لکھنؤ میں پیدا ہونے والی نوے سالہ رومیلا تھاپر کے نام سے میں 1983ء میں آشنا ہوا، جب اس کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب "A History of India" کی پہلی جلد میرے ہاتھ آئی۔ سول سروس کے امتحان میں تاریخ پاک و ہند کی تیاری ایک گھمبیر مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ خطہ کبھی بھی تاریخی طور پر ایک متحدہ مملکت کے طور پر قائم نہیں رہا۔ کئی سو راجائوں، مہاراجائوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں کبھی آپس میں دوست اور کبھی آپس میں برسرِپیکار رہتی تھیں۔
محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے حملوں کے بعد جب 25 جون 1206ء کو قطب الدین ایبک نے دلّی کو اپنا پایۂ تخت بنایا تو پھر اس خطے کو ایک مرکزیت نصیب ہوئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک یعنی 716 سال گزرنے کے بعد یہ پورا خطہ مجموعی طور پر ایک علاقائی اکائی محسوس ہوتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے یورپ، جو مختلف اقوام کا مسکن تھا، اسے رومن بادشاہت نے مرکزیت عطا کی، اسی طرح اس بکھرے ہوئے جزیرہ نما ہندوستان کو مسلمانوں نے ایک منظم خطے کی شکل دی۔
یہی وجہ ہے کہ 1206ء کے بعد کی تاریخ آسان ہے اور پڑھنے والے کے لئے بالکل دُشوار نہیں۔ لیکن اس سے پہلے کے ہندوستان کو سمجھنا اور اس کے سیاسی، انتظامی، معاشرتی اور معاشی اُتار چڑھائو کا ایک ترتیب سے اندازہ کرنا اچھا خاصہ مشکل کام ہے۔ میرے ہاتھ، انار کلی بازار میں فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک پرانی کتابیں بیچنے والے کے ذریعے، قدیم نقشوں پر مشتمل ہندوستان کی ایک ایسی اٹلس آ گئی تھی جس میں ہر عہد کے نقشے موجود تھے، لیکن ان کو سمجھنے کے لئے لاتعداد کتابوں کے مطالعے کی ضرورت تھی۔
رومیلا تھاپر کی اس کتاب نے میری یہ مشکل آسان کر دی۔ میری ضرورت صرف پہلی جلد تک تھی اور جیب میں پیسے بھی کم تھے، اس لئے اس کتاب کی دوسری جلد میں نے پانچ سال بعد ذرا خوشحالی آنے پر خریدی۔ برطانوی دَور میں فوج کی میڈیکل کور کے لیفٹیننٹ جنرل دیا رام تھاپر کے گھر پیدا ہونے والی اس ذہین خاتون نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور پھر لندن یونیورسٹی کے مشہور ادارے (School of Oriental and African Studies) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
رومیلا تھاپر میری پسندیدہ مؤرخ اس لئے ہے کہ وہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ بیان کرنے والی واحد مؤرخ ہے جس نے تعصب کا زہر اپنے قلم کے قریب نہیں آنے دیا۔ اس کے نزدیک ہندوستان کا تاریخی مواد، بنیادی طور پر ہندو اور مسلم حوالوں میں بٹا ہوا ہے۔ دونوں طرف کے مؤرخین نے اپنی مرضی کے واقعات کا انتخاب کیا اور پھر اپنی مرضی کے زاویۂ نظر سے دونوں جانب ایک متعصب تاریخ مرتب کی۔ یوں برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ہندو اور مسلم تاریخی مواد میں بَٹ کر رہ گئی، رومیلا نے ان کے برعکس ایک غیر جانبدار تاریخ مرتب کی ہے۔
رومیلا تھاپر نے بھارتی بچوں کے لئے نصاب کی ایک کتاب "قدیم ہندوستان کی تاریخ" لکھی تھی جو بھارت کے سکولوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ اس غیر جانبدار مؤرخ کی اس نصابی کتاب کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندو توا کے حامی تمام گروہوں نے مسلسل احتجاج کیا اور جب 2002ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اس نے سب سے پہلے اس نصاب کی کتاب سے وہ صفحات نکال دیئے جن میں رومیلا تھاپر نے لکھا تھا کہ "قدیم ہندو بادشاہ اور پروہت بھی گائے کا گوشت کھاتے تھے اور ہندوئوں نے ہی مذہبی طور پر ایک بدترین ذات پات کا نظام بنایا تھا جس میں برہمن، کھشتری، ویش اور شُودر ذاتوں میں انسانوں کو تقسیم کیا"۔
یہ بی جے پی کا صرف آغاز تھا اور ان کی حکومت ابھی باقی پارٹیوں کے ساتھ مخلوط تھی، اس کے باوجود بھارت میں نفرت کی فضا اس قدر مضبوط تھی کہ رومیلا تھاپر کی اس نصابی کتاب کو تبدیل کرنے کے خلاف چند لوگوں کا احتجاج صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔
رومیلا تھاپر کا اصل کارنامہ ہندوستان کی تاریخ سے ان جھوٹے واقعات کی حقیقت بیان کرنا ہے جو انگریزوں نے اپنے مفاد کی تکمیل اور "لڑائو اور حکومت کرو" کی پالیسی کے تحت تاریخ میں شامل کئے۔ ان میں سب سے اہم ترین داستان سومنات کے مشہور مندر پر محمود غزنوی کا حملہ ہے۔ رومیلا تھاپر نے جب واقعے کے تاریخی شواہد کی تلاش شروع کی تو اس کی حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ جب محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا تو اس وقت وہاں کوئی مندر موجود ہی نہیں تھا بلکہ اسے کئی سو سال پہلے جین مت کے پیروکاروں نے تباہ و برباد کر کے وہاں مہاویر کا پرچم بھی لہرا دیا تھا۔
رومیلا تھاپر نے پہلے ترکوں کے فارسی بیانیئے پر مشتمل تاریخوں کا مطالعہ کیا تو اس کو اندازہ ہوا کہ یہ تاریخیں 1026ء کے حملے کے بہت بعد لکھی گئیں اور ان میں افسانوں جیسے جھوٹے واقعات تحریر ہوئے جن میں محمود غزنوی کو ایک بُت شکن کے طور پر پیش کر کے ایک ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔ تاریخ تحریر کرتے ہوئے ان بددیانت مؤرخین نے سنسکرت کی قدیم کتابوں، اور سومنات کے آثار اور کتبوں کا بالکل مطالعہ کیا اور نہ ہی جین مذہب کی داستانوں اور جنگوں سے متعلق لکھے گئے رزمیوں کو پڑھا۔
اگر وہ ایسا کر لیتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ سومنات کب اور کس وقت ایک ہندو شہر سے جین شہر میں تبدیل ہوا۔ اگرچہ ان مسلمان مؤرخین کو جو محمود غزنوی کو بُت شکن ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے، دیانت داری سے آثارِ قدیمہ کے ان کتبوں کا مطالعہ کرنے کا بھی موقع ملتا تو وہ حیران رہ جاتے جس سومنات کو وہ ہندوئوں کا مرکز بنا کر پیش کر رہے ہیں وہاں تو مسلمان بھی آباد تھے اور ایک ایرانی تاجر بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں رہتا تھا اور ان مسلمانوں نے وہاں ایک مسجد بھی تعمیر کر رکھی تھی۔
جین مذہب جب ہندوستان پر چھایا تو ان کی تحریروں کے مطابق بمبی سارا، اشوک، اودین اور ہریانکہ خاندان سب کے سب جین مت کے پرستار تھے اور سومنات کے مندر کو جو کہ اب ایک جین مندر بن چکا تھا اپنے تحائف بھی نذر کیا کرتے تھے۔ ایرانی ترکوں کی تاریخوں میں سومنات کا واقعہ معمولی نوعیت کا تھا اور یہ تاریخ کی گرد میں چھپا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کی ہندوستان آمد تک ہندوئوں اور مسلمانوں، دونوں کے نزدیک سومنات کا واقعہ کبھی زیرِ گفتگو ہی نہیں رہا۔
اس معاملے کو سب سے پہلے 9 مارچ 1943ء کو برطانیہ کے دارالعوام میں اس وقت اُٹھایا گیا جب انگریزوں کی کابل پر لڑائی جاری تھی۔ اس دوران ہندوئوں اور مسلمانوں میں منافرت پیدا کرنے کے لئے ایک جھوٹا واقعہ بیان کیا گیا کہ غزنوی شہر میں جو دروازہ ہے وہ دراصل سومنات کے مندر سے اُکھاڑ کر لایا گیا تھا۔ برطانیہ کے درالعوام نے یہ قرارداد منظور کی کہ سومنات کے مندر پر محمود غزنوی کے حملے سے ہندوئوں کے مذہبی اور معاشرتی حقوق پامال ہوئے تھے اور ہندوستان کے شہریوں کو افغانستان کے مسلمانوں سے اس واقعے کا انتقام لینا چاہئے۔
انگریزوں نے اس واقعے کو ہندوستان کے ہندوئوں کو غلام بنانے کی علامت کے طور پر پیش کیا۔ اسے نادان مسلمانوں نے اپنی حاکمیت اور غلبے کی علامت بنایا اور نسیم حجازی جیسے ناول نگاروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا جبکہ شُدھی اور سنگٹھن کی تحریکوں کے بعد راشٹریہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دَل نے اسی جھوٹے تاریخی واقعہ کو نفرت اور انتقام کی علامت بنا کر ایک ایسا بیج بویا جو آج ایک زہر آلود درخت بن چکا ہے۔ رومیلا تھاپر کی یہ کتاب 2004ء میں شائع ہوئی تھی اور اس دن سے میری ایک خواہش تھی کہ کوئی بندۂ خدا اس کا اُردو ترجمہ کر کے خلقِ خدا کے مطالعے کے لئے آسان کرے۔
پروفیسر ریاض صدیقی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ اسے فکشن ہائوس لاہور، حیدر آباد اور کراچی نے بیک وقت شائع کیا ہے۔ طباعت پر محنت نہیں ہوئی اور نہ ہی کاغذ اچھا ہے لیکن ان خرابیوں کے باوجود کتاب ایک ایسا مطالعہ ہے جسے پاکستان اور بھارت کے ہر مسلمان اور ہندو کو ایک دفعہ ضرور کرنا چاہئے۔