Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aik Mard e Kohistani, Qazi Hussain Ahmed

Aik Mard e Kohistani, Qazi Hussain Ahmed

کیسا چہرہ تھا کہ آنکھ اس سے ہٹتی ہی نہ تھی۔ تبسم ایسا کہ جس سے دلوں کے زخم دُھل جائیں۔ آنکھوں میں گہرائی کہ جس میں مجھے اکثر ایک حزن و ملال اور دَرد جھلکتا نظر آتا۔ میں نے جب بھی ان آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی، ان کے معصومانہ تبسم نے میری ساری تگ و دو ختم کر دی۔ کون جانتا تھا کہ ان آنکھوں میں اُمت مسلمہ کا دَرد جھیل کے پانیوں کی طرح جھلکتا رہتا ہے۔ جو کبھی کناروں سے باہر نہیں اُمڈتا۔"مائیکل انجیلو" جسے دُنیا ایک بہت بڑا مصّور مانتی ہے، جس نے روم کے گرجا گھروں میں عالمِ بالا کے کئی کرداروں کی تصاویر اور مجسمے بنائے۔ اگر وہ قاضی حسین احمد کو دیکھ لیتا تو یقیناً کسی مقرب ترین فرشتے کی تصویر ان جیسی ضرور بناتا۔

صوفیا بھی اللہ کے برگزیدہ اور مقرب بندوں کی ایک پہچان بتاتے ہیں کہ ان کے گرد ایک مقناطیسی ہالہ ہوتا ہے۔ ایک ایسی کشش جو دوست دُشمن سب کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ دُنیا بھر کے نفسیات دان ہر شخصیت کے گرد ایک مقناطیسی ہالے کا بتاتے ہیں، جسے اب تو مخصوص کیمروں سے عکس کی دُنیا میں بھی لایا جا سکتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں جس شخص کا باطن جتنا اُجلا، صاف اور کردار بے داغ ہو گا، اس کا ہالہ اتنا ہی شفاف اور روشن ہو گا۔ آقائے دو جہاں سیدالانبیاء ﷺ نے روشن چہرے کی پہچان بتاتے ہوئے فرمایا: "چہرہ تو اللہ کے نُور سے روشن ہوتا ہے"۔ اور قاضی حسین احمد کا چہرہ ایسا ہی چہرہ تھا۔ جسے دیکھ کر اقبالؒ کے مردِ مومن کی وہ چار علامتیں "قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت" ایسے جھلکتی تھیں کہ آنکھیں خیرہ ہو جاتیں۔

یوں تو قاضی صاحب کے نام سے میں 70ء کی دہائی سے آشنا تھا، لیکن ان سے پہلی ملاقات 1988ء میں اس وقت ہوئی جب میں اپنی سرکاری نوکری کے آغاز میں اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ تعینات تھا۔ کوئٹہ ایئر پورٹ کے وی آئی پی لائونج میں امیر جماعت اسلامی اور موجودہ دَور میں ملتِ اسلامیہ کے سب سے بڑے جہاد، افغان جنگ کے داعی کے لئے میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔ میں اس جہاد کو آٹھ سال سے بہت قریب سے دیکھ چکا تھا اور اب اس کے ثمرات کے لٹنے کا خطرہ سب کو پریشانی میں ڈالے ہوئے تھا۔ ایک انتظامی افسر کے ایسے کھلے سوالات قاضی صاحب کے لئے حیران کن تھے، لیکن وہ اپنی حیرانی کو مسکراہٹ میں چُھپا کر جواب مختصر کرتے جاتے۔ میری تشنگی موجود رہی۔ میں نے انہیں بھر پور گفتگو پر مائل کرنے کے لئے کہا: "مجھے صرف ایک اسسٹنٹ کمشنر نہ سمجھیں۔ میں 1970ء سے ایک بھر پور سیاسی کارکن رہا ہوں۔"بنگلہ دیش نامنظور"، "ختمِ نبوت" اور 1977ء کی "نظامِ مصطفی تحریک" میں تقریروں سے لے کر نعروں اور پولیس کے تشدد تک ہر مرحلے سے گزر چکا ہوں اور اسے چھپاتا بھی نہیں "۔

میرے ان جذباتی فقروں پر قاضی صاحب کی آنکھوں میں جو محبت اور چہرے پر جو مسکراہٹ آئی وہ میں آج تک نہیں بھول سکا۔ یہ محبت اور مسکراہٹ آج تک میرا پیچھا کرتی ہے۔ میرے ہاتھ میں اس وقت میری شاعری کی کتاب "قامت" تھی جو چند دن پہلے چھپ کر آئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم میں نے کیوں ایک خالص رومانی شاعری کی کتاب بظاہر ایک مولوی نما شخص کو پیش کر دی، لیکن میری حیرت کئی گنا ہو گئی جب انہوں نے وہیں بیٹھے اسے پڑھنا شروع کر دیا اور کتنے ہی ایسے شعر تھے جن پر داد دیتے رہے۔ اس کے بعد قاضی صاحب سے محبت اور عقیدت کا ایک ایسا رشتہ استوار ہوا کہ ان کے اس دُنیا سے رخصت ہوتے ہوئے، مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنے والد کے بعد دوسری دفعہ ایک شدید محبت کرنے والے، دُعا گو اور ہمدرد سے محروم ہو گیا ہوں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کمرے کی ایک چھت تھی جو اُڑ گئی ہے اور میں کھلے آسمان تلے کھڑا ہوں۔ آسمان بھی ایسا جہاں سے غیظ و غضب کی آندھیاں میرے ملک کے تعاقب میں ہیں۔

اتحادِ اُمت کے حوالے سے کتنے دُکھ تھے جو قاضی صاحب کتنی خاموشی کے ساتھ میرے ساتھ گفتگو میں بیان کرتے۔ اس جدوجہد میں کیسی کیسی قیامتیں ان کے دل پر ٹوٹتیں، لیکن آج تک ان کے لہجے کی شگفتگی میں کمی نہ آئی۔ کون سا مسلک ہے جس نے ان پر طنز کے تیر نہ پھینکے ہوں لیکن محبت کے شہد میں ڈوبی اس زبان سے کبھی کوئی شکوہ نہ نکلا۔ ایک مردِ کوہستانی کی طرح وہ ایک مضطرب دل لے کر پیدا ہوئے تھے۔ سپاہِ صحابہ کے ہاتھوں مارے جانے والوں کا جنازہ پڑھا تو ان کی لاٹھیاں اپنے بدن پر کھائیں اور جب مولانا اعظم طارق کی عیادت کے لئے گئے تو شیعہ مسلک کے لوگوں کے طعنے سنے۔ دیو بند مکتبِ فکر کے گھرانے میں جنم لینے والے قاضی حسین احمد، مشہد میں امام رضا کے مزار کے ساتھ مسجد میں اس قدر قابلِ قبول تھے کہ وہاں مصلی امامت پر کھڑے کئے گئے۔

ترکی میں نجم الدین اربکان جب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک لے کر اُٹھے تو لاکھوں کا اجتماع قاضی حسین احمد کی تقریر سننے کو بے تاب تھا۔ مصر کی اخوان المسلمون ہو یا فلسطین کی حماس، قاضی صاحب کا احترام سب کے دلوں میں مسلّم۔ افغان جہاد کے حکمت یار ہوں یا برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود ہوں یا عبدالرب رسول سیاف? سب کے لئے قاضی صاحب کی ذات دلوں کو جوڑنے کا کام دیتی۔ لیکن اس ملک میں کون سا ایسا تیر ہے جو ان کی ذات پر نہ برسایا گیا ہو۔ گذشتہ بیس سالوں کے انگریزی اور اُردو کے سیکولر لکھاریوں کے نثر پارے نکال لئے جائیں تو آپ کو ان کی ذات پر ایسے ایسے الزامات ملیں گے جن میں کردار کشی کے سوا کچھ موجود نہیں۔ مگر ایک بڑی شخصیت کا کمال ہے کہ اس کی جانب سے کوئی گلہ، شکوہ اور شکایت سامنے نہ آئی۔

سیدالانبیاء ﷺ ایک مجلس میں موجود تھے کہ ایک فرد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور آپ ﷺ مسکرا رہے تھے۔ اچانک حضرت ابوبکرؓ نے اس کا جواب دینا شروع کیا تو آپؐ اُٹھ کر چلے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پریشان ہو کر آپ سے سوال کیا: جب تک میں خاموش رہا تو آپؐ تبسم فرماتے رہے، لیکن میں نے جواب دیا تو آپؐ ناراض ہو کر اُٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جب تک تم خاموش تھے تو اللہ کی جانب سے ایک فرشتہ تمہاری جانب سے جواب دے رہا تھا، لیکن جیسے ہی تم نے جواب دینا شروع کیا تو وہ فرشتہ رخصت ہو گیا۔ یہ وہ نصرت ہے جو اللہ کی طرف سے ایک مومن کے حصے میں آتی ہے۔ وقت ثابت کرتا ہے کہ کردار کی عظمت کس کا مقدر ہوتی ہے۔

قاضی صاحب سے میری عقیدت اور محبت ایک اور باہمی رشتے میں بندھی ہوئی تھی۔ یہ رشتہ علامہ اقبالؒ کی شخصیت کے راستے قرآن فہمی اور عشقِ رسولؐ کی راہداریوں تک جا نکلتا ہے۔ کئی بار مجھے قاضی صاحب کی صدارت میں یومِ اقبالؒ کی تقریبات میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ جب علامہ اقبالؒ کی نظم "حضور رسالت مآب ﷺ" میں پڑھتے جس میں اقبال ؒ سیدالانبیاء ﷺ کے دربار میں حاضری کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

کہا حضور نے اے عندلیب باغِ حجاز

کلی کلی ہے تیری گرمیٔ نوا سے گداز

اس شعر پر آتے ہی قاضی صاحب کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ سید الانبیاء ﷺ سے ان کا عشق چھلکنے لگتا اور پھر اقبالؒ سے ان کی محبت رسول اللہ ﷺ کی جانب سے دیا گیا لقب "عندلیب باغِ حجاز" ان کی تقریر کا کا محور بن جاتا۔ اقبالؒ کے اشعار ان کی زبان پر یوں وارد ہوتے کہ سماں بندھ جاتا۔ انہیں بیک وقت فارسی اور اُردو دونوں پر عبور تھا۔ بڑے بڑے اُردو ادب کے نقاد اقبال شناسی میں ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے تھے۔ اقبالؒ کا ایک شعر جو میں نے ان کی زبان سے ایک مجلس میں سنا۔ میری زندگی میں ایک بہت بڑی حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شعر میں نے ایک ملک کے بہت بڑے خوش نویس خورشید گوہر قلم سے لکھوا کر اپنے دفتر میں دیوار پر ایسی جگہ مستقل لٹکایا ہوا ہے جہاں ہر کسی کی نظر پہنچتی ہے، اس لئے کہ یہ شعر مجھے حوصلہ دیتا ہے۔ طاقت عطا کرتا ہے:

ہر کہ رمزِ مصطفی فہمیدہ است

شرک را در خوف مضمر دیدہ است

"جس نے سیدالانبیاء ﷺ کی رمز کو پہچان لیا، اسے کسی چیز کا خوف بھی شرک لگتا ہے"۔

یعنی جو کسی بھی طاقت سے، اقتدار سے، برادری سے، ظالم سے، افسر سے، بیروزگاری سے، غربت سے ڈرتا ہے وہ دراصل شرک کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ دل میں خوف صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہی بسا ہونا چاہئے۔ ایسے دل کے امین اور ایسے کردار کے مالک شخص کا اس دُنیا سے اُٹھ جانا ایک المیہ ہے۔ موت برحق ہے، لیکن نفس مطمئنہ کی موت خوش نصیبوں کو میسر آتی ہے۔ ایسی موت جس کا استقبال ارواح صالح کرتی ہیں۔ اس لئے کہ اس روح کی منزل ہی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ میرے آقا ﷺ کے اس قول کے مطابق زندگی گزارتے ہیں: "دُنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت"۔ قاضی صاحب کی روح اس قید خانے سے آزاد ہوئی، لیکن ہم سے کتنے ایسے ہیں جو واقعی اس دُنیا کو قید خانہ سمجھتے ہیں؟

(قاضی حسین احمد کی نویں برسی پر ان کی یاد میں لکھی گئی تحریر قندِ مکرر کے طور پر)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.