پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے کہ جہاں ہر وہ شخص جس کے بارے میں خلقِ خدا اپنے تجربے کی بنیاد پر بخوبی جانتی ہو کہ یہ بددیانت ہے، رشوت خور ہے، اس کا کاروبار ناجائز ذرائع آمدنی سے پھلا پھولا ہے، مگر ایسا شخص سینہ پھلا کر باآواز بلند دھاڑتا پھرتا ہے کہ، کون ہے جو مجھے مجرم ثابت کر سکے، کیا ثبوت ہے تم لوگوں کے پاس، جائو عدالت میں جائو۔ ہر وہ پٹواری جس نے لوگوں سے معاملاتِ زمین میں براہِ راست رشوت پکڑی ہوتی ہے، ہر وہ تھانیدار اور تفتیشی جو قتل تک کے کیسوں میں رشوت لے کر کمزور کیس بناتا ہے۔
جو وقتِ مقررہ پر اپنے زیرِ سایہ چلنے والے جوئے کے اڈے، منشیات کے ڈیرے اور طوائفوں کی سپلائی والی کوٹھیوں سے بھتہ وصول کرتا ہے، وہ کسٹم کا اہلکار جس کے لین دین کے معاملات ایئر پورٹ پر تمام مسافر براہِ راست دیکھ رہے ہوتے ہیں، فیکٹریوں میں ٹیکس نظام کا متعین نمائندہ جو فیکٹری کے مالک کو دوہرا فائدہ پہنچاتا ہے، مال کم گنتا ہے تاکہ یہ بددیانت سرمایہ دار لوگوں سے سیلز ٹیکس وصول کرے اور حکومت کو نہ دے، اسسٹنٹ کمشنر سے چیف سیکرٹری تک، اے ایس پی سے آئی جی پولیس تک، سیکشن آفیسر سے سیکرٹری تک، سب انجینئر سے چیف انجینئر تک، اسسٹنٹ کلکٹر کسٹم سے ممبر کسٹمز اور اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس سے ممبر انکم ٹیکس تک، اسسٹنٹ اکائونٹنٹ جنرل سے آڈیٹر جنرل پاکستان تک، غرض ہر محکمے میں آفیسران کی ایک لمبی فہرست ہے، جو اس لوٹ مار میں درجہ بدرجہ اپنے زیرِ سایہ ملازمین سے اپنا حصہ مسلسل وصول کرتے چلے آ رہے ہیں اور خود بھی براہِ راست اس گنگا میں نہاتے ہیں۔
پاکستان میں کوئی سرکاری ملازمت ایسی نہیں ہے جس کے جائز ذرائع آمدن ایک سترہ گریڈ کے لیکچرار سے لے کر 21 گریڈ کے پروفیسر تک کی نوکری کرنے والوں سے زیادہ ہوں۔ پاکستان کی بڑی سے بڑی "عزت دار" نوکری میں فیڈرل سیکرٹری کی سطح کے آفیسر کو بھی گھر میں سرکاری ملازم، سرکاری گارڈ، سرکاری چوکیدار اور سرکاری ڈرائیور رکھنے کی قانونی سہولت حاصل نہیں ہے۔ صرف بیس گریڈ کے ہر آفیسر کو وہی اردلی الائونس ملتا ہے جو ایک پروفیسر کو بھی ملتا ہے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں واقع سرکاری آفیسران کی رہائش گاہوں پر کرفیو لگا کر اگر بیک وقت چھاپہ مارا جائے تو آپ کو ایسے بے شمار خانساماں، ڈرائیور، چوکیدار وغیرہ ملیں گے جنہیں ملازم تو دفتروں میں چپڑاسی کے طور پر رکھوایا جاتا ہے، لیکن وہ کام "صاحب بہادر" کے گھر پر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جو جتنا بڑا آفیسر ہوتا ہے، وہ اپنے زیرِ سایہ محکموں سے اپنے گھر میں کام کرنے کے لئے بھی ملازم منگواتا ہے یا پھر اپنے "خصوصی" ملازمین کا نام وہاں ملازمین کی فہرست میں درج کروا کر تنخواہ وصول کرتا ہے۔
میونسپل کمیٹیوں کے وہ خاکروب جنہیں سڑکیں صاف کرنا ہوتی ہیں، وہ صاحب بہادروں کے گھروں میں "خصوصی" خدمت سرانجام دیتے ہیں۔ اسی طرح شہروں کی تزین و آرائش کے لئے جو مالی رکھے جاتے ہیں، وہ ان آفیسران کی بڑی بڑی رہائش گاہوں کے سبزہ زاروں کی دیکھ بھال کے لئے تعینات کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ جو غیر قانونی ہے اب ایک معمول بن چکا ہے۔ اس معاملے میں تینوں مسلح افواج نے خود کو قانونی تحفظ دینے کے لئے ان مراعات کو نوکری کے لوازمات کا حصہ بنا لیا ہے۔
وہ سپاہی جو مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے گھر سے نکلا تھا، یونیفارم استری کرنے، بوٹ پالش کرنے، بیگم صاحبہ کا پرس اُٹھانے، سبزی خریدنے، جیسے کاموں میں زندگی گزار کر سرکار سے پنشن لے کر گائوں واپس آ جاتا ہے۔ چونکہ افواج کا ڈسپلن ایسا ہے کہ اگر کوئی آفیسر مقرر شدہ افراد سے زیادہ یا منظوری کے بغیر بیٹ مینوں کو گھر پر رکھ لے تو پھر ایسی صورت میں اس کے اپنے "حاسدین" ہی اس کا کیریئر تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے قانون بنا کر اسے نوکری کے "لوازمات" میں شامل کر لیا ہے۔ عدلیہ جس کے بارے میں پولیس رولز کے "گاردات" والے حصے میں ہدایات دی گئی ہیں، ان کے مطابق اگر عدالت میں چھٹیاں ہوں تو وہاں سے پولیس گارڈ ہٹا لینی چاہئے۔
قانون میں کسی مجسٹریٹ، "مرحوم ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ"، جج یا چیف جسٹس تک کے لئے بھی کبھی ذاتی گارڈ کا کوئی تصور نہیں ملتا تھا۔ بلیو بُک (Blue Book) جو اہم شخصیات کے تحفظ کی کتاب ہے، وہ صرف اور صرف دو شخصیات کو پہچانتی ہے، ایک صدر اور دوسرا وزیر اعظم یا پھر مہمان صدر یا وزیر اعظم جن کے لئے بے شمار حفاظتی انتظامات قانونی طور پر ضروری بتا دیئے گئے ہیں۔ لیکن "خوف" کو اس طرح اس ملک میں بیچا گیا ہے کہ اب آپ کو پولیس اور انتظامیہ کے ضلعی آفیسران سے لے کر ہوم سیکرٹری، چیف سیکرٹری، آئی جی، وزرائ، وزرائے اعلیٰ اور عالی مرتبت جج حضرات کے ساتھ باقاعدہ علیحدہ علیحدہ اسکوارڈ کی گاڑیاں نظر آئیں گی۔
"خوف" کی یہ مضحکہ خیز صورتحال اگر آپ نے ملاحظہ کرنا ہو تو لاہور کے "جی او آر" ون میں داخل ہو جائیں۔ دہشت گردی کے خطرے کی وجہ سے اس کے چاروں طرف 2008ء میں اونچی اونچی دیواریں بنائی گئیں۔ اس سے پہلے "جی او آر" کی تمام سڑکیں مال روڈ سے نظر آتی تھیں اور دیکھنے والے اس "جنتِ ارضی" کو دُور سے دیکھ کر مرعوب ہوا کرتے تھے۔ ان بلند و بالا دیواروں پر مستقل گارڈ متعین کئے گئے ہیں۔ یہ بانکے پہرے دار چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں۔
دونوں بڑے دروازوں پر فول پروف چیکنگ کا انتظام ہے اور کوئی شخص وہاں اس طرح داخل ہوتا ہے جیسے جہاز میں سوار ہونے والا داخل ہوتا ہے۔ اتنی بڑی حفاظتی فصیل کے بعد ظاہر بات ہے اندر کسی گارڈ روم یا گارڈ کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن کمال دیکھیے کہ آپ کو وزیر اعلیٰ کے دفتر، چیف سیکرٹری، آئی جی، ہوم سیکرٹری، کمشنر لاہور اور ڈپٹی کمشنر لاہور کی رہائش گاہوں کے علاوہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ درجن بھر ججوں اور سپریم کورٹ کے ریسٹ ہائوس پر بھی فی عمارت چار یا چار سے زیادہ گارڈ بھی ملیں گے اور اس محفوظ ترین فصیل کے اندر بھی ان کے گارڈ روم ایک "دلکش" نظارہ پیش کر رہے ہوں گے۔
اس کے بعد سکیورٹی کا ایک ہی مرحلہ باقی رہ جاتا ہے جس کی وضاحت کے لئے ایک واقعہ سنانا ضروری ہے۔ احمد بخش لہڑی ڈپٹی کمشنر قلات تھے۔ ان کے پاس بلوچستان کے علاقے جھالاوان کے ایک مشہور زہری قبیلے کے سردار اور ان کے بھائی میٹنگ کے لئے آئے۔ دونوں بھائی بلوچستان کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں، بلکہ ان میں سے ایک بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بھی رہ چکا ہے۔ میٹنگ طویل ہو گئی، اور رات پڑ گئی۔ دونوں بھائیوں نے کہا کہ ہم شہر میں اپنے اپنے دوستوں کے ہاں رات گزاریں گے۔
احمد بخش لہڑی نے کہا کہ ڈی سی ہائوس بہت بڑا ہے، میں آپ کو نہیں جانے دوں گا۔ بلوچی روایات کے مطابق انکار ناممکن تھا۔ دونوں بھائی ڈی سی ہائوس کے علیحدہ علیحدہ کمروں میں سوئے، لیکن دونوں نے اپنے کمروں کے اندر اپنے گن مینوں کو بھی سُلایا یا پھر انہیں جاگ کر ڈیوٹی دینے پر مامور کیا۔ پاکستان کی اس "نازک مزاج" خوفزدہ اشرافیہ پر اب صرف یہ وقت آنا باقی ہے کہ سکیورٹی گارڈ ان کے گھروں میں بھی طواف کرتے پھریں۔
یہ سب کچھ اب قانونی بنا دیا گیا ہے اور اب اگر خوش قسمتی سے اس ملک میں دہشت گردی ختم بھی ہو جائے تو یہ سکیورٹی گارڈ اب کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ یہ سب کچھ قانونی تو ہو چکا ہے مگر اس سے ان آفیسران کی تنخواہوں میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ حیرت کا عالم یہ ہے کہ ایک جیسی تنخواہ کے باوجود ان آفیسران کی جائیدادوں کا تو کوئی حساب نہیں ہوتا اور ان کے برابر تنخواہ لینے والا پروفیسر ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سستے کرائے والا مکان ڈھونڈھ رہا ہو۔ (جاری ہے)