جو جانتا ہے، حالات سے باخبر ہے، لوگوں سے کٹا ہوا نہیں ہے، وہ بہت پریشان ہے، اس کی راتوں کی نیندیں حرام اور دنوں کا چین برباد ہے۔ صرف ایک لمحے کو سوچئے کہ کل اگر پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو پورے ملک میں کسی ایک ادارے کی بھی غیر جانبداری ایسی ہے کہ وہ حالات سنبھالنے کے لئے آگے بڑھے تو لوگ اس پر اعتبار کریں۔
میں پوری دیانت داری سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ملک گیر صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے جس کا دائرہ ہر خاص و عام تک وسیع ہو، تو پھر شاید کسی ادارے کے بھی بس میں نہیں ہو گا کہ اسے کنٹرول کر سکے۔ کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کا ایک سپاہی جو چوراہے پر کھڑا ہوتا ہے، اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ لوگ اس کا حکم اس لئے مانتے اور اس سے چھیڑ چھاڑ اس لئے نہیں کرتے کہ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے پوری ریاست کی طاقت کھڑی ہے۔
کیا آج پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بھی ببانگِ دہل یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ گلگت سے لے کر گوادر تک لوگ اس پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور اسے اپنا مسیحا خیال کرتے ہیں۔ شاید اس وقت کوئی ایک بھی نہیں۔ اس خوفناک صورتِ حال کے ذمہ دار سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ادارے خود بھی ہیں جو اس زوال کے ذمہ دار ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے فوراً بعد کے چند دن، گلی کوچوں میں جو جذباتی صورتِ حال اور زہر آلود فضا تھی، اسے ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت اور اس کو اقتدار منتقل کرنے نے ٹھنڈا کر دیا تھا۔
بھٹو کو جو کچھ بھی کہا جائے، لیکن وہ سیاستدانوں کی ایک اس نسل سے تعلق رکھتا تھا کہ جن کا جینا مرنا اس ملک سے وابستہ تھا۔ اس کی زندگی کا محور "ستر کلفٹن" تھا، کوئی "سرے محل" یا "ایون فیلڈ اپارٹمنٹس" نہیں تھے۔ پاکستان میں آج کوئی سیاست دان ایسا نہیں ہے کہ اس آتش فشاں کی طرح اُبلنے والی صورتِ حال کو کنٹرول کر سکے۔
عمران خان کو باڑ کی دوسری سمت دھکیل دیا گیا ہے اور باقی پارٹیاں جمہوری نظام کی لاش بھنبھوڑ رہی ہیں۔ "پاکستان کھپے" کے نعرے سے اب شاید فائر بریگیڈ کا کام نہ لیا جا سکے۔ اس نعرے کو بلند ہوئے اب پندرہ سال بیت چکے۔ اس کے بعد بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکیں چلیں، تحریکِ طالبان پاکستان نے زور پکڑا، سوات آپریشن ہوا۔
بے نظیر سانحے سے پہلے دھماکوں میں صرف چند سو لوگ مارے گئے تھے، لیکن اب ان کی تعداد ستر ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس وقت تک آپریشن میں صرف چند فوجی جاں بحق ہوئے تھے مگر اب ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ پورے ملک میں صرف ایک درجن لاپتہ افراد بھی نہیں تھے جبکہ اب تو ان پر ایک کمیشن قائم ہے، اور تعداد کا کوئی حساب نہیں۔ اس سب کے باوجود، 27 دسمبر 2007ء سے پاکستان کھپے کے نعرے تک جو چند دن گزرے، ان میں پاکستان خصوصاً سندھ کے حالات 1947ء کے فسادات سے بھی زیادہ برے تھے۔
ریلوے اسٹیشنوں، گھروں، بینکوں اور سرکاری عمارتوں کو آگ لگ رہی تھی، لوگ مارے جا رہے تھے، یہاں تک کہ راہ چلتی نہتی خواتین کو جنسی زیادتی کا شکار بنایا جا رہا تھا۔ اگرچہ ایک فوجی جرنیل مشرف برسرِ اقتدار تھا، لیکن اس نے اپنے بچائو کے لئے سامنے قاف لیگ کو ریت کی بوری کے طور پر رکھا ہوا تھا، یہی وجہ ہے، نفرت کے طوفان کا سارا زور، قاف لیگ پر ٹوٹا۔
مشرف نے دانشمندی یہ کی کہ فوراً الیکشن کروا دیئے۔ لوگوں میں جو غم و غصہ تھا وہ الیکشنوں کے ہنگاموں میں بٹ کر کم ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کے حکومت سنبھالنے سے یہ آگ مکمل طور پر سرد ہو گئی۔ بالکل ویسے ہی جیسے 1988ء میں ضیاء الحق کے طیارہ حادثے کے بعد جو ایک بے یقینی پیدا ہوئی اور سیاسی اُبال اُٹھا، اس وقت اسلم بیگ نے طالع آزمائی نہیں کی اور تمام سیاسی رہنمائوں اور اسٹیبلشمنٹ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ بے نظیر کو فوراً حکومت بنانے دی جائے اور اس کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔
ایوانِ صدر میں حلف برداری کے وقت جئے بھٹو کے چند نعرے برداشت کر لئے گئے، مگر اس برداشت کے نتیجے میں ملک اگلے بیس سالوں تک پُر امن ہو گیا۔
آج نہ ویسے دُوربین سیاست دان باقی ہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا دامن صاف ہے۔ آصف زرداری کی پریس کانفرنس میں ان کی کھلکھلاہٹ کے پیچھے جو پوشیدہ سازش نظر آئی ہے وہ اس ملک کو ایک خوفناک صورتِ حال کا شکار کرنے کا پلان ہے۔ وہ الیکشن اور نیب قوانین میں ترمیم کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ مکمل تباہی کا ایجنڈا ہے۔
آصف زرداری آئندہ الیکشنوں میں جیت کے لئے جس "انجینئرنگ" کا منصوبہ بنا رہے ہیں، حالات ایسے ہیں کہ شاید کسی کو بھی اس کی "الف بے" تک تحریر کرنے کی بھی مہلت نہ مل سکے۔ زرداری صاحب کا خیال ہے کہ سندھ ان کے لئے ایک محفوظ قلعہ ہے، یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ جب ہجوم کا غصہ ملکی سطح پر طوفان بنتا ہے تو پھر کسی کا گھر سلامت نہیں رہتا۔ انہیں اندازہ ہونا چاہئے کہ اس ملک کا سب سے کُچلا ہوا، مجبور اور مقہور طبقہ تو سندھ میں رہتا ہے اور عوام کے اجتماعی غصے کے لئے انہیں کہیں دُور نہیں جانا پڑے گا۔
وڈیرے کا گھر اور اس کے ڈیرے کی منڈھیریں سامنے نظر آ رہی ہوں گی۔ مریم نواز کو جس طرح اپنی بساط اُلٹتی محسوس ہوئی اور عوام کے ردّعمل نے ان کے ہوش و حواس معطل کر دیئے اور وہ صوابی کے جلسے میں بِلبلا پڑیں کہ "ہمیں عمران خان کی حکومت کی نااہلی کا بوجھ نہیں اُٹھانا"۔ جوں جوں وقت گزرے گا، شہباز شریف حکومت کی نااہلی واضح ہوتی جائے گی تو مریم نواز اور نون لیگ کے اضطراب میں اضافہ ہو گا۔
بلوچستان کا علیحدگی پسند طبقہ اور خیبر پختونخواہ کا اسٹیبلشمنٹ سے لڑتا ہوا قبائلی علاقہ، خاموشی سے وقت کے انتظار میں ہے۔ کراچی میں مضطرب، بے چین اور احتجاجی ہجوم، اور دس اپریل کو پاکستان کے طول و عرض میں ایک دَم نکلنے والے لوگ جن کے غصے میں اب دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اس ہجوم کو اگر مزید چند ہفتے اسی طرح بے یقینی کا شکار رکھا گیا اور ایسے قوانین منظور کرنے کی کوشش کی گئی جن سے انہیں اندازہ ہونے لگا کہ الیکشن چرائے جانے والے ہیں یا نیب قوانین کے تحت ان لوگوں پر گرفت ڈھیلی ہونے والی ہے، جن لیڈروں سے متعلق "سرے محل، مسٹر ٹین پرسنٹ، ایوان فیلڈ" وغیرہ جیسے الزامات مشہور ہیں، تو پھر جو اضطراب اس قوم کو گھیرے گا، وہ ایسا دُھواں بن جائے گا جس میں غصے کی چنگاریاں رقص کر رہی ہوں گی۔ ان کی زد میں جو آئے گا بھسم ہو جائے گا۔
جن ملکوں اور معاشروں پر ایسا وقت آیا، انہیں نہ کوئی میڈیا بچا سکا اور نہ میڈیا پر بولنے کی پابندی، کسی قسم کی نفرت میں کمی کر سکی۔ مجھے خوف اس بات سے آ رہا ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیاں جنہوں نے مخصوص اشاروں پر یہ کھیل کھیلنے کے لئے عصر کے وقت روزہ کھولا ہے اور عمران حکومت برطرف کی، ان میں سے تین بڑی پارٹیوں کے رہنمائوں کو ابھی بھی یقین ہے اور وہ عوام میں یہ گفتگو عام کرتے نظر آتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ تھوڑی دیر میں مختلف طریقوں سے عمران خان کا سیاسی باب بند کر دے گی اور پھر اگلے الیکشنوں میں ان کے لئے میدان صاف ہو گا۔
اداروں کو اپنے خلاف پراپیگنڈے سے روکنے سے زیادہ اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آئندہ الیکشنوں سے پہلے عمران خان کا قلع قمع کرنے والی ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ڈر اس بات کا ہے کہ کل بگڑے ہوئے حالات سنبھالنے کے لئے کوئی شخص ان اداروں پر بھی اعتماد نہیں کرے گا اور پھر ایسی صورت میں صرف انارکی پھیلتی ہے جس کی کوکھ سے یا تو کوئی نپولین جنم لیتا ہے یا خمینی۔
ان دونوں کے اقتدار میں آنے کے بعد جو لوگ نشانہ بنے ان کی صرف فہرستیں اُٹھا کر دیکھ لیں۔ کیا ہم ایسی صورتِ حال کے متحمل ہو سکتے ہیں۔