شکست بہت المناک کیفیت کا نام ہے، خصوصاً اس وقت جب ہر کسی کی آنکھوں میں اس کا دُکھ پڑھا جا رہا ہو۔ سولہ دسمبر 1971ء وہ آخری موقع ہے، جب میں نے اس قوم کو اجتماعی طور پر دُکھ اور کرب کے عالم میں دیکھا ہے۔ ہر کسی کیلئے یہ ناقابلِ یقین بات تھی۔ میرے لئے اس تجربے کی تلخی اس لئے بھی زیادہ تھی کہ میں نے ابھی شعور کی چند ہی منزلیں طے کی تھیں، اس سرزمینِ پاکستان سے جذباتی نہیں بلکہ عقلی طور پر محبت کرنا سیکھی تھی اور رموزِ مملکت و سیاست کو سمجھنے کی کوشش شروع کی تھی۔
میں ٹھیک بارہ سال کا تھا جب اس ملک کے پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی حکومت کے دس سال گزرنے پر "عشرۂ ترقی" (Decade of Development) منانے کا اعلان کیا۔ سکولوں، کالجوں میں ریلیاں منعقد ہونے لگیں۔ گھر والوں سے علیحدہ اپنی زندگی کا پہلا سفر میں نے گجرات سے راولپنڈی کا کیا، جہاں ملک بھر کے سکائوٹس اسی ترقی کا جشن منانے کیلئے سکائوٹ "جمبوری" میں اکٹھے ہوئے تھے۔ میری کھیلوں میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی میرا کوئی تعلق سکائوٹس سے تھا، لیکن "جمبوری" میں ملکی سطح کے تقریری مقابلے تھے، جن میں حصہ لینے کیلئے مجھے لے جایا گیا۔
اسی "جمبوری" میں تقریری مقابلے میں جیتا ہوا میرا کپ ہجوم کی وجہ سے گم ہو گیا، لیکن کیا خوبصورت دن تھے کہ تھوڑے سے ترددّ کے بعد ہی مل گیا۔"جمبوری" سے واپس لوٹے تو اگلے ہی دن سڑکوں پر کچھ لوگ، چار چار کی ٹولیوں میں ایوب خان کے خلاف بینر اُٹھائے ہوئے ایک جلوس کی صورت نظر آئے۔ اس دن علم ہوا کہ دفعہ 144 بھی ہوتی ہے جو اگر نافذ کر دی جائے تو پانچ یا پانچ سے زیادہ لوگ کسی جگہ اکٹھے ہو جائیں تو یہ ایک غیر قانونی اجتماع (Unlawful Assembly) بن جاتا ہے، اسی لئے لوگ چار چار کی ٹولیوں میں جلوس نکالتے ہیں۔ سال کے باقی دن اب انہی احتجاجوں سے رنگین ہو چکے تھے۔
ہر روز کوئی نہ کوئی ٹولی سڑکوں پر ہوتی۔ ہنگامے بڑھتے چلے گئے۔ ان دنوں خبر عموماً سینہ بہ سینہ ہی چلتی تھی۔ ریڈیو سب اچھا بتاتا، ٹی وی شہر میں چند گھروں تک محدود تھا اور اخبارات میں ایک "نوائے وقت" تھا جس کی خبروں اور شہ سرخیوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ملک میں کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ ایوب خان کے خلاف ہونے والے ہنگاموں سے بہت پہلے ہی ملکی سیاست کے خاموش تالاب میں بے شمار پتھر ارتعاش پیدا کر چکے تھے۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کا گجرات کے ہارس شو گرائونڈ میں جلسہ اور حبیب جالب کی مشہور نظم "میں نہیں مانتا" کا ترنم، میرے کانوں میں آج بھی گونجتا ہے۔ اس جلسے میں شرکت پر زندگی میں پہلی دفعہ میرے نرم خُو والد نے مجھے مارا تھا۔
وہ اس آٹھ سالہ "شیطان" بچے کو جلسہ گاہ میں اتنے بڑے ہجوم میں ڈھونڈ کر تھک گئے تھے، جب میں انہیں نظر آیا، تو ان کا غصہ دیدنی تھا۔ مادرِ ملت کے الیکشن کے بعد کی فضاء بھی خاصی تلخ تھی۔ تھڑوں اور چوراہوں پر کراچی کی جھگیوں کو جلانے میں ایوب خان کے بیٹوں کے ملوث ہونے کی کہانیاں سننے کو ملتی تھیں، لیکن اچانک ستمبر 1965ء کی جنگ نے پانسہ ایوب خان کے حق میں پلٹ دیا۔ سترہ روزہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد کی سرخوشی نے لوگوں کو ایک دَم یکسو کر دیا۔ مگر یہ خوشی انتہائی عارضی ثابت ہوئی۔ صرف چار ماہ بعد ہی جنوری 1966ء کو تاشقند میں پاکستان، بھارت معاہدہ ہوا، جسے ذوالفقار علی بھٹو نے جیتی ہوئی جنگ میز پر ہارنے کے مترادف قرار دے کر استعفیٰ دے دیا اور وہ گلی گلی تاشقند کا راز اپنی پٹاری میں لئے جلسوں سے خطاب کرنے لگا۔
ہر جلسے میں اس پٹاری سے راز برآمد ہونے کی اُمید میں لوگ شرکت کرتے اور اگلے جلسے کی اُمید لے کر لوٹ جاتے۔ بھٹو دُنیا سے چلا گیا لیکن تاشقند کا راز معلوم نہ ہو سکا۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اکٹھے ہوتے چلے گئے اور ایوب خان کے خلاف ایک مسلسل تحریک بنتی چلی گئی۔ لوگ تقریباً ہر سیاسی طور پر مقبول چہرے سے آشنا تھے۔ کیونکہ یہ سب کے سب مغربی پاکستان کی سیاست میں نمایاں تھے مگر ایک چہرے اور نام سے صرف میں نہیں بلکہ اکثر پاکستانی فروری 1969ء میں اچانک روشناس ہوئے۔
ایک دن اخبار کی ہیڈ لائن تھی، "اگرتلہ سازش کیس واپس لے لیا گیا" ساتھ ہی ایک مونچھوں والے شخص، جس نے بال پیچھے کی سمت بنائے ہوئے تھے، اس کی تصویر تھی جس کے نیچے لکھا تھا" اگرتلہ سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمان"۔ میرا تجسس "اگرتلہ سازش کیس" کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی طرف لے گیا۔ گجرات میونسپل کمیٹی میں ایک لائبریری تھی۔ اس میں گزشتہ اخباروں کا ریکارڈ محفوظ تھا۔ سکول ہنگاموں کی وجہ سے بند ہو چکے تھے۔ لائبریری میرے گھر کے قریب تھی۔
کئی دن اخبارات چھانے، جتنی بھی معلومات ملیں، اس سے صرف ایک ہی تاثر ملا کہ "اگرتلہ سازش کیس" دراصل پاکستان کے خلاف ایک سازش تھی، جس کا مقصد بھارت کی مدد سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنا تھا۔ یقیناً جو کچھ ان اخبارات میں پڑھنے کو ملا، اس سے یہی نتیجہ برآمد ہوا کہ شیخ مجیب الرحمان ایک غدار ہے۔ اس دَور میں غداری اور حب الوطنی کے سر ٹیفکیٹ عام بانٹے جاتے تھے اور ان کی تقسیم کی اجارہ داری ایک مخصوص اخبار کے پاس تھی۔ حالات بگڑتے جا رہے تھے، اس دوران 3 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے گول میز کانفرنس بلائی۔
ایک ساتھ تمام لیڈروں کی تصویریں اخباروں میں نظر آئیں۔ پہلی دفعہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ انہیں اپوزیشن کی طرف سے مذاکرات کا سربراہ چُنا گیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان کی بے شمار تصویریں اخباروں نے چھاپیں۔ وہ ان میں ایک جاذبِ نظر شخص نظر آتا تھا جس نے سفید کرتے پاجامے پر کالی واسکٹ پہن رکھی ہو۔ جیل سے رہائی کے بعد ایسی مسکراہٹ عموماً سیاست دانوں ہی کے چہرے پر ہوتی ہے، جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر کے آئے ہوں۔
ایوب خان رخصت ہوا۔ اقتدار یحییٰ خان نے بزور طاقت حاصل کر لیا۔ چند ماہ تبدیلی کے سنّاٹے میں ہی گزرے، مگر پھر سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا۔ ہم گجرات والوں کیلئے یحییٰ خان کی صدارت کسی حیرت سے کم نہ تھی۔ ایک بڑا فوجی آفیسر جو مسلسل سرگودھا روڈ پر واقع جنرل رانی کے گھر آیا کرتا تھا، بلکہ کئی دفعہ تو وہ سامنے والے کھلے میدان میں ہیلی کاپٹر سے اُترتا اور ملاقات کرتا۔ ایسا شخص ملک کا صدر بھی بن سکتا ہے، شہر میں ہر طرف چہ مگوئیاں تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ یحییٰ خان کے بارے میں جو حکایتیں اور کہانیاں ملک بھر کو 16 دسمبر 1971ء کے بعد ملنا شروع ہوئیں، ان سے گجرات کے لوگ مدتوں پہلے سے ہی آشنا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 16دسمبر 1971ء کے بعد جو جلوس غیظ و غضب کے عالم میں گجرات کی سڑکوں پر برآمد ہوا، اس کا اختتام جنرل رانی کے گھر پر پتھرائو سے ہوا۔ ایوب خان کی بلائی ہوئی گول میز کانفرنس سے دو کردار بالکل علیحدہ رہے۔
ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرا مشرقی پاکستان کا کیمونسٹ انقلابی مولانا عبدالحمید بھاشانی۔ بھٹو کی الگ تھلگ اور غیر مصالحتی سیاست آج کے عمران خان سے خاصی ملتی جلتی تھی۔ ہر لیڈر کا تمسخر اُڑانا، سب کو ناقابلِ بھروسہ سمجھنا اور خود کو پاکستان کے مسائل حل کرنے کیلئے مسیحا کے طور پر پیش کرنا۔ (جاری ہے)