کالم کے آغاز سے پہلے میں بقائمی ہوش و حواس اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ میں قانون کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں اور اس میدان میں تیس سال قبل ایل ایل بی کی سند بھی حاصل کر چکا ہوں۔ سول سروس اکیڈیمی میں ڈی ایم جی گروپ کی ٹریننگ کے دوران پاکستان میں نافذالعمل تقریباً تمام قوانین کی تعلیم کے حصول کے بعد نو سال بحیثیت سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ عدالتی فرائض بھی سرانجام دے چکا ہوں اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد ہائی کورٹ کا لائسنس یافتہ ایڈووکیٹ ہوں۔ اس لئے یہ کالم میں کسی جذباتی صورتِ حال سے مغلوب ہو کر تحریر نہیں کر رہا بلکہ قانون کا جو تھوڑا بہت علم میرے پاس ہے اس کی روشنی میں تحریر کر رہا ہوں۔
میں اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ کسی بھی عدالت کا کوئی بھی فیصلہ سنائے جانے کے بعد عوام کی ملکیت ہوتا ہے اور اس کے محاسن اور خرابیوں پر بحث ہر شخص کا آئینی حق ہے۔ ان معروضات اور وضاحتوں کے بعد مجھے جس فیصلے پر گفتگو کرنا ہے وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "اٹھارہ سال سے پہلے کئے گئے شرعی ایجاب و قبول کے باوجود ایک مجرمانہ فعل ہے"، گویا قانون کی نظر میں یہ تعلق "ناجائز" ہے، جسے انہوں نے فی الفور ختم کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔ اس فیصلے میں بڑی حیران کن اور افسانوی بحث چھیڑ کر نتائج برآمد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
برطانوی ہندوستان میں معاشرے کو مغربی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کے لئے 1929ء میں کم سنی کی شادی پر پابندی لگانے کے لئے "Child Marriage Restraint Act" نافذ کیا گیا۔ اسی سال برطانوی پارلیمنٹ نے 10 مئی 1929ء کو شادی کی عمر 16 سال قرار دی تھی۔ اس قانون کے علاوہ برطانوی ہندوستان میں جرم و سزا کے معیارات طے کرنے کے لئے بلوغت (Puberty) کو عمر کے ساتھ میڈیکل معائنے سے بھی منسلک کیا گیا تھا۔
اسی طرح جرم کے تعین کے لئے تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 82 اور 83 کے تحت جرم کی ذمہ داری سات سال کی عمر کے بعد شروع ہوتی تھی جو 1875ء کے "بلوغت قانون" (puberity act)سے منسلک تھی۔ لیکن اسے 2016ء میں بڑھا کر 10 سے 14 سال کر دیا گیا ہے اور جج کی صوابدید پر بھی چھوڑ دیا گیا کہ وہ جرم کے مطابق مجرم کی عمر کا تعین کرے۔ اسی طرح 2000ء کے آرڈیننس "Juvenile Justice System" کے تحت مجرم بچوں کی عمر کی حد 18 سال کر دی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی 17 سال گیارہ ماہ کے قاتل کو پھانسی کی سزا نہیں دی جا سکتی۔
اس قانون کے نفاذ سے لے کر اب تک جس طرح لوگوں نے اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لئے نوجوانوں کا استعمال شروع کیا اس کی شرح خوفناک ہے۔ اسی طرح تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 375 اور 376 میں جو زنا بالرضا اور زنا بالجبر سے متعلق ہے اس کے لئے عمر کی حد 16 سال رکھی گئی ہے۔ کسی معاہدے پر دستخط کرنے، ڈرائیونگ لائسنس بنانے یا ووٹ ڈالنے وغیرہ کے لئے عمر کی حد 18 سال ہے۔
یہ ہے پاکستان کے قوانین میں عمر کے تعین کی "اُلجھی" ہوئی صورتِ حال۔ جج صاحب نے ان تمام قوانین کا ایک شاندار افسانوی "منظر نامہ" اور "اختیارات نامہ" تیار کیا اور ان سب کو شادی یا نکاح کے ساتھ منسلک کر کے فیصلہ تحریر کر دیا۔ اس کے لئے وہی دلیل دی گئی جو انسانی حقوق کے ترجمان کم سنی کی شادی کے خلاف دیتے ہیں کہ کوئی بھی لڑکا یا لڑکی 18 سال سے پہلے شادی کی اہم ذمہ داریاں اُٹھانے کے قابل نہیں ہوتا، اس لئے انہیں شادی نہیں کرنی چاہئے۔
جج صاحب نے اس کو ایک باہمی معاہدے کے قانون سے بھی جوڑا اور پھر اس نکاح کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 375 کے تحت "زنا بالرضا" کی عمر یعنی سولہ سال سے بھی منسلک کیا اور شرعی طور پر منعقد نکاح کو فاسد قرار دے دیا۔ نکاح سرکاری قوانین نہیں بلکہ شریعت کے تحت منعقد ہوتا ہے جس میں شادی کے لئے بلوغت شرط ہے، جب بھی آ جائے۔ بلوغت کے بعد شادی نہ کرنے کے نتائج سے رسول اکرم ﷺ نے خبردار کرتے ہوئے فرمایا، "بالغ ہونے کے بعد اپنی اولاد کی شادی کر دینی چاہئے، اگر باپ شادی نہ کرے اور نتیجتاً اولاد کسی غلط کام میں مبتلا ہو جائے تو باپ بھی گناہ گار ہو گا" (عن سعید و ابن عباس مشکواۃ: 3128)۔
شادی کے لئے 1929ء کا قانون ہو یا دُنیا بھر کے قوانین اس میں صرف اور صرف "بلوغت" ہی شرط ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ ان میں عمر کا بھی تعین کر دیا گیا ہے۔ اس کو شادی کی ذمہ داریوں سے جوڑنا، بوجھ اُٹھانے کے قابل ہونا، سنجیدہ ہونا وغیرہ وغیرہ ایسے لا تعلق مباحث ہیں جن کا اس تصورِ قانون سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ دراصل بلوغت سے لے کر 18 سال کے درمیان والے عرصے میں شادی نہ ہونے دینا رسول اکرم ﷺ کی اس وارننگ کے خلاف ایک ایسا طرزِ عمل ہے جس کے نتائج دُنیا پر واضح ہو چکے ہیں۔
اس وارننگ کا جائزہ لیں تو دُنیا کے جن ممالک نے بھی شادی کے لئے عمر کی حد مقرر کی، وہاں 18 سال سے کم عمر بن بیاہی مائوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے لگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت صرف امریکہ میں ہر سال دس لاکھ کم سن بچیاں مائیں بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسقاطِ حمل (Abortion) کے کیسوں میں بھی بے شمار اضافہ ہوا ہے۔ خطرناک صورتِ حال یہ ہے کہ یہ جنسی تعلقات چونکہ شادی کے قوانین کی خلاف ورزی میں بنتے ہیں، اس لئے ایسی 80 فیصد بچیاں ہسپتال نہیں جاتیں، جس کے نتیجے میں 15 فیصد کا حمل ضائع ہو جاتا ہے باقیوں میں تیس فیصد اسقاطِ حمل کرواتی ہیں اور 60 فیصد "ناجائز" بچے پیدا کرتی ہیں۔
یہ کم سن بچیاں عمر کی پابندی کے اس قانون کا مذاق اُڑاتی ہیں جس کوبنانے کی سفارش جج صاحب نے اپنے فیصلے میں کی ہے۔ صرف امریکہ ہی نہیں اگر ترقی یافتہ ممالک کینیڈا، برطانیہ، فرانس اور سویڈن وغیرہ کو دیکھیں تو امریکہ میں ہر ایک ہزار بچوں میں سے 24 "ناجائز" یعنی شادی کے بغیر کم سن بچیوں کے ہاں پیدا ہوئے ہیں اور باقی ملکوں میں یہ شرح 20 ہے۔ یورپ میں اس کمی کی وجہ قانون کا نفاذ نہیں بلکہ اسقاطِ حمل (Abortion) کی آزادی اور بہتر سہولیات ہیں۔ لیکن برطانیہ میں یہ شرح خوفناک ہے۔ صرف 2009ء میں یہ شرح 48 تھی۔ اس سال وہاں 91,673 کم سن بچیاں حاملہ ہوئیں، جن میں سے 43,301 نے اسقاطِ حمل کروایا اور 48,372 نے "ناجائز" اولادیں پا لیں۔
شادی کی عمر کی پابندی کے نتائج پر دُنیا کے تمام ممالک کے خوفناک اعداد و شمار پیش کئے جا سکتے ہیں، مگر مجھے فیصلے کی بنیادی بحث اور انسانی حقوق والوں کی اس دلیل کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ سترہ سال گیارہ ماہ اور 30 دن کا لڑکا یا لڑکی اچانک ایک دن بعد کیسے فوراً اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ شادی شدہ زندگی کی معاشی، معاشرتی، اخلاقی، تہذیبی اور قانونی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔ اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے تو ملازمت نہیں ملتی، یعنی وہ اگلے دن اچانک ہر لحاظ سے بالغ نظر (Mature) ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ افسانوی اور بودی دلیل دی نہیں جا سکتی۔
قانون کی تعلیم کا آغاز اصولِ قانون (jurisprudence) سے ہوتا ہے اور پہلا فقرہ یہ ہوتا ہے کہ قانون کسی معاشرے کی رسم و رواج (Norms & Mores) سے جنم لیتا ہے۔ جس ملک میں لڑکیوں کے رشتے نہ آتے ہوں اور وہ بوڑھی ہو رہی ہوں، لڑکے شادی کے لئے معاشی طور پر تیار ہونے کے لئے جوانی گزار دیں، ایسے ملک میں یہ افسانوی بحث صرف اس لئے چھیڑی جاتی ہے کہ اگر کہیں کوئی لڑکا یا لڑکی، زنا سے بچنے کے لئے بلوغت آتے ہی اللہ کے احکام اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق "نکاح" کے بندھن میں بندھ جائے تو اسے واپس گناہ کی دُنیا کی طرف لوٹا دیا جائے۔