شام انہیں ڈاکٹر حفیظ شیخ کو "اچانک" فارغ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ ندیم افضل چن کے اٹھائے سوال کو ایک بھرپور بحث کے لئے استعمال کیا جاتا تو عمران خان صاحب مارچ 2021کے آغاز میں ڈاکٹر حفیظ شیخ کو اسلام آباد سے سینٹ کا رکن منتخب کروانے کے لئے نامزد بھی نہ کرتے۔ ان کے تغافل اور درگزر کی وجہ سے عمران حکومت کو ڈاکٹرحفیظ شیخ کی یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کی شرمندگی سے دو چار ہونا پڑا۔ وزیر اعظم کو یہ کہتے ہوئے دلاسہ دینے کی کاوش ہوئی کہ تحریک انصاف کے تقریباََ 16اراکین کو بھاری رقوم دے کر ضمیر بیچنے کو اُکسایا گیا ہے۔ سیاست دانوں کا روپ دھارے "چور اور لٹیرے" خفیہ رائے شماری کی سہولت کو اسی لئے پسند کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب جیسے نیک طینت شخص کو اس کی بابت دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی ہوئے ذہن سازوں کی اکثریت بھی مذکورہ سوچ کی پرچارک ہے۔ انہیں یقین ہے کہ پاکستان کے "جاہل" عوام "قیمے والے نان" کے عوض اپنی برادری کے کسی تگڑے ڈیرے دار کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیج دیتے ہیں۔ اسمبلیوں میں آنے کے بعد "عوامی نمائندوں " کو اپنے انتخابی خرچے پورا کرنے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ گیلانی صاحب کی حیران کن کامیابی اسی رویے کا بھرپور مظہر تھی۔
جان کی امان پاتے ہوئے اس کالم میں تاہم میں تواتر سے عرض کرتا رہا کہ ووٹوں کی مبینہ خریدوفروخت یوسف رضا گیلانی کی حیران کن کامیابی کا سبب نہیں۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے افراد کی اکثریت مہنگائی اور بے روزگاری کی تھمنے کے بجائے شدید تر ہوتی لہر کی وجہ سے اپنے حلقوں میں جانے سے گھبراتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی متعارف کردہ پالیسیوں کی وجہ سے وہ اپنے حلقوں میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ یوسف رضا گیلانی کو خفیہ رائے شماری کی بدولت کامیاب کرواتے ہوئے درحقیقت انہوں نے اپنے دلوں میں جمع ہوئے غصے اور نفرت کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے میں یہ حقیقت بھی اجاگر کرنے کی کاوش میں مبتلا رہا کہ موصوف کی شکست عالمی معیشت کے نگہبان اداروں کو ایک اہم پیغام بھی دے گی۔ وہ یہ سوچنے کو مجبور ہوجائیں گے کہ پاکستان کی معیشت کو "سنوارنے" کے لئے انہوں نے جو نسخہ تیار کیا ہے وہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی کے لئے قابل قبول نہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے فراہم کردہ "امدادی پیکیج" انہیں "کھوکھاتے"کی نذر ہوتا محسوس ہوگا۔ وہ گھبراجائیں گے۔
IMFبنیادی طورپر ایک ساہوکار ہے۔ اسے ہمارے عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ محض اس امر کو یقینی بنانا مقصود ہے کہ عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کو دئیے قرضوں کی قسط سود سمیت ہر صورت اداہوتی رہے۔ جناتی زبان میں ہمیں علم معاشیات پڑھانے والے "دانشور" مگر اس حقیقت کو انتہائی بدنیتی سے فراموش کردیتے ہیں۔ Cost Recoveryجیسی اصطلاحات کے استعمال سے ہمیں گمراہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ IMFوغیرہ کی متعارف کردہ پالیسیوں کے دفاع میں وہ جو مضامین لکھتے ہیں وہ انہیں کئی عالمی اداروں کے لئے Report Writingکے مواقع فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے "دانشور" احترام نہیں بلکہ حقارت کے مستحق ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کی جگہ کوئی اصلی ونسلی سیاست دان یوسف رضا گیلانی سے شکست کا اعلان سننے کے فوری بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتا۔ شیخ صاحب مگر "ٹیکنوکریٹ" ہیں۔ IMFنے انہیں خاص اہداف کے حصول کے لئے عمران حکومت کو عاریتاََ فراہم کیا تھا۔ استعفیٰ دینے کے بجائے ڈاکٹر صاحب لہٰذا آئی ایم ایف سے 500ملین ڈالر کی نئی قسط کے حصول میں مصروف ہوگئے۔ اس قسط کی منظوری اب ہوچکی ہے۔ 500ملین ڈالر کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے مگر ریاستِ پاکستان کو یقین دلانا پڑا ہے کہ وہ"عوامی نمائندوں " سے منظوری لئے بغیر 700ارب روپے کی مزید رقم ٹیکسوں کی صورت نیا بجٹ تیار ہونے سے قبل جمع کرے گی۔ بجلی کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ ہوگا۔ اضافی قیمت طے کرنے کے ضمن میں NEPRAنامی ادارہ کامل خودمختار ہوگا۔ اسے وفاقی کابینہ سے منظوری طلب کرنے کی درخواست بھی نہیں کرنا ہوگی۔
"خودمختاری"تاہم NEPRAتک ہی محدود نہیں رہے گی۔ 500ملین ڈالر کی قسط لینے کی خاطر ڈاکٹر حفیظ شیخ آئی ایم ایف کی خواہش کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان کے لئے بھی کامل خودمختاری یقینی بنانے والا قانون تیار کرنے کو آمادہ ہوگئے۔ یہ قانون جس صورت میں تیار ہوا ہے اگر ہوبہو لاگو ہوگیا تو سٹیٹ بینک کے گورنر2021کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے "وائسرائے" بن جائیں گے اور وزیر اعظم عمران خان صاحب دورِ حاضر کے بہادر شاہ ظفر یا اودھ کے واجد علی شاہ۔ آج کے"شاہ عالم" جس کی حکمرانی "دلی سے پالم" تک محدود تھی۔
500ملین ڈالر کی قسط لینے کے لئے ڈاکٹر حفیظ شیخ نے IMFسے جس بندوبست کا وعدہ کیا ہے اس کے مضمرات سمجھنے میں عمران خان صاحب کو دیر لگی۔ غالباََ کرونا کی وجہ سے نازل ہوئی تنہائی نے انہیں غور کی مہلت فراہم کی۔ ٹھوس ذرائع یہ عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ بیماری کے دوران وزیر اعظم صاحب نے تعمیرات کے شعبے میں رونق کو یقینی بنانے کے لئے جو ٹیلی تھان کی اس نے بھی انہیں سٹیٹ بینک کی "خودمختاری" اور پاکستان میں بینکاری کے نظام کی بابت مزید فکر مند بنادیا۔ حفیظ شیخ کی فراغت اس کے بعد یقینی ہوگئی۔
یہ سوال مگر اپنی جگہ برقرار ہے کہ حفیظ شیخ کی فراغت کے باوجود اس بندوبست کا کیا ہوگا جو 500ملین ڈالر کی قسط کے حصول کے لئے آئی ایم ایف سے طے ہوا ہے۔ مذکورہ بندوست اگر اپنی جگہ موجود رہا تو آئندہ چند ماہ بعد حماد اظہر کی فراغت بھی دیوار پر لکھی نظر آنا چاہیے۔ اپنی آئینی مدت مکمل کرنے سے قبل تین وزرا کی مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کی بنیاد پر فراغت مگر عمران خان صاحب کے کام بھی نہیں آئے گی۔ آئینی اعتبار سے وہ وطنِ عزیز کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ویسے بھی "کپتان" کہلاتے ہیں۔ حفیظ شیخ کے فیصلے "انفرادی" قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ ابھی تک جو معاشی اقدامات لئے گئے ہیں وہ عمران حکومت کی"اجتماعی ذمہ داری"ہیں۔ کسی ایک فرد کو ان کا ذمہ دار ٹھہراکر "کپتان" کو معصوم ثابت کرنے کی گنجائش اب باقی نہیں رہی ہے۔