بددیانتی کی جو پنیری سرکاری دفاتر کی نچلی سطح پر پورے ملک میں پہلے سے موجود تھی، اسے نشوونما پانے اور بڑے خاردار درخت بننے کے لئے باقاعدہ سرپرستی اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ قیامِ پاکستان کے پہلے چالیس سالوں میں کرپشن کو ایک خوفناک زہر آلود پودے کی طرح سمجھا جاتا رہا، یہی وجہ ہے کہ سیاسی اور انتظامی سطح پر جتنا ممکن ہو سکا اس کو تلف کیا جاتا رہا۔ اس دَور میں پاکستان کے تمام ادارے خود احتسابی کے شاندار اُصولوں پر کاربند تھے۔
اس مقصد کے لئے کسی قسم کے احتساب یا اینٹی کرپشن کی غرض سے کوئی علیحدہ محکمہ قائم کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ صوبائی سطح پر پولیس کے محکمے میں ایک چھوٹا سا سیل ہوتا تھا جس کی سربراہی ایک ایس پی کرتا، جو کہ 1956ء تک تقریباً غیر متحرک ہی رہا۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد چیف سیکرٹری کے ماتحت ایک اینٹی کرپشن کا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا جسے مروّجہ قوانین یعنی تعزیراتِ پاکستان کے تحت ہی ہدایات ملتیں اور وہ چھاپہ مار کر رشوت لیتے ہوئے کسی اہلکار کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے۔
آٹھ ستمبر 1961ء کو اینٹی کرپشن آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کے تحت رولز چار سال بعد 1965ء میں بنائے گئے۔ کرپشن اس وقت چونکہ اس ملک کا ایک اہم مسئلہ نہیں تھا، اسی لئے نو سال بعد 1974ء میں ضلعی اور ڈویژنل سطح پر کمیٹیاں قائم کی گئیں جو سرکاری رپورٹوں کی بنیاد پر فیصلے کرتی تھیں کہ کس اہلکار کے خلاف کرپشن کی کارروائی کرنا ہے۔ یہ کمیٹیاں 1985ء تک چلتی رہیں۔
محکمانہ سطح پر کارروائیاں ہوتیں، لوگ سزا پاتے اور شاذونادر ہی کوئی ایسا ہوتا، جس کی کرپشن کی داستانیں اس قدر زبان زدِ عام ہوتیں کہ اُسے اینٹی کرپشن پولیس کے حوالے کرنا پڑے۔ محکموں میں بددیانت آدمی دُور سے پہچانا جاتا تھا، کیونکہ اس کے بارے میں ایک عمومی فضا موجود ہوتی تھی۔ گلی محلوں میں لوگ بددیانت اہلکار کو اس کے معیارِ زندگی میں اچانک تبدیلی کی وجہ سے فوراً پہچان لیتے تھے۔
پاکستان میں کرپشن، بددیانتی اور چور بازاری کی کھلے عام نشوونما اور سرپرستی 1985ء کی اسمبلی کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوئی جس نے اس ملک کو "شریف خاندان" تحفے میں دیا۔ نواز شریف صاحب نے صوبہ پنجاب میں پرانے رولز ختم کر کے 1985ء میں نئے رولز نافذ کئے۔ ان قوانین کے تحت اب کیس درج کرنے کے ساتھ ساتھ سزا و جزا کا اختیار سیاسی قیادت کو مل گیا۔ اب تک پاکستان میں کرپشن صرف اختیارات کے اعلیٰ سطح پر ناجائز استعمال کے طور پر ہوتی تھی۔
پٹوار خانے، تھانے، انکم ٹیکس دفاتر اور کسٹم کی چیک پوسٹیں وغیرہ۔ ترقیاتی منصوبے صوبائی سطح پر لوگوں کی ضروریات کے مطابق بنائے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان چالیس سالوں میں پاکستان کی صنعتی اور زرعی ترقی ایسے عروج پر تھی کہ دُنیا بھر کی ترقیاتی معاشیات (Developmental Economics) کی کتابوں میں پاکستان کے صنعتی و زرعی انقلاب کو ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہا، جیسے آج کل جنوبی کوریا، ملائیشیا، برازیل اور دبئی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ انگلینڈ میں قائم، انگلش لینگوئج بک سوسائٹی (ELBS)ایک بہت بڑے پبلشنگ ادارے "میکملن" (Machmillan) کے ساتھ مل کر دُنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے لئے نصاب کی کتابیں چھاپتی چلی آ رہی ہے۔
"ترقیاتی معاشیات" کی کورس کی کتاب جو ہم نے پڑھی تھی، اسے میں نے آج تک اپنے پاس یوں سنبھال کر رکھا ہوا ہے جیسے کسی تباہ شدہ گھر سے برآمد ہونے والا کوئی ہیرا ہو۔ کتاب کا نام "Economic Theory and The Developing Countries" ہے اور اسے دِلّی کے "Institute of Economic Growth" کے پروفیسر اجیت کے داس گپتا نے تحریر کیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1974 میں شائع ہوا۔ اسے بیچنے کے حقوق "لندن اینڈ بیسنگ سٹوک" (London and Basingstoke) کمپنی کو حاصل تھے۔ یہ 129 صفحات پر مشتمل ایک چھوٹی سی کورس کی کتاب، جسے ستر کی دہائی میں ہر ملک میں معاشیات کا طالب علم پڑھتا تھا۔
اس کتاب میں پاکستان کے صنعتی اور زرعی انقلاب کو معاشی ترقی کے بہترین ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ فخر کی بات یہ تھی کہ اسے تحریر کرنے والا بھارت کا ایک پروفیسر تھا۔ یہ کتاب آخری دفعہ 1982ء میں چھپی اور پھر اس کے بعد پاکستان پر بددیانتی، کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ مار کی ایسی گھٹا ٹوپ اندھیر نگری چھائی کہ پھر اس بدقسمت ملک کا ذکر ترقی کے ماڈل کے طور پر نہیں بلکہ بددیانتی کے ناسوروں میں کیا جانے لگا۔
بددیانتی اور کرپشن کا آغاز 1985ء میں ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر فنڈ سے ہوا۔ ہر ایک سیاست دان کے ہاتھ میں اس ملک کا کروڑوں روپے کا ترقیاتی فنڈ آ گیا۔ اس کے بعد یہ سیاست دان حسبِ ضرورت اور حسبِ منشاء ایسے محکموں کی تلاش میں نکل پڑے جو زیادہ سے زیادہ "کک بیک" یا زیادہ سے زیادہ فیصد (Percentage) دیتے تھے۔ ملک سے اجتماعی منصوبہ بندی رُخصت ہو گئی اور عوام کا پیسہ ایسے "رہنمائوں " کے ہاتھ میں آ گیا جنہوں نے اسے جی بھر کے برباد کیا۔ کسی گائوں میں ایک ایم پی اے نے سکول کی عمارت بنوائی تو وہاں کے ایم این اے نے بھی ضد میں آ کر چند میل کے فاصلے پر ایک اور عمارت بنوا دی۔
1985ء سے 1990ء تک بلوچستان میں ساڑھے چار سو ڈسپنسری کی عمارتیں بغیر کسی پلاننگ کے بنائی گئیں۔ سالانہ بجٹ میں صرف 25 ڈسپنسری فی سال ڈاکٹر، نرس اور ادویات کا بجٹ دینے کی گنجائش موجود تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ آخری 25 ڈسپنسریوں کو اٹھارہ سال بعد یہ عملہ میسر آتا۔ اس وقت تک اس کی اینٹیں اور کھڑکیاں دروازے تک لوگ لے جا چکے ہوتے اور ایم پی اے موصوف اور انجینئرز حضرات کرپشن کے پیسے سے اللّے تللّے کرنے کے بعد قبر میں سو چکے ہوتے۔
1985ء کے ایم پی اے فنڈ کے آغاز کے ساتھ ایک اور بیماری نے دیمک کی طرح اس ملک کے ہر محکمے کو اخلاقی طور پر زمین بوس کر دیا اور وہ تھی، "سیاسی وفاداری"۔ اس ملک کی تمام انتظامیہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نامی دو دھڑوں میں وفاداریوں کے حوالے سے تقسیم کر دی گئی۔ پوسٹنگ، ٹرانسفر یہاں تک کہ بھرتی بھی سفارش اور رشوت سے ہونے لگی۔ ایک پارٹی کا دَور آتا تو اس کے زیرِسایہ افراد خوب مال بناتے اور اپنے سرپرستوں کی جیبیں بھی بھرتے اور دوسری پارٹی کا دَور آتا تو پہلے والے اس طرح چُپ سادھ لیتے جیسے سانپ سردیوں میں بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ آج کرپشن کا یہ "کینسر" اس ملک کی رگ و پے میں مکمل طور پر سرایت کر چکا ہے۔
اس کینسر کا علاج بھی ایسا ہی ہے جیسا جسمانی کینسر کا ہوتا ہے، یعنی ایسے حصے کو کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیا جائے، بلکہ اردگرد کے گوشت میں بھی اگر تھوڑے سے اثرات نظر آئیں تو اسے بھی ساتھ ہی کاٹ دیا جاتا ہے۔ 1985ء سے لے کر اب تک تمام پارلیمنٹیرین، بیس گریڈ سے اوپر کے سرکاری افسران، مارشل لاء کے دوران سول عہدوں پر فائز فوجی افسران، ریٹائرڈسیشن جج اور بالا جسٹس حضرات کی تعداد زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار ہے۔
اس ملک میں وہی قانون نافذ کیا جائے جو سنگا پور کی اصلاح کے لئے "لی کوآن ہو" نے نافذ کیا تھا یعنی کرپشن کی سزا موت۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد پاکستان کے 160 اضلاع میں سے ہر ایک ضلع میں ایک عدالت صرف تین ماہ کے لئے قائم کی جائے جو روزانہ کے حساب سے مقدمات سنے۔ کسی پراسیکیوشن کی ضرورت نہیں، کوئی کیس فائل بنانے کی حاجت نہیں۔ ہر سیاست دان، بیوروکریٹ، فوجی افسر اور عدلیہ کے فرد سے دو کاغذات طلب کئے جائیں، پہلا یہ کہ 1985ء میں آپ اور آپ کے اہلِ خانہ کے اثاثے کیا تھے اور دوسرا یہ کہ اب 2022ء میں آپ لوگوں کے اثاثے کیا ہیں۔
جو اس تبدیلی کا ماخذ یا سورس نہ بتا سکے اس کی جائداد ضبط کر کے اور قانون کے مطابق اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ یہ تمام معاملہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں حل ہو سکتا ہے، لیکن ضروری شرط یہ ہے کہ ملک میں آئین کے تحت ایمرجنسی لگائی جائے اور تمام عدالتی اختیار اور "نام نہاد" انسانی حقوق معطل کئے جائیں۔ ایسا نہ کیا گیا تو وکلاء کی خدمات سے حاصل کیا گیا ایک سٹے آرڈر اس کینسر زدہ مریض کو پھر آپریشن تھیٹر سے نکال کر واپس دفاتر میں بھیج دے گا۔