گزشتہ چار صدیوں سے یہ ماتم جاری ہے کہ پوری اُمت زوال کا شکار ہے۔ ہمارا ہر دن ہمیں پستی کی طرف لے جا رہا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کا آخری چراغ جب سو سال پہلے گُل ہوا تو اقبالؒ نے اس اُمت کے دلوں میں اُمید جگاتے ہوئے لکھا تھا:
اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
لیکن گزشتہ ایک صدی سے وہ یہ سحر آج تک طلوع نہ ہو سکی، جس کی اُمید میں اس اُمت کے شب زندہ وار لوگوں کی آنکھوں سے ہر رات اشک رواں ہوتے ہیں۔ الطاف حسین حالی نے سب سے پہلے "مسدسِ حالی" لکھ کر اس زوال کا نوحہ تحریر کیا۔ مسدس کا آغاز جس رباعی سے ہوتا ہے وہ اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے
اقبالؒ کا شکوہ اسی داستانِ رنج و الم کا آئینہ ہے۔ اسے پڑھتے جائیے اور اشک بہاتے جائیے۔ خوگرِ حمدِ باری تعالیٰ اقبالؒ نے اس اندازہ سے شکوہ لکھا ہے کہ خود جوابِ شکوہ میں باری تعالیٰ سے الہامی طور اس طرح پذیرائی حاصل کی:
شکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے
ایک لمحے کو پوری اُمت کے ستاون کے قریب ممالک پر نظر دوڑائیے، کیا یہ اُمت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خزانوں اور نعمتوں سے محروم ہے؟ الجزائر سے لے کر برونائی کے ساحلوں تک مسلم اُمہ، بارہ ٹائم زونز (Zones) میں آباد ہے۔ اس پورے خطے میں اللہ نے کیا کچھ ہے جو اس اُمت کو عطا نہیں کیا ہے۔ وہ تیل جو اس وقت پوری دُنیا کی لائف لائن ہے۔ جس کے بغیر دُنیا کی توانائی کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں، جہاز اُڑ سکتے نہ ریل گاڑی اور گاڑیاں چل پاتیں۔
وہ دس ممالک جن کے پاس دُنیا کے سب سے زیادہ خام تیل کے ذخائر ہیں، ان میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے، جبکہ دیگر مسلمان ممالک، عراق، ایران، الجزائر، کویت، متحدہ عرب امارات، لیبیا اسی دس سرکردہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ انڈونیشیاء اور ملائیشیاء کے علاقوں میں یورپی طاقتیں ربڑ اور ٹِن کے لئے حملہ آور ہوئی تھیں اور وہ آج بھی ان سے مالا مال ہیں۔ سعودی عرب کے سربراہ شاہ فیصل شہید نے جب اکتوبر 1973ء میں یورپی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کی تھی تو ایک بیرل کی قیمت چار گنا بڑھ گئی تھی، پٹرول پمپوں پر لائنیں لگ گئی گئیں تھیں اور بے شمار ممالک نے تو عوام کیلئے کوٹہ مقرر کر دیا تھا۔
اسی لئے مشہور انگریزی رسالے ٹائمز (Times) نے اس سال کے "مرد" (Man of the Year) کا اعزاز شاہ فیصل کے نام کیا تھا۔ اس کے بعد دُنیا اس نتیجے پر پہنچی تھی، کہ مسلمانوں کے پاس کوئی بھی جنگ جیتنے کیلئے تیل کی صورت سب سے بڑا ہتھیار موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فوراً بعد پوری دُنیا کے کاغذی کرنسی والے مالیاتی نظام کو جو گولڈ سٹینڈرڈ سے منسلک تھا، اسے تبدیل کر کے اسے کسی ملک کی معاشی خوشحالی (Goodwill) کے ساتھ منسلک کر دیا گیا تھا۔
ایسا کرنے کے بعد ڈالر کو ہارڈ (Hard) کرنسی تصور کرتے ہوئے دُنیا بھر کے تیل کی خریدوفروخت کو صرف اور صرف ڈالر تک محدود کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکی ڈالر دُنیا کی مضبوط ترین کرنسی ہے۔ یہ پٹرول جو زیادہ تر مسلم اُمہ کی ملکیت ہے، اس میں اس قدر قوت ہے کہ اگر آج اس کی خریدوفروخت پاکستانی روپے میں شروع کر دی جائے تو ایک روپے کی قیمت بڑھ کر اتنی ہو جائے اس میں کئی ڈالر اور کئی یورو آنے لگیں۔ افغانستان وہ ملک ہے جسے لیتھیم کا سعودی عرب کہا جاتا ہے۔
لیتھیم آئندہ صدی کی سب سے اہم دھات ہو گی، جس کے بغیر طاقت و قوت اور غلبے کا تصّور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ افغانستان میں 421 ارب ڈالر کا لوہا، 274 ارب ڈالر کا تانبا، 81 ارب ڈالر کی نیووابیم، 51 ارب ڈالر کی کوبالٹ، 26 ارب ڈالر کا مولیڈینم موجود ہے اور تیل کے ایسے ذخائر موجود ہیں جن سے ایک اندازے کے مطابق پوری ایک صدی تک تیل نکالا جا سکتا ہے۔
پوری دُنیا کے آٹھ ملک ایسے ہیں جو ایٹمی قوت ہیں۔ ان میں سے ایک مسلمان ملک پاکستان بھی ہے۔ معدنیات، زراعت، تیل، افرادی قوت اور ایٹمی قوت اگر یہ سب ملا کر اس مسلم اُمت کو دیکھا جائے تو یہ دُنیا کا طاقتور بلاک نظر آتا ہے۔ نیٹو کا اتحاد اس کے مقابلے میں انتہائی کمزور اور بے معنی محسوس ہوتا ہے۔ افغانستان میں ذلّت آمیز شکست کے بعد تو اب کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں کہ نہتے مسلمان مردان صف شکن کے مقابلے میں دُنیا کی کوئی ٹیکنالوجی جیت سکتی ہے۔
افغانستان کی اس جیت اور اُمتِ مسلمہ کی پیہم ذلّت و رُسوائی کے بعد یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ دیگر ستاون اسلامی ممالک اور افغانستان میں کیا فرق ہے؟ ذلّت و رُسوائی اور شکست ان کا مقدر کیوں ہے۔ ناکامی و نامرادی نے ان کا گھر کیوں دیکھ لیا ہے۔ لاتعداد دانشور نما محقق دُور کی کوڑیاں لاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے چونکہ ان مسلم ممالک میں جمہوریت نہیں اس لئے یہ ترقی نہیں کرتے، کوئی تعلیم کی کمی، سہولیات کے فقدان کی بات کرتا ہے تو کوئی لیڈر شپ کی بددیانتی کو اس کا سبب گردانتا ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا:
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اقبالؒ نے جس سبب کی طرف اشارہ کیا ہے وہ سبب ان ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں پر کتابِ ہدایتِ قرآن نے چودہ سو سال پہلے واضح کر دیا تھا۔ اللہ نے اُمتوں کی ذلّت و رُسوائی کی صرف ایک ہی وجہ بتائی ہے۔ اللہ کے نزدیک ایک خطا ایسی ہے کہ کسی اُمت سے سرزد ہو تو پھر اللہ پہلے تو اس دُنیا میں اس کی سزا دیتا ہے اور آخرت میں شدید عذاب ایسی اُمتوں کا منتظر ہو گا۔ اللہ فرماتا ہے، "تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دُنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں " (البقرہ: 85)۔
پوری مسلم اُمت کی آج یہی حالت ہے۔ ہم نماز، روزہ، حج، زکوۃ کو تو مانتے ہیں لیکن سود سے انکار کی جرأت نہیں کرتے۔ پردے کی آیات روزانہ نمازوں میں تلاوت کی جاتی ہیں لیکن ہمارا پورا معاشرہ اس سے واضح طور پر انکار کرتا نظر آتا ہے۔ اللہ کے بنائے گئے قوانین کے مطابق فیصلے کرنا تو بہت دُور کی بات ہے ہم تو روزانہ ان کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی کتاب کے ایک حصے کو ماننا اور دوسرے سے انکار ہے، جس کی سزا اللہ نے دُنیا میں ذلت و رسوائی رکھی ہے۔
اسی طرح اور ایک عذاب ہے جو اللہ دُنیا میں ہی قوموں کو دیتا ہے، اللہ فرماتا ہے۔"اور جو میرے ذکر سے روگردانی کرے گا تو اس کی گزران مشکل کر دی جائے گی اور ہم اسے روزِ قیامت اندھا کر کے اُٹھائیں گے " (طہٰ: 124)۔ یہاں قرآن میں لفظ "معیشتِ ضنکا" استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی ایک ایسی معیشت کہ جس میں انسان کے پاس وسائل تو ہوتے ہیں مگر وہ ضروریات کیلئے ترستا رہتا ہے، مجبور و دربدر رہتا ہے۔
دُنیا بھر میں ذلیل و رُسوا ہوتا ہے۔ اُمت کے ایسے افراد جو "ذکر" یعنی قرآن کو فراموش کر دیں گے وہ جب اندھے اُٹھائے جائیں گے تو روزِ محشر سوال کریں گے، "الٰہی مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اُٹھایا، حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔ (جواب ملے گا) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری اُتاری گئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تجھے بھلا دیا جانا ہے" (طہٰ: 125)۔
پوری اُمت کے علی الرغم جن مسلمانوں نے افغانستان میں اللہ کی اُتاری گئی آیتوں کو یاد رکھا انہیں اللہ نے دُنیا میں ہی عزت سے نوازا، باقی اُمت بھول گئی، اسے دُنیا میں ہی بھلا دیا گیا اور آخرت کا بھلایا جانا تو یقینی ہے۔