وہ پشتون اور بلوچ قبائل جو ڈیورنڈ لائن کے آس پاس آباد ہیں، انہیں اس خطے میں برطانوی افواج کے لئے بنائی جانے والی ڈیڑھ سو سال پرانی چھائونیوں، سرحد کے ساتھ ساتھ تعمیر شدہ پکے مورچوں، یہاں تک کہ فوجی تربیت کے لئے بہترین اداروں کے قیام سے بخوبی اندازہ ہے، کہ برطانیہ نے یہ تمام اہتمام روس سے مقابلے کے لئے کیا تھا۔
برصغیر پر تاجِ برطانیہ کی مکمل عملداری ابھی قائم نہیں ہوئی تھی اور "ایسٹ انڈیا کمپنی" ہی ہندوستان برطانوی مفادات کا تحفظ کیا کرتی تھی، زارِ روس اس وقت سے بحرِاسود تک رسائی حاصل کر کے یا بحیرۂ عرب کی بندرگاہوں پر قبضے کے ذریعے گرم پانیوں تک پہنچنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ برطانیہ نے اس خواب کی تکمیل کا راستہ روکنے کیلئے ہندوستان کی مغربی سمت پہل کی اور جولائی 1839ء میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔
ڈیڑھ سالہ جنگ کے بعد اکتوبر 1842ء میں برطانیہ کو بدترین شکست ہوئی جس کا مشہور واقعہ کابل میں الفنسٹن (Elphinstone) کمپنی کے بیس ہزار برطانوی سپاہیوں کا قتل تھا۔ برطانیہ نے اپنی ہزیمت مٹانے اور روس کو باسفورس کے ساحلوں تک پہنچنے سے روکنے کے لئے کریمیا کا محاذ کھولا تھا۔ یہاں معاملہ مختلف ہوا اور کریمیا میں برطانیہ جیت گیا، جس کے بعد برطانیہ نے ایک بار پھر 1878ء میں افغانستان پر حملہ کر دیا، لیکن اس بار بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اب دونوں طاقتوں میں سکون آ گیا اور پہلی جنگِ عظیم شروع ہو گئی، اس دفعہ روس کو برطانیہ اور فرانس نے اپنے ساتھ ایک عسکری رومانس میں پھنسا لیا، جس کے تحت اس سے ایک وعدہ کیا گیا کہ جنگ جیتنے کے بعد بحرِاسود کی اجارہ داری روس کو دے دی جائے گی، باسفورس اس کے زیرِ نگیں ہو گا اور استنبول پر اس کا پرچم لہرائے گا، روس نے سر دھڑ کی بازی لگائی۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ فوجی روس کی جانب سے لڑے اور سب سے زیادہ نقصان بھی روس کا ہی ہوا۔
اس جنگ میں یوکرین کی آبادی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، 35 لاکھ نے روسی فوج کا ساتھ دیا جبکہ صرف ڈھائی لاکھ آسٹروہنگری سلطنت کی جانب سے لڑے۔ یوکرین کے محاذ پر آسٹروہنگری کے 3 لاکھ 24 ہزار سپاہی مارے گئے، دو لاکھ بیس ہزار زخمی ہوئے اور ڈھائی لاکھ قیدی بنا لئے گئے، جبکہ روس کے بھی ڈھائی لاکھ سپاہی مارے گئے اور چالیس ہزار قیدی بنا لئے گئے۔
روس نے اتنا بڑا نقصان اُٹھا کر اور اپنے اتحادی پولینڈ کو ناراض کرتے ہوئے یوکرین پر قبضہ کر لیا اور یوں وہ بحرِاسود کے ساحل پر جا پہنچا، جہاں سے استنبول سامنے دکھائی دیتا تھا۔ اب وعدہ کے ایفاء کا وقت آن پہنچا تھا۔ اگر اس وقت فرانس اور برطانیہ روس کو استنبول حاصل کرنے میں مدد کرتے تو، آج روس کو نہ صرف سمندری راستوں کا کوئی مسئلہ ہوتا، بلکہ وہ اس وقت ایک بہت بڑی سمندری قوت بن چکا ہوتا۔ یہاں پر برطانوی چالبازی، عیاری اور خفیہ سرگرمی نے اپنا کام دکھایا۔ اس برطانوی منصوبے میں اصل کردار روس، یوکرین، برطانیہ اور یورپ کے صہیونی یہودیوں نے ادا کیا۔ کارل مارکس جو نسلاً ایک یہودی تھا، لیکن اس کی کیمونسٹ تحریک نے نہ صرف یورپ بلکہ پوری دُنیا میں مزدور طبقات میں ایک بیداری کی لہر دوڑا رکھی تھی۔
کیمونسٹ مینی فیسٹو کے تحت اس تحریک کا لائحہ عمل دراصل مزدوروں کو منظم کر کے بزورِ قوت اقتدار پر قبضہ کرنا تھا تاکہ ایسی حکومت قائم کی جائے جو نجی ملکیت سے آزاد ہو اور جس میں ہر شخص برابری کی بنیاد پر حصے دار ہو۔ عوامی قوت سے اقتدار پر قبضہ کرنا کبھی بھی اتنا آسان نہیں ہوا کرتا۔ یہ اسی صورت ممکن ہوتا ہے، اگر باغیوں کو اسلحہ، پناہ گاہیں اور بہت حد تک کسی بیرونی فوج یا حکومت کی مدد حاصل ہو۔ ادھر زارِ روس کے ساتھ وعدے کے ایفاء کا وقت قریب آیا اور ادھر برطانیہ نے خفیہ طور پر روس اور یوکرین کے یہودیوں کو بالشویک انقلاب کا ہراوّل دستہ بننے کو کہا۔
روس کے یہودیوں کے ساتھ فرانس، جرمنی، آسٹریا اور دیگر ممالک کے صہیونی بھی مل گئے۔ اس ساری کارروائی کی خفیہ سربراہی ایم آئی سکس کے ذمہ تھی۔ ایسا کرنے کے انعام میں برطانیہ ایک خفیہ معاہدے کے تحت یہودیوں کو اسرائیل میں آباد کرنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی کے انقلابیوں کا عملاً ساتھ روس کے یہودیوں نے دیا اور فرانس اور برطانیہ نے اپنی افواج کے دستوں کو محاذِ جنگ سے نکال کر کیمونسٹ انقلابیوں کے بہروپ میں وہاں بھیج دیا، جس کے نتیجے میں اکتوبر 1917ء میں کیمونسٹ انقلاب پوری قوت سے برپا ہوا اور زارِ روس کی حکومت ختم کر دی گئی۔ اس کے پورے خاندان کو انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ ہر وہ روسی سرمایہ دار جو بحرِاسود کے ذریعے تجارت کا خواب دیکھ سکتا تھا، اس سے دولت اور وسائل چھین لئے گئے۔
کیمونسٹ انقلاب آیا، تو اس نے سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ جنگ صرف اور صرف کیمونسٹ انقلاب کے لئے ہونی چاہئے اور موجودہ جنگ چونکہ بادشاہتوں کی جنگ ہے، اس لئے روس اس جنگ سے نکلنے کا اعلان کرتا ہے۔ اب استنبول کو روس کے حوالے کرنے کا وعدہ یاد دلانے والا حکمران ہی باقی نہ رہا، پیچھے رہ گئے آرتھوڈوکس چرچ کے وہ پادری جو سلطان محمد فاتح کے زمانے میں وہاں سے نکالے گئے تھے اور وہ مسلسل واپسی کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کے ساتھ کیمونسٹ انقلابیوں کے ہاتھوں بدترین سلوک کروایا گیا۔
پورے سوویت یونین کے تمام گرجا گھروں پر تالے لگا دیئے گئے۔ صلیب لٹکتی رہی لیکن ماننے والا کوئی نہ تھا، چرچ کی گھنٹیاں تھیں لیکن بجانے والا کوئی نہ تھا۔ کیمونسٹ انقلاب کے بعد مشرقِ وسطیٰ پر اقتدار کی وہ جنگ جو کریمیا کی جنگ سے شروع ہوئی تھی اب اس کے دعویدار فرانس اور برطانیہ ہی رہ گئے جنہوں نے خلافتِ عثمانیہ کو کیک کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر کے آپس میں بانٹ لیا۔
برطانیہ کے ہاتھ میں حجاز، عرب، اُردن، مصر اور عراق وغیرہ آئے جبکہ شام اور لبنان فرانس کے حصے میں آئے۔ اس عظیم خفیہ کارنامے کے صلے میں 2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور (Arthur Balfour) نے مشہور یہودی خاندان روتھ شیلڈ کو خفیہ خط کے ذریعے وعدہ کی تصدیق پہنچائی اور کہا کہ برطانیہ تسلیم کرتا ہے کہ دُنیا بھر میں آباد تمام یہودی ایک قوم ہیں اور انہیں واپس اپنے وطن فلسطین میں جانے کا حق حاصل ہے جہاں سے وہ 70ء عیسوی میں نکالے گئے تھے اور اس سلسلے میں تاجِ برطانیہ ان کی مکمل مدد کرے گا۔
کیمونسٹ انقلاب، زارِ روس کی حکومت کے خاتمے اور روس کو باسفورس کی کشمکش سے علیحدہ کرنے کے صلے میں جب 14 مئی 1948ء کو اسرائیل بنا تو روس کے اکثر یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا۔ قیام کے شروع کے چند سالوں میں تو اسرائیل ایسے لگتا تھا جیسے یہ روس کا کوئی حصہ ہے۔ ان بے وفائیوں اور دھوکوں کے بعد سے آج تک کی تاریخ جدید دَور کی کشمکش اور سرد جنگ کی تاریخ ہے۔
روس جب تک اپنی کیمونزم کے نفاذ میں مگن رہا، اسے بالکل نہیں چھیڑا گیا لیکن جیسے ہی کیمونسٹ روس نے بھی پیٹر دی گریٹ کی طرح گرم پانیوں کا خواب دیکھنا شروع کیا اور بحرِاسود یا بحیرۂ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے 1979ء میں افغانستان میں افواج داخل کیں تو برطانیہ نے اپنے اتحادیوں کو اپنا وہ وعدہ یاد دلایا کہ جو اس نے گندمک معاہدہ کرتے ہوئے پس پردہ روس اور دیگر اتحادیوں سے لیا تھا، جس کے نتیجے میں افغانستان ایک آزاد خود مختار ریاست بنا دی گئی تھی۔ اعلان یہ تھا کہ اگر روس نے دریائے ایموں (Oxus) عبور کیا تو پھر جنگ چھڑ جائے گی۔ روس نے دریائے ایموں دسمبر 1979ء میں عبور کیا اور پوری دُنیا اس پر ٹوٹ پڑی اور اسے ایسی شکست دی کہ اس کے حصے بخرے ہو گئے۔
یوکرین کی تازہ 2022ء کی جنگ کے دوران روس میں آج وہی چالیس پرانے زخم ہرے ہو چکے ہیں اور ہر خاص و عام میں صرف ایک ہی تصور شدید گہرا ہے، ایک ہی نعرہ گونجتا ہے کہ جب تک برطانیہ اس دُنیا میں موجود ہے ہم روسی امن سے نہیں رہ سکتے۔ (جاری ہے)