"جواب شکوہ" علامہ اقبالؒ کا وہ کلام ہے، جسے میں نے جب سے پڑھنا شروع کیا ہے مجھے ہمیشہ ایسا لگا کہ جیسے میں مدحتِ سید الانبیاء ؐ کی کیفیت میں لکھی گئی کوئی نعت پڑھ رہا ہوں۔ ہر کامیاب شہ پارے کا یہ اصول ہے کہ اس کا بہائو اختتامی اشعار یا فقرے کی جانب لے کر جاتا ہے۔ افسانہ اپنے اختتامی جملے سے پوری کہانی ایسے واضح کرتا ہے جیسے افسانہ نگار آپ کو اندھیرے میں بھول بھلیوں سے گزار کر لایا ہو اور اچانک بٹن دبا کر گزرا ہوا راستہ روشن کر دے۔
اسی طرح ہر بڑی نظم کا بہائو بھی اُسے اختتامی اشعار کی جانب ایسے لاتا ہے کہ سارا مدعا واضح ہو جاتا ہے۔ مصوری کے فن سے آشنا لوگ بھی جانتے ہیں کہ کوئی مصور جب تصویر بنا رہا ہوتا ہے تو آخر میں چند ایک اختتامی ڈنڈیریں (Strokes) ایسی لگاتا ہے کہ پوری پینٹنگ روشن ہو جاتی ہے۔"جواب شکوہ" کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ پوری نظم یوں لگتا ہے ایک پُرشور دریا کی طرح اس آخری شعر کی تلاش میں سرپٹکتی چلی جا رہی ہو۔
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
"جواب شکوہ" چونکہ علامہ اقبالؒ نے اپنی مشہور نظم "شکوہ" کے جواب میں ایک ایسی کیفیت میں لکھی ہے کہ اس کے ہر شعر میں آپ کو الہامی کیفیت ملے گی۔ یوں لگتا ہے جیسے اقبالؒ کے قلب پر شکوے کا جواب نازل ہو رہا ہو۔ اسی لئے جب کبھی بھی اسے پڑھا، اس میں سے نئے اسرار برآمد ہوئے یا پھر کبھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا، یا کوئی ایسی کیفیت اُمت پر طاری ہوئی تو جہاں اقبالؒ کے اور بے شمار اشعار روحِ قرآن کو پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہاں اقبالؒ کی نظم "جواب شکوہ" بھی ایسے سوالات کے جوابات سے بھری پڑی ہے۔
اقبالؒ کا یہ مصرعہ "آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا" مجھے اچانک اس وقت یاد آیا جب برطانیہ کے ایک صاحب، وہاں مقیم ایک صوفی اور عالمِ دین و دُنیا اسرار رشید کی ایک کتاب "Islam Answers Atheism" (اسلام الحاد کا جواب دیتا ہے)، ان کے میرے نام پیغام اور محبت کے جذبات کے ساتھ لے کر آئے۔ میں چونکہ انٹرنیٹ کی دُنیا کا شناور نہیں ہوں، اس لئے مجھے ان صاحب کے بارے میں زیادہ علم نہ تھا کہ وہ توکل کے اس مقام پر ہیں کہ معجزاتی کیفیت والی ہستی ہیں۔
مجھے آج سے دس سال قبل ان کا دیا ہوا فتویٰ یاد تھا، جس کی وجہ سے، میری نظروں میں ان کی عزت و تکریم ایک مجاہد کی حیثیت سے بہت مسلم تھی۔ انہوں نے برطانیہ کے مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ برطانوی افواج کا بائیکاٹ کریں کیونکہ وہ عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ کلمۂ حق اس وقت بلند کیا جب برطانیہ میں پانچ سو اسلامی تنظیموں پر مشتمل "مسلم کونسل آف برطانیہ" نے کاسہ لیسی کے طور پر یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ مسلمانوں کو ہر اس معاشرے کی بہتری کے لئے کام کرنا چاہئے جس میں وہ رہتے ہوں۔
مسلمانوں پر یہ بہت کڑا وقت تھا۔ افغانستان میں پہلا مسلمان برطانوی فوجی جبران ہاشمی، طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا اور اس کی موت کو برطانوی وفاداری کی علامت سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن ان صاحبِ کتاب کے جس ناقابلِ یقین واقعہ نے پوری دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالا وہ گزشتہ سال پیش آیا۔ وہ عیسائیوں کے ساتھ ایک مکالمے (Debate) میں شریک تھے تو اچانک مکالمہ اس مقام پر آ پہنچا کہ انہوں نے عیسائیوں کو چیلنج کیا کہ اگر آپ لوگوں نے "بتسمہ" لیا ہے اور آپ سیدنا عیسیٰ ؑکے صحیح ماننے والے ہو تو پھر آپ کو ان پر مکمل توکل ہونا چاہئے۔
اس کے بعد اسرار رشید نے رسول اکرم ﷺ اور عیسائیوں کے درمیان "مباہلہ" کے اس قرآنی واقعہ کا ذکر کیا، جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے عیسائیوں کو چیلنج کیا تھا کہ ہم دونوں اللہ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر ہے، اللہ اسے زندہ رکھے اور دوسرے کو ہلاک کر دے۔ سورۂ آل عمران میں اس مباہلے کا تذکرہ موجود ہے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ عیسائی اس چیلنج سے بھاگ گئے تھے۔
اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد اس نے بائبل سے پڑھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی "بپتسمہ" لے گا تو وہ محفوظ رہے گا، اگر وہ میرا نام لے کر پکارے گا تو وہ اگر زہر پیئے گا تو اس پر اس کا اثر نہیں کرے گا اور وہ مریضوں کو صحت بھی بخش سکے گا۔ اسرار رشید نے وہاں چوہوں کو مارنے والے زہر کی بوتل منگوا کر سامنے رکھی، اور چیلنج کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے یہ زہر پیئے۔
عیسائی مناظروں نے پلٹ کر کہا کہ کیا تم پی سکتے ہو کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر تم زہر پی لو گے اور عجوہ کھجور کھائو گے تو تم پر اثر نہیں کرے گا۔ ایک منٹ کا توقف کئے بغیر بھری محفل میں اسرار رشید اپنی کرسی سے اُٹھا اور اُس نے چوہے مارنے والے زہر کی بوتل ہونٹوں سے لگائی اور پوری بوتل پی گیا۔ حیرت میں گم پورا مجمع اُسے دیکھتا رہ گیا اور اُس کے بعد عیسائی مناظرین خفت و شرمندگی میں کچھ بھی نہ کہہ سکے۔
دراصل اسرار رشید کو اس محفل میں زہر پینے کا چیلنج حضرت خالد بن ولیدؓ کا یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد دیا گیا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے عیسائیوں کے ایک قلعے کا محاصرہ کر لیا تو ان کا بڑا پادری ان کے سامنے آیا اور کہا کہ میرے ہاتھ میں یہ زہر ہے، میں اسے پی جائوں گا اور تم میری موت کے ذمہ دار ہو گے۔ خالد بن ولیدؓ نے کہا تم نہیں مر سکتے اگر اللہ نہ چاہے، پادری نے کہا کہ اگر تمہیں اللہ پر اتنا ہی توکل ہے تو یہ زہر تم پی کر دکھائو۔
حضرت خالد بن ولیدؓ نے زہر کی شیشی اُٹھائی اور پی لی اور پورے کا پورا مجمع حیران و ششدر دیکھتا رہ گیا۔ اس کے بعد جو حدیث اسرار رشید کے سامنے اس عیسائی عورت نے سنائی وہ یہ تھی، "جو شخص روزانہ سات عجوہ کھجوریں کھاتا ہے تو اس پر زہر یا جادو کا اثر نہیں ہوتا" (بخاری)۔ ایمان اور توکل کا یہ عالم جو اسرار رشید کو حاصل ہے، ایسا ایمان ہر دَور میں معجزے دکھا سکتا ہے۔ اسرار رشید ایک صوفی ہے اور قادری سلسلہ میں بیعت ہے لیکن یہ ایک ایسا صوفی جسے جدید دَور کے خطرات کا ادراک بھی ہے، اسی لئے اس نے اپنا جہاد الحاد، سیکولر ازم اور لبرل ازم کے خلاف شروع کر رکھا ہے۔
اسے جون 2010ء میں اس لئے سعودی عرب میں گرفتار کیا گیا کہ اس نے ایک سعودی عالم سے بحث کی تھی کہ ایک عالمِ دین کو ایک منشیات فروش کا جنازہ نہیں پڑھانا چاہئے۔ اس کا یہ بیان بھی تنقید کا نشانہ بنا کہ یورپ کو اگر یہودیوں سے اتنی محبت ہے اور ہٹلر سے نفرت ہے تو پھر اسرائیل کو جرمنی میں بنائو تاکہ ان کے دُکھوں کا ازالہ ہو سکے۔ اقبالؒ کے "جواب شکوہ " کا یہ بند اس عظیم مسلمان پر کس قدر حرف بہ حرف سچ ثابت ہوتا ہے۔
عہدِ نو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملتِ ختمِ رُسل شعلہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اقبالؒ کے مصرعہ ملتِ ختم رُسل شعلہ بہ پیراہن ہے" یعنی اُمت مسلمہ کے ملبوس کو آگ لگی ہوئی ہے، اسرار رشید کی الحاد پر لکھی کتاب اس مصرعہ کے المیے کا جواب ہے۔