پاکستان، انسانی تاریخ کا وہ واحد بدقسمت ملک ہے، جس میں اعلیٰ ترین عدالت میں گذشتہ ایک دہائی سے بار بار ملک کے اعلیٰ دماغ وکیل اور ماہر قانون، مختلف اوقات میں اس موضع پر بحث کرتے رہے ہیں کہ، ایک جھوٹا، خائن، بددیانت اور چور شخص عوام کی قیادت کا اہل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
انسانی تاریخ میں بدترین آمر آئے، ظالم بادشاہ عوام الناس پر بدترین ظلم کرتے رہے، انہوں نے شہروں کے شہر جلا کر راکھ کر دیئے، فاتحین علاقے روندتے رہے اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتے رہے، مگر آج تک ان میں سے کسی ایک نے بھی اس ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ سینہ کڑا کرکے اور جی داری کے ساتھ اس موضوع پر بحث تک نہیں کی کہ ایک جھوٹا، بددیانت اور خائن شخص بھی کسی منصب کا اہل ہے یا وہ ایک قابل احترام شخص ہے۔
شاعر، بادشاہوں کے قصیدے لکھتے رہے، عام لوگ اور خواص ان کی عظمت کے گن گاتے رہے۔ لیکن تاریخ میں کبھی کسی نے شرم و حیا اور اخلاق و اقدار کا لبادہ تار تار کرتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ میں اپنے ممدوح بادشاہ کی اس لیے عزت کرتا ہوں، تکریم کرتا ہوں، اسے اپنا بادشاہ مانتا ہوں کیوں کہ وہ جھوٹا، بددیانت یا خائن ہے۔
اس ذلت و رُسوائی کا امین بدقسمتی سے میرا ملک پاکستان ہی بنا اور یہ جرأت بھی پاکستان کی پارلیمنٹ نے ہی کی کہ 22 اگست 2017ء کو الیکشن قوانین میں فخریہ انداز میں ایک ایسی ترمیم منظور کی جس کے تحت اس شخص کو بھی پارٹی سربراہ بنانے کی اجازت دی گئی، جس میں چاہے دنیا جہان کا کوئی عیب ہو اور یا وہ کسی بھی جرم میں سزا کاٹ چکا ہو، ایک قاتل، رسہ گیر، ڈاکو، سیریل کلر، قبضہ مافیا کا سرپرست، غرض ہر وہ شخص جس پر یہ جرائم ثابت ہو جائیں اور عدالت اسے سزا بھی سنا دے، وہ پارٹی سربراہ بن سکتا ہے۔
تاریخ نے اس دَور کے اراکین پارلیمنٹ کو ایک موقع اور دیا تھا کہ وہ اپنے اس گناہ سے نجات حاصل کر لیتے۔ عدالت کے سامنے معاملہ گیا تھا تو عدالت میں اس کا دفاع نہ کرتے، چُپ سادھ لیتے، شرمندگی کا اظہار کرتے۔ لیکن یہ تو سینہ تان کر سپریم کورٹ جا پہنچے اور خم ٹھونک کر اپنی اس قبیح حرکت کے حق میں دلائل دینے لگے۔ جدید تاریخ میں کسی عدالت کے سامنے کبھی یہ سوال نہیں اُٹھایا گیا اور نہ ہی کسی پارلیمنٹ نے کبھی ایسا قانون پاس کیا ہے۔
پاکستان میں جب عقل و علم کے خزانوں سے کوئی دلیل میسر نہ ہو تو پھر ایک ایسا دانشورانہ سیاسی فقرہ بول کر خود کو درست ثابت کیا جاتا ہے اور پھر اسے اس لیے بار بار ہر سطح پر دہرایا جاتا ہے تاکہ لوگ اس پر یقین کر لیں۔ دلیل یہ ہے کہ "یہ قانون ہم اس لیے تبدیل کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک آمر کا عطا کردہ ہے۔ " توہین رسالت کا قانون ہو یا پارٹی سربراہی کا ضابطہ، جہاں دلیل ختم ہو جائے وہاں یہ نکتہ پھلجھڑی کی طرح چھوڑا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ میں یہ قانون چیلنج ہوا تو مضحکہ خیز دلائل اس کے دفاع کے لیے دیئے جاتے رہے۔ ایک یہ دلیل دی گئی کہ الیکشن میں حصہ لینا ایک شخص کا بنیادی حق ہے، آپ کسی کو نااہل قرار دے کر کیسے اس سے یہ حق چھین سکتے ہیں۔ اس دلیل پر ٹاک شوز بھی ہوئے، پھر صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور دانشوروں نے دل کھول کر "بددیانتی" کا انسانی حقوق کے نام پر دفاع کیا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ کسی نے مڑ کر ان سے یہ نہیں پوچھا کہ "زندہ رہنا بھی تو ایک شخص کا بنیادی حق ہے، تو پھر قاتل کو پھانسی پر چڑھا کر اس سے یہ حق کیوں چھینتے ہو۔ قیدوبند سے آزاد زندگی گزارنا ایک شخص کا بنیادی حق ہے تو پھر مجرموں کو کئی سال کے لیے جیل میں کیوں ڈالتے ہو"۔ میرا ملک ایک ایسی دلدل میں ہے جہاں سرمایہ اس قدر اہم ہو چکا ہے کہ ایک وکیل یوں سرعام ایک مصدقہ جرم اور ایک بدترین بُرائی کا دفاع کرتا ہے۔
بات سپریم کورٹ کی بحثوں اور اسمبلی کی راہداریوں تک رہتی تو یہ ایک چھوٹے سے گروہ تک محدود رہتی جو عموماً ضمیر کا سودا کرنے میں مشہور ہے۔ لیکن پھر عوامی جلسوں میں لوگوں کے سامنے ڈھٹائی کے ساتھ نعرے بلند کئے جانے لگے۔ صرف جھوٹ بولا نہیں گیا، بلکہ جھوٹ بولنے کے عمل کا دفاع بھی کیا گیا۔ لوگ ہاتھ بلند کرکے اور نعروں کے شور میں اپنے ایسے رہنماؤں کو داد دیتے رہے جن کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ یہ بددیانت اور چور ہیں۔ سیاسی محبتوں نے لوگوں کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ حق اور سچ کی پہچان ختم ہوگئی۔
سپریم کورٹ نے 21 فروری 2018ء کو اس بحث کو سمیٹ کر یہ فیصلہ دے دیا کہ ایک بددیانت، خائن اور چور شخص عوامی نمائندگی کا حق نہیں رکھتا۔ اس کے بعد لاتعداد چیف جسٹس اور جج حضرات آئے، ممبرانِ اسمبلی تقریریں کرتے رہے اور ڈیسک بجاتے رہے مگر یہ فیصلہ اپنی جگہ قائم رہا۔ کوئی اسے چیلنج کرکے بدنامی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ مگر ٹھیک پانچ سال بعد بہانہ جُو پاکستان کے طاقتور طبقات نے پوری قوت سے اس ملک کے پورے نظامِ عدل کو ہی ایسے افراد کے سامنے سربسجود کر دیا جن کے بارے میں نہ صرف عدالت نے بددیانت ہونے کا حکم صادر کر دیا تھا، بلکہ آج تو عوام کی اکثریت بھی پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ خائن، بددیانت اور چور ہیں۔
قوموں کی تاریخ میں جب کبھی ایسا لمحہ آیا تو پھر مالکِ کائنات نے دو طرح فیصلے صادر فرمائے۔ ایک یہ کہ پوری قوم برباد کر دی گئی یا پھر عوام کو اللہ نے وہ شعور عطا کیا کہ انہوں نے بساط اُلٹ دی۔ کسی بھی قوم کی بدقسمتی اور زوال کا یہ آخری منظر ہوتا ہے۔ اس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ کبھی قومیں تباہی سے بچا نہیں کرتیں۔ ایسی کیفیت اور اس طرح کے حالات میں ڈوبی ہوئی قوم کے بارے میں ہی سیدالانبیاء ﷺ نے چودہ سو سال پہلے تنبیہہ کر دی تھی۔ اس حدیث میں جو وارننگ موجود ہے، اسے سوچ کر ہی آدمی خوف سے کانپ اٹھتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا "میں تم پر احمق لوگوں کی قیادت سے اللہ سبحان و تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں"۔ صحابہؓ نے پوچھا احمق کی قیادت کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا "وہ حکمران جو میرے بعد آئیں گے، جو میری تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے، جو میری سنت پر نہیں چلیں گے، جو کوئی ان کے جھوٹ پر یقین کرے گا اور ظلم و جبر میں ان کی مدد کرے گا وہ مجھ میں سے نہیں اور میں اس میں سے نہیں اور نہ ہی وہ حوضِ کوثر میں مجھ سے ملاقات کرے گا اور جو ان کے جھوٹ پر یقین نہیں کرے گا اور ظلم و جبر میں ان کی مدد نہیں کرے گا، وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ حوضِ کوثر پر مجھ سے ملے گا" (مسند احمد بن حنبل)۔
رسول اکرم ﷺ نے عربی لفظ "امارۃ السفھاء" استعمال کیا۔ "سفھاء" کا لفظ قرآن پاک میں بھی بار بار آیا ہے اور ان کے بارے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو گھریلو ذمہ داریاں بھی نہ سونپی جائیں۔ "سفھاء کو اپنی جائیداد (مال و متاع) نہ دو"(النساء)۔ جن خامیوں کے حامل سیاسی رہنماؤں کو اللہ گھرانوں کے مال و متاع کی ذمہ داریوں سے بھی سبکدوش کرنے کا حکم دیتا ہے اور منع فر دیا ہے، پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ آج اس کے طاقتور حلقے ایسے ہی لوگوں کو حکومتی عہدوں کا اہل قرار دے کر منصب پر بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کسی قوم کا زوال اس سے زیادہ اور کیا ہوگا کہ اگر کوئی شخص بددیانتی اور چوری کے صرف الزام میں نوکری سے نکال دیا جائے تو سرکاری نوکری کے لیے ساری زندگی کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ بینک میں فراڈ کرنے والا کسی دوسرے بینک میں ملازمت حاصل نہیں کر پاتا۔ عدالت میں جرم ثابت ہونا تو بہت دُور کی بات ہے، اگر کسی ملازم پر مقدمہ ہی درج ہو جائے، یہاں تک کہ اس کے بارے میں عرفِ عام میں یہ مشہور ہو جائے کہ یہ شخص بددیانت ہے تو کوئی اسے اپنے گھر میں چوکیدار نہیں رکھتا۔ صفائی اور جھاڑ پونچھ کی ذمہ داری نہیں سونپی جاتی۔ بیٹیوں کا رشتہ آ جائے اور صرف اتنا سا بھی علم ہو جائے کہ اس لڑکے کی شہرت اچھی نہیں تو لوگ رشتہ نہیں دیتے۔
کوئی یہ دلیل نہیں سنتا اور نہ ان کی کوئی یہ دلیل مانتا ہے کہ، لوگ ہماری اولاد کے بارے میں ایسے ہی باتیں بناتے ہیں، پولیس نے ہمارے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کر دیا ہے، کون سا کسی عدالت میں ثابت ہوا ہے کہ ہماری اولاد مجرم ہے۔ سب صاف رشتے دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے بددیانت قائدین کی سربلندی پر کس قدر خوش ہوتے ہیں ان کو طاقتوروں کی اشیرباد ملے تو شاداں و فرحاں ہو جاتے ہیں۔ "امارۃ السفھاء" یعنی احمقوں کی حکومت کی خواہش کرتے ہیں۔
بددیانت اور ظالم حکمرانوں کی حمایت کرنے والوں کو روزِ حشر اپنے انجام کا بھی خوف نہیں۔ جبکہ رسول اکرم ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ایسے لوگ حوضِ کوثر پہ میری ملاقات سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ ایک لمحے کے لیے میدانِ حشر کی سختی کا سوچیں اور رسول اکرم ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا تصور کریں اور پھر ظالم، بددیانت، خائن اور چور جس کا چاہے آپ ساتھ دیں۔ عوام ہوں یا طاقتور اشرافیہ، دونوں روزِ حشر اپنا انجام سوچ لیں۔