Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bartania Roos Nafrat Ka Alao Aur Teesri Alamgir Jang (3)

Bartania Roos Nafrat Ka Alao Aur Teesri Alamgir Jang (3)

روس اور برطانیہ کی چپقلش صدیوں پرانی ہے۔ یہ کبھی خالصتاً دو بادشاہتوں کی جنگ تھی تو کبھی دو عیسائی فرقوں کی لڑائی۔ یورپ میں رنگ، نسل، زبان اور قومیت کی بنیاد پر لڑی جانے والی دو عالمی جنگوں کے بعد، روس اور مغربی دُنیا کے درمیان پچھتر سالہ سرد جنگ کا موسم بھی کم خوفناک اور خونخوار نہیں تھا۔ گذشتہ ایک صدی میں تمام ہولناک جنگوں کا آغاز بھی یورپ سے ہوا اور اس کا مرکز و محور بھی یہی عالمی طاقتیں تھیں۔

سرد جنگ میں انہوں نے اپنی لڑائی کے لئے غریب مگر وسائل سے مالا مال ممالک کو مرکز بنا لیا، لیکن اب یہ آگ واپس اپنے مرکز یورپ کو لوٹ چکی ہے، جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ یہ بہت خطرناک موڑ ہے کیونکہ تمام ممالک نے گذشتہ 75 سال میں آلاتِ حرب کی ٹیکنالوجی میں اس قدر مہارت حاصل کر لی ہے کہ چند سیکنڈوں میں پوری دُنیا تباہ ہو سکتی ہے۔ یورپ کو ہمیشہ لڑنے کا بہانہ چاہئے ہوتا ہے، کسی دوسرے کی سرزمین پر لڑے یا پھر اپنا ہی گھر پھونک کر تماشا دیکھے۔

دُنیا کی سب سے طویل اور مسلسل جنگ برطانیہ اور فرانس کے درمیان 24 مئی 1337ء سے 19 اکتوبر 1453ء تک 116سال لڑی جاتی رہی۔ گذشتہ صدی جسے جدید تہذیب کی مہذب ترین صدی کہا جاتا ہے، اس کا آغاز بھی ایک عالمی جنگ سے ہوا تھا اور اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق ان 120 سالوں میں بیس کروڑ کے لگ بھگ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ بے گھر ہونے والوں، زخمیوں اور معذوروں کی تو گنتی ہی ممکن نہیں۔

نفرت کی پرانی داستانیں اور ایک دوسرے پر ظلم کے قدیم قصے یورپ میں ایک بار پھر دہرائے جا رہے ہیں۔ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ پورے یورپ میں قائم شدت پسند مسلح دستے، جنہیں دائیں بازو کے ملیشیا کہا جاتا ہے، وہ اب یوکرین پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ انہی کی دیکھا دیکھی یوکرین کی افواج نے بھی گول دائرے میں لکیروں والا وہ نشان پہننا شروع کر دیا ہے جو نیوزی لینڈ کی مساجد پر پچاس مسلمانوں کو شہید کرنیوالے آسٹریلوی قاتل نے پہنا تھا۔

اس نشان کو سیاہ سورج (Black Sun) کہا جاتا ہے جو جدید نازیوں (Neo Nazism) کی علامت ہے جسے یورپ کے تمام ممالک میں سفید فام برتری والے ملیشیا پہنتے ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں حصہ لینے کا آغاز فرانس اور فن لینڈ کی دائیں بازو کی ملیشیا تنظیموں نے کیا اور اس کے بعد پورے یورپ سے سینکڑوں "سفید فام جہادی" یوکرین پہنچ چکے ہیں۔ برطانیہ میں وہ مسلح گروہ الفامین اسمبل (Alpha Men Assemble) جس نے کرونا کے دوران ایک طوفان برپا کیا تھا، وہ بھی یوکرین کی لڑائی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔

صورتِ حال بالکل ویسی ہی ہے جیسی 1979ء کے افغانستان کی تھی۔ جیسے افغانستان کے لئے دُنیا بھر کے مسلمان جہادی اکٹھے کئے گئے تھے اسی طرح یوکرین کی جنگ میں یورپ اور امریکہ سے سفید فام تعصب کے علمبردار مسلح افراد وہاں پہنچائے جا رہے ہیں۔

حکومتوں کی سطح پر یوکرین میں جاری لڑائی کے لئے اسلحے کی ترسیل مسلسل جاری ہے۔ یورپی یونین نے پہلی قسط کے طور پر 503 ملین یورو کا اسلحہ یوکرین پہنچانا شروع کر دیا جس میں ٹینک شکن میزائل کے ساتھ ایئر ڈیفنس سسٹم بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ پچاس ملین یورو پٹرول اور فسٹ ایڈ کے سامان کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ چونکہ یوکرین کی فضا پر روسی فوجی طیاروں کا کنٹرول ہے اس لئے اسلحہ کو پولینڈ میں جمع کیا جاتا ہے اور وہاں سے اسے مشکل ترین پہاڑی راستوں سے گزارنا پڑتا ہے، جو رومانیہ یا سلواکیہ سے ہو کر گزرتے ہیں اور یہ راستے بیلا روس کے بالکل قریب ہیں۔

خطرہ یہ ہے کہ اگر روس نے ان قافلوں کو بمباری کے ذریعے روکا تو پھر کیا ہو گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو وہ تمام جنگجو جو یورپ سے جا کر وہاں لڑ رہے ہیں اور یوکرینی افواج کے ہمراہ سب کے سب نہتے ہو جائیں گے۔ یورپی یونین کے اسلحے کی اسی مدد کے تحت یوکرین اب تک روس کے بیس طیارے گرا چکا ہے اور ایئر ڈیفنس سسٹم کی بدولت روس اس قابل نہیں ہو سکا کہ وہ یوکرین کی ایئر فورس کو مکمل طور تباہ کر سکے۔ یورپ کے چودہ ممالک وہاں اسلحہ سپلائی کر رہے ہیں۔ جرمنی نے 500 سٹنگر میزائل اور ایک ہزار ٹینک شکن میزائل بھیجے ہیں، جن میں دُنیا کا سب سے کارگر جیولین (Javelin) میزائل شامل ہے جس کی وجہ سے یوکرین نے روسی ٹینکوں کی خاصی تعداد تباہ کی ہے۔

اسلحے کی ترسیل کے ساتھ ساتھ روس کے خلاف معاشی پابندیوں سے اسے مجبور اور محصور کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں سب سے پہلے برطانیہ اور امریکہ نے اقدامات کئے۔ برطانیہ نے ان تمام روسی سرمایہ داروں کے اکائونٹ منجمد کر دیئے جو وہاں کاروبار کرتے تھے۔ یہ اثاثے تقریباً دس ارب ڈالر بنتے ہیں۔ نہ صرف ان کے سرمائے پر پابندی لگائی گئی بلکہ گذشتہ روز نو مارچ کو ایک روسی سرمایہ دار کا ذاتی جہاز بھی قبضے میں لے لیا گیا جو وہاں پرواز کر رہا تھا۔

ترکی یوکرین کو ڈرون بیچ رہا ہے جس کی قیمت خفیہ طور پر یورپی یونین کے ممالک ادا کر رہے ہیں۔ یوکرین کو اسلحہ کی ترسیل اور سرمائے کی فراہمی صرف یورپ تک محدود نہیں رہ گئی بلکہ کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر ممالک بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ یوں اب یہ جنگ صرف یوکرین اور روس تک محدود نہیں بلکہ دُنیا بھر اس میں ملوث ہو چکی ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا یہ ایک ایسی عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے جس میں ملکوں کی افواج آمنے سامنے ہو جائیں؟

امریکہ اور اس کے اتحادی ابھی تک یہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ ہم یوکرین کو اسلحہ پہنچاتے رہیں گے اور یورپ کے متشدد اور متعصب ملیشیا کے ارکان یوکرین کی افواج کے ساتھ لڑتے رہیں گے اور اس طرح ایک دن یوکرین روس کے لئے بالکل ویسا ہی ثابت ہو جائے گا جیسا سوویت یونین کے لئے افغانستان ہوا تھا۔ اس مماثلت میں دو بنیادی غلط فہمیاں ہیں جن پر شاید غور نہیں کیا جا رہا یا اگر غور کیا بھی گیا ہے تو اسلحے کے تاجروں نے اپنی ہوس کی وجہ اسے زیادہ اہمیت نہیں لینے دی۔

پہلی بات یہ ہے کہ یوکرین کی قوم پرستی کا افغانستان کے اسلامی جہاد سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ایک جانب موت کے بعد آخرت میں اجر کی تمنا ہے اور دوسری جانب اسی دُنیا میں فتح یا شکست۔ دوسری بات یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین کے نشیب و فراز اور قبائلی زندگی جنگ کیلئے انتہائی سازگار تھی جبکہ یوکرین کا میدان تو ہر فاتح کیلئے ہمیشہ ایک نرم چارہ رہا ہے۔ یوکرین کے لوگ جدید سہولتوں والی زندگی کے نازونعم میں پَلے ہوئے ہیں اور ان کیلئے جنگ میں زیادہ دیر کھڑے رہنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لیکن اس تمام صورتِ حال میں ایک بات جس کا خوف اس وقت دُنیا بھر پر طاری ہے اور وہ یہ کہ روس نہ تو سوویت یونین کی طرح ایک نظریاتی ملک ہے کہ کافی سوچ بچار کے بعد افغانستان سے نکل آئے اور مزید جنگ کو آگے نہ بڑھائے اور نہ ہی وہاں اب گوربا چوف جیسی کمزور قیادت برسراقتدار ہے۔

آج کا روس اب ایک قوم پرست متعصب روس ہے، جس کے پیچھے آرتھوڈوکس چرچ کا مذہبی تعصب بولتا ہے اور اس کی قیادت پیوٹن کے ہاتھ میں ہے جس کے رویوں سے مغرب خوب سمجھتا ہے کہ وہ شکست سے بچنے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے، خواہ اسے امریکہ کی طرح ایٹمی ہتھیار کیوں نہ استعمال کرنا پڑیں۔ ایسی صورتِ حال میں روس کا صرف اور صرف ایک ہی نشانہ ہو سکتا ہے اور وہ ہے برطانیہ۔

باقی یورپی ممالک اس سے گیس، تیل اور گندم کیلئے محتاج ہیں اور اپنی پالیسی بدل سکتے ہیں، لیکن انگلینڈ اس محتاجی سے آزاد ہے۔ انگلینڈ کا جاپان جیسا حشر کسی بھی وقت جنگ کا پانسہ پیوٹن کے حق میں پلٹ دے گا اور پھر دوسری جنگِ عظیم تو ختم ہو گئی تھی، اس کا انجام خوفناک ہو گا۔ (ختم شد)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.