Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. 16 December, Haara Kon? (2)

16 December, Haara Kon? (2)

الیکشنوں کا آغاز ہوا تو شیخ مجیب الرحمان لاہور آیا۔ اسے دیکھنے کی خواہش مجھے لاہور لے آئی۔ گول باغ (موجودہ ناصر باغ) میں اس کا جلسہ تھا۔ مغربی پاکستان کے لوگ بھٹو کے سحر میں اسقدر گرفتار تھے کہ مجیب کا جلسہ ایک عام سے سیاسی رہنما کا جلسہ لگ رہا تھا، لیکن ایک ایسے رہنما کیلئے جس نے کئی سال بھارت کے ساتھ ساز باز کے الزام اور غداری کے جرم میں گزارے ہوں، پنجاب کے دل، لاہور جیسے شہر میں یہ خاصا بڑا ہجوم تھا۔ اس کی تقریر انتہائی غیر متاثر کن تھی۔ غالباً وہ اُردو میں مافی الضمیر اتنا اچھا بیان نہیں کر پاتا تھا، یا پھر لوگوں کو اس کے طرزِ سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کیونکہ بعد میں اس کی وہ تقریریں جو میں نے سنیں جو اس نے بنگالی میں کیں ان میں تو وہ ایک شعلہ بیان مقرر نظر آتا ہے۔

الیکشن ہوئے اور یہ الیکشن خوفناک حد تک حیران کن نتائج لے کر آئے۔ مغربی پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے جادو کا اسیر تھا، مگر اس بھٹو کا جادو مشرقی پاکستان میں نہیں چلتا تھا یا پھر اس نے شروع دن سے ہی مشرقی پاکستان کو اپنی کتابِ سیاست سے خارج کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے مرحوم مشرقی پاکستان میں ایک بھی اُمیدوار کھڑا نہ کیا۔ مشرقی پاکستان کی 300 میں سے 161 سیٹیں تھیں مگر پیپلز پارٹی کے جیالے صرف مغربی پاکستان کی ہی بنیاد پر اس ملک پر حکمرانی کرنے کے خواب دیکھتے اور دکھاتے تھے۔

شاید یہ خواب مشرقی پاکستان کو نکال کر دیکھا جاتا تھا۔ اس خواب کی تکمیل کی سمت جو بظاہر پہلا قدم اٹھایا گیا، میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ یہ بھٹو کا جلسہ تھا جس میں شیخ مجیب کے مطالبے پر ایک خوفناک اعلان ہوا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان نے مطالبہ کیا تھا کہ اس ملک کو بنے پچیس سال ہو گئے ہیں، اب تک اقتدار کے سارے مرکز مغربی پاکستان میں رہے ہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں چلے گا، ہم اکثریت میں ہیں، اس لئے قومی اسمبلی کا اجلاس اب ڈھاکہ میں ہو گا۔ جلسہ کیا تھا، بھٹو کے ذومعنی فقروں سے بھری ہوئی ایک بھر پور تقریر تھی۔ بھٹو کا سارا زور اس بات پر تھا کہ جو کوئی رکن اسمبلی ڈھاکہ میں اسمبلی کے اجلاس میں جائے گا وہ غدار ہو گا۔ یہی جلسہ تھا جس میں اس نے مجیب الرحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا "اُدھر تم، اِدھر ہم"۔ اس نے جوشِ خطابت میں کہا جو ڈھاکہ جائے گا، "میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا اور پھر وہ سٹیج پر بیٹھے ہوئے احمد رضا قصوری کی طرف بڑھا اور ہاتھ سے پکڑ کر ٹانگیں توڑنے کا اشارہ کیا"۔

حیرت کی بات ہے کہ بھٹو نے نعروں سے گونجتے جلسے میں جس احمد رضا قصوری کی ٹانگیں توڑنے کا منظر پیش کیا تھا، وہی احمد رضا قصوری بھٹو کے اس نفرت انگیز تصور کو بالائے طاق رکھ کر اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے ڈھاکہ جا پہنچا۔ یہ الگ بات کہ اپنی اس "گستاخی" کی سزا اسے بار بار قاتلانہ حملوں اور آخرکار اپنے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کی صورت بھگتنا پڑی۔ پورے ملک میں ایک زہرناک پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ شیخ مجیب الرحمان ڈھاکہ میں اجلاس بلائے گا، سٹیٹ بینک وہاں منتقل کر دے گا۔ پاکستان کا سارا سونا اس کے پاس چلا جائے گا اور پھر وہ آزادی کا اعلان کر دے گا۔ اس پروپیگنڈے میں پیپلز پارٹی کے جیالے پیش پیش تھے۔

مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی کوئی اپوزیشن تو تھی نہیں۔ صرف ایک سیٹ نورالامین جیتے تھے، جبکہ مغربی پاکستان میں بھٹو کے مقابلے میں اپوزیشن اچھی خاصی مضبوط تھی، بلکہ دو صوبوں بلوچستان اور سرحد میں تو اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت تھی۔ تین سو کے ایوان میں شیخ مجیب الرحمان کے پاس 160 سیٹیں تھیں، جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس 81 سیٹیں تھیں، جبکہ بھٹو کی طرف اس کے اتحادی قیوم لیگ کی 9 سیٹیں بھی ڈال لی جائیں تو مغربی پاکستان کی اپوزیشن کے پاس اکتالیس ممبرانِ قومی اسبملی تھے۔ لیکن مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے فضاء ہی ایسی بنا رکھی تھی کہ ہر خاص و عام یہ سمجھتا تھا کہ ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنا دراصل پاکستان کی تباہی پر مہر ثبت کرنا ہے۔ اس وقت شاید کوئی سیاست دان اتنا بھی بالغ نظر نہیں تھا کہ عوام کو سمجھاتا کہ اگر سٹیٹ بینک وہاں منتقل ہو بھی جائے تو اس سے مغربی خطے کے کاروبار پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

آج مڑ کر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کاش مغربی پاکستان کی اپوزیشن کے اکتالیس اراکین ڈھاکہ میں اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے چلے جاتے، تو ہو سکتا ہے یہ ملک ٹوٹنے سے بچ جاتا، یا ہمیں کچھ اور سال اکٹھا رہنے کو مل جاتے۔ مگر یہاں تو ہر کوئی اپنے جوڑ توڑ میں لگا ہوا تھا اور اس جوڑ توڑ میں دائو پر صرف اور صرف پاکستان کا مستقبل تھا۔ دونوں جانب کے سیاست دان جب اس طرح کی کھینچا تانی میں مصروف ہوں گے کہ ایک یہ کہے کہ اجلاس ڈھاکے میں ہونا چاہئے اور دوسرا یہ کہے کہ اسلام آباد میں، اور دونوں اپنی ضد پر بھی قائم رہیں تو پھر یحییٰ خان جو اقتدار پر بزورِ قوت براجمان تھا، اسے کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ یحییٰ خان کو سیاستدانوں کی اس کشمکش میں اپنی بقا نظر آئی۔

شیخ مجیب سے مذاکرات شروع ہوئے، ملک بھر کے اخبارات میں اس کے چھ نکات کو ملک دُشمنی کا سر ٹیفکیٹ دیا جانے لگا۔ بھٹو نے کہا جب تک آئین کے بنیادی ڈھانچے پر اتفاق نہیں ہوتا، اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا جائے۔ کمال ہے وہ اسمبلی جس نے خود آئین بنانا ہے، اسی کے اجلاس سے پہلے اتفاق رائے پیدا کرو۔ سازش کی بُو ہر کسی کو محسوس ہو رہی تھی۔ بھٹو، مجیب مذاکرات کے بعد بھٹو نے کہا کہ چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس آدھے نکتے کا آج تک پتہ نہیں چل سکا جس پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ہنگامے شروع ہوئے اور 26 مارچ 1971ء کو "آپریشن سرچ لائٹ" کے نام سے آرمی ایکشن شروع ہو گیا۔ پورے مغربی پاکستان میں اس کے خلاف کوئی بولنے والا نہ تھا۔

لاہور شہر میں صرف تین صحافیوں نے جلوس نکالا تو لوگوں نے دو رویہ کھڑے ہو کر ان پر تھوکا۔ بھٹو ڈھاکہ سے واپس آیا تو ایئر پورٹ پر اس نے بیان دیا، "خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا"۔ لیکن دراصل اس دن پاکستان کی بربادی کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ کس قدر عجیب اتفاق ہے کہ 26 مارچ 1971ء کو یہ فوجی آپریشن جنرل ٹکا خان کی نگرانی میں شروع ہوا اور مئی 1971ء میں مکمل بھی ہوا۔ کیونکہ وہ اس وقت مشرقی پاکستان کا گورنر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا۔ مشرقی پاکستان کے ملٹری آپریشن کے اس نگران جنرل ٹکا خان کو اپنی اسی "صلاحیت" کی بنیاد پر بھٹو نے ایک بار پھر بلوچستان کے فوجی آپریشن کا بھی نگران بنایا جہاں وہ قصاب کے طور پر مشہور ہوا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ٹکا خان کو ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ء میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر لگا دیا۔

مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن کے انچارج، اسی ٹکا خان کو 1988ء میں جب بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئی، تو اس نے اسے پنجاب کا گورنر لگا دیا گیا۔ لیکن ملٹری آپریشن کی اس المناک داستان میں ایک کردار ایسا بھی ہے جسے آج تک گمنامی نے گھیر رکھا ہے۔ مگر اس شخص کا کردار ایسا تھا کہ اس کا ذکر سنہری حروف میں ہونا چاہئے۔ یہ شخص لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان ہے۔ جب یحییٰ خان نے بھٹو کے دبائو میں قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا تو ہنگامے پھوٹ پڑے۔

مشرقی پاکستان پر اس وقت صاحبزادہ یعقوب علی خان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور گورنر تھا۔ اس نے آرمی ایکشن شروع کرنے سے انکار کر دیا اور چار صفحات پر مشتمل اپنا محضر نامہ یحییٰ خان کو پیش کیا۔ اس کی پاداش میں اس کی لیفٹیننٹ جنرل سے میجر جنرل کے عہدے پر تنزلی کر دی گئی۔ جس کے بعد اس نے پھر کبھی اپنے نام کے ساتھ اپنا ملٹری رینک تحریر نہیں کیا۔ 26 مارچ 1971ء کو سلگائی گئی یہ آگ ایسی تھی جس نے پورے مشرقی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 16 دسمبر 1971ء کے دن اس نے اس مملکتِ خداداد پاکستان کے خرمن کو خاکستر کر دیا۔

یہ دن میری زندگی کا اذیت ناک دن تھا۔ پندرہ سال کی عمر ایسی نہیں ہوتی کہ قومی سانحوں پر رویا جائے، لیکن پتہ نہیں کیوں میں اس رات پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ میری آنکھوں کے سامنے گذشتہ سات سالوں کے وہ سب کردار گھوم گئے جو پاکستانی سیاست کے اُفق پر جلوہ گر تھے۔ ہم انہیں مسیحا گردانتے تھے، جنہیں لوگ پوجنے کی حد تک محبت کرتے تھے، لیکن شاید ان میں کوئی بھی ایسا نظر نہیں آیا جس نے اس ملکِ خداداد کے خرمن کو جلنے سے بچانے کیلئے اپنے ہاتھ زخمی کر لئے ہوں۔

جنرل نیازی نے 16 دسمبر 1971ء کو ہتھیار ڈالے تھے، لیکن مغربی پاکستان کا سیاست دان تو کئی سال پہلے سے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ اس سانحے میں سب کے سب مصلحت کوش تھے، خود پسند، مفاد پرست اور خود غرض۔ (ختم شد)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.