امریکی صدر جان ایف کینڈی قتل ہوا تو امریکہ میں اس کے چاہنے والے دبی ہوئی زبان میں یہ گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے تھے کہ اسے امریکی سی آئی اے نے مروایا ہے۔ جان ایف کینڈی چونکہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے عوام میں بہت مقبول تھا اور اسے الیکشنوں میں ہروانا ممکن نہیں تھا، اس لئے اسے راستے سے ہٹا دیا گیا۔
مقبول لیڈر کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اگر مار بھی دیا جائے تو پھر بھی اپنی ایک وراثت چھوڑ جاتا ہے۔ کینڈی کی اس وراثت سے سی آئی اے اس قدر خوفزدہ تھی کہ اس کے خاندان کے ہر نمایاں فرد کو قتل کیا گیا، بلکہ اس کا واحد بیٹا جو 22 نومبر 1963ء کو اس کے قتل کے وقت صرف تین سال کا تھا اور جس کی باپ کے تابوت کے ساتھ شائع ہونے والی تصویر نے پورے امریکہ کو رُلا دیا تھا، اسے صرف 29 سال کی عمر میں ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک کر دیا گیا۔
جان ایف کینڈی کی موت کے بعد جس شخص کی قسمت جاگی وہ امریکی نائب صدر لندن بی جانسن تھا جو بقیہ صدارتی مدت کے لئے امریکی صدارت کی کرسی پر متمکن ہو گیا۔ اپنے اس تین سالہ صدارتی دور میں اُس نے کینڈی کی موت سے پیدا ہونے والی فضا اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں اُٹھنے والی چہ مگوئیوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی سالوں سے تعطل کا شکار اطلاعات تک رسائی "Freedom of Information" ایکٹ کو 4 جولائی 1966ء کو کانگریس سے منظور کروا لیا۔
اس قانون کے تحت ہر محقق کو یہ سہولت دی گئی تھی کہ وہ امریکی اہم دستاویزات تک ایک درخواست دے کر رسائی حاصل کر سکے۔ اس آزادیٔ اطلاعات کے "اعلیٰ" قانون کے تحت نو قسم کی معلومات تک رسائی روک دی گئی۔ (1) ایسی معلومات جو قومی سلامتی کے دائرے میں آتی ہوں۔ (2) قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحقیقات۔ (3) اہم افراد کے طبّی ریکارڈ۔ (4) ان کے بینکوں کے بارے معلومات۔ (5) وہ کاروباری راز جو حکومتی رجسٹریشن کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔
(6) کسی حکومتی ادارے کے داخلی ضوابط اور یادداشتیں۔ (7) تیل اور گیس کے ذخائر کی معلومات۔ (8)ایسی تمام معلومات جن کے بارے میں حکومت پابندی لگا دے یا پھر (9) امریکی قومی مفاد کے تحت اہم دستاویزات۔
اس قانون کے منظور ہونے کے باوجود تحقیق کرنے والوں کی درخواستیں جمع ہوتی رہیں مگر انہیں کسی قسم کی رسائی نہ دی گئی۔ رسائی کو ممکن بنانے کے لئے 1970ء میں ایک اور بل لایا گیا جس پر چار سال بحث چلتی رہی کہ اسی دوران مشہورِ زمانہ "واٹر گیٹ" (Watergate scandal) سکینڈل آ گیا جس میں صدر رچرڈ نکسن کی پارٹی کے لوگوں نے مخالف پارٹی کے ہیڈ کوارٹر سے معلومات چرائی تھیں۔
ایک ہنگامہ کھڑا ہوا اور رچرڈ نکسن کو استعفیٰ دینا پڑ گیا۔ یوں ایک اور نائب صدر جیرالڈ فورڈ کی قسمت جاگی اور وہ بقیہ مدت کے لئے صدر بن گیا۔ اس نے اپنی پارٹی کو آنے والی بدنامی سے بچانے کے لئے اس زیرِ بحث بل کو ویٹو کر دیا لیکن کانگریس نے اس کے ویٹوکو مسترد کرتے ہوئے 19 فروری 1975ء کو اس بل کو منظور تو کر لیا مگر عمل درآمد ممکن نہ ہو سکا۔
جب امریکی صدر بل کلنٹن ان خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں مونیکا لیونسکی (Monica Lewinsky)والی سازش کا شکار ہوا۔ تو اس دفعہ اس کی بیوی سمیت پوری پارٹی نے اس کا ساتھ دیا۔ غصے میں بپھرے کانگریس کے ارکان نے 27 اکتوبر 1996ء کو معلومات تک رسائی کا بل پاس کر دیا۔ ان گذشتہ 30 سالوں سے تحقیق کرنے والوں کی زیر التواء پچاس ہزار درخواستوں کی سنی گئی۔
امریکی انتظامیہ نے ایک کروڑ دستاویز تک رسائی کے لئے 1985ء میں قائم کردہ "نیشنل سکیورٹی آرکائیوز" (National Security Archive) کو جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں منتقل کر دیا تاکہ لوگ آسانی سے معلومات حاصل کر سکیں۔
آج نیشنل سکیورٹی آرکائیو انٹرنیٹ کے ذریعے دُنیا بھر سے منسلک ہے اور ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق ان تمام دستاویزات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے جنہیں امریکی ایک عرصہ گزرنے کے بعد شائع کرتے ہیں۔ یہ ان تمام خفیہ معلومات کا شاید ایک فیصد بھی نہیں ہیں جو امریکی سی آئی اے کی دُنیا بھر میں اپنی کارروائیوں کے بارے میں اس کے اپنے پاس محفوظ ہیں۔ پھر بھی امریکہ کی دفتر خارجہ کی دستاویزات میں سے چند منتخب گفتگو اور وہ میمو جو انہوں نے دیگر ملکوں کے سفیروں کو تحریر کئے ہوئے ہیں وہ موجود ہیں۔ ان دستاویزات سے امریکی حکمرانوں کے مزاج، ان کی رعونت اور گفتگو کے دوران ان کی بدزبانیوں کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام کے اہم واقعہ سے متعلق بے شمار دستاویزات منظرِ عام پر لائی گئیں ہیں ان میں بھارت اور اس کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے متعلق کاغذات کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں آجکل جس خط کا تذکرہ ہے اس خط میں امریکی دفتر خارجہ نے جیسی گفتگو لکھوائی تھی وہ کیسی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ "سازش" کہیں یا "مداخلت" کوئی بھی اس خط کو عوام کو دکھانے کی جرأت نہیں کر رہا۔
بھارت پاکستان جنگ (1971ء) کی دستاویزات کو 34 سال بعد 29 جون 2005ء کو منظرِ عام پر لایا گیا۔ یہ دستاویزات کئی سو صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان میں امریکی بد زبانی دیکھنے کے لئے وہ گفتگو اہم ہے جو صدر نکسن اور وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے درمیان ہوئی۔
پانچ نومبر 1971ء کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی جب امریکی دورے پر گئی تو اس نے مشرقی پاکستان سے ہجرت کرنے والوں کے بارے میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جسے امریکیوں نے روس کی ایک سازش سمجھا۔ جب میٹنگ ختم ہوئی، وہ اپنے ہوٹل روانہ ہوئی تو اس کے بعد نکسن اور کسنجر کے درمیان جو گفتگو ہوئی اسے بھی ایک میمو کے طور پر ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔ کسنجر نے اپنے تاثرات میں صدر نکسن کو کہا
"Indians are bastards anyway. They are starting a war there.. While [Gandhi] was a bitch, we got what we wanted to.. She will not be able to go home and say that the United States didn't give her a warm reception and therefore in despair she is got to go to war. "
"انڈین بہر طور حرامی ہیں۔ یہ وہاں جنگ شروع کرنے والے ہیں، اور یہ گاندھی ایک کُتیا ہے۔ ہم نے جو حاصل کرنا تھا کر لیا۔ اب یہ واپس جا کر لوگوں کو یہ نہیں بتا پائے گی کہ امریکیوں نے مجھے گھاس نہیں ڈالی بلکہ یہ اس دورے سے نااُمیدی کے بعد یقیناً جنگ چھیڑ دے گی"۔
اس گفتگو کی بنیاد کسنجر کے پاس سی آئی اے کی وہ خفیہ رپورٹ تھی جس کے مطابق بھارت پاکستان کو توڑنا چاہتا تھا اور ساتھ ہی پاکستانی فوج کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتا تھا۔ جبکہ امریکی مغربی پاکستان کو بچانا اور فوج کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے یحییٰ خان کو چند ماہ کی مہلت دی تھی۔
اس کا انکشاف پاکستانی سفیر آغا بلالی، ہنری کسنجر اور صدر کے مشیر ہیرالڈ سینڈرس کی 10 مئی 1971ء کی گفتگو سے ہوتا ہے جس کے بعد تین جون 1971ء کو کسنجر نے پاکستان میں اپنے سفیر کو فون کیا اور کہا
"President has felt that we should give President Yahya a few months to see what he can work out."
"صدر محسوس کرتا ہے کہ ہمیں یحییٰ خان کو چند مہینے دینے چاہئیں تاکہ پتہ چلے وہ کیا کچھ کر سکتا ہے"۔
یحییٰ خان کو چند ماہ دیئے گئے، بھارتیوں اور اندرا گاندھی کو گالیاں نکالی گئیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اندرا گاندھی کو دھمکی دے کر مغربی پاکستان پر حملہ رکوایا گیا، اور پھر یحییٰ خان کو چند جونیئر آفیسروں کے ذریعے رخصت کروانے کے بعد، بھٹو کو امریکہ سے واپس روانہ کیا گیا تاکہ وہ اقتدار سنبھالے۔
یہ سب کچھ ان دستاویزات کے آتش فشاں میں موجود ہے۔ اس آتش فشاں کو دیکھنے کے بعد امریکی بدزبانی کا بھی اندازہ ہوتا ہے حکمرانوں کو بدلنے کے انداز کا بھی۔ اس تناظر میں سوچئے کہ عمران خان جس خط کو لہراتا ہے، وہ کیسا ہوگا۔
فرق صرف یہ ہے کہ وہ حکمران جو اب اقتدار میں لائے گئے، وہ گذشتہ تیس سال سے ایسی گفتگو سننے کے عادی ہو چکے تھے۔ جبکہ عمران خان اس کا عادی نہیں تھا، بھڑک اُٹھتا تھا، اس لئے تبدیل کر دیا گیا۔