تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ اس نے کبھی بھی بزدل انسانوں یا بزدل اقوام کو یاد نہیں رکھا۔ بزدل اقوام کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں نہ تو اپنے عہد میں عزت و تکریم میسر آتی ہے اور نہ ہی بعد میں آنے والی نسلیں انہیں کسی اچھے نام سے یاد کرتی ہیں۔ ایک بزدل شخص اپنے اردگرد سونے چاندی کے پہاڑ بھی بلند کر لے، مگر اس کے باوجود وہ جگہ جگہ اپنی عافیت، خیریت اور زندگی کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔
طاقتوروں کی بھتہ دینے والی کاروباری شخصیات سے دنیا بھری ہوئی ہے۔ تاریخ میں ان اقوام کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں جو معاشی طور پر بہت مستحکم اور خوشحال تھیں مگر چھوٹے چھوٹے خانہ بدوش گروہوں یا مختصر سی اقوام جن کے سروں میں بے خوفی کا سودا سمایا ہوا تھا، دندناتے ہوئے آئیں اور انہوں نے معاشی طور پر خوشحال مگر بزدل اقوام کو اپنا محکوم بنا لیا۔ دُور کیوں جاتے ہو، برصغیر پاک و ہند اس کی واضح مثال ہے۔
جس دَور میں ہندوستان پر یورپ کی اقوام بھوکے بھیڑیوں کی طرح چڑھ دوڑی تھیں، یہ وہ زمانہ تھا، جب دُنیا ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہتی تھی۔ مشہور برطانوی معاشی مؤرخ اینگس میڈیسن (Angus Maddison) لکھتا ہے کہ "مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہدِ حکومت میں دُنیا بھر کی معیشت میں ہندوستان کا حصہ 27 فیصد تھا اور اس کا خزانہ سالانہ دس کروڑ پاؤنڈ مالیت کے ٹیکس وصول کرتا تھا"۔
اس خوشحالی کے ساتھ آزادی اور خودمختاری کو قائم رکھنے میں اورنگ زیب کی جرأت اور بہادری کا بہت حصہ تھا۔ مگر صرف پینسٹھ سال بعد 1765ء میں شاہ عالم ثانی کی بزدلی نے مغل حکومت کو اس مقام پر لا گرایا، کہ ہندو توا کے نام پر اُٹھنے والے مرہٹوں نے پورے ہندوستان پر عملاً اپنی حکومت قائم کر لی اور بادشاہ اپنے محل تک محدود ہو کر رہ گیا۔ ان دنوں دِلّی میں یہ محاورہ زبان زدِ عام تھا "سلطنتِ شاہ عالم۔ از دِلّی تا پالم"۔ یعنی شاہ عالم کی حکومت، دِلّی سے پالم تک ہے۔ پالم وہ جگہ ہے جہاں ان دنوں دِلّی ایئر پورٹ ہے۔
ایک سر پھرا نوجوان جو روہیل کھنڈ کے حاکم ضابطہ خان کا بیٹا تھا، مرہٹے اسے پورے خاندان سمیت پکڑ کر لائے اور بادشاہ کے حوالے کر دیا۔ شاہ عالم نے اسے خصی کروا کر زنانہ کپڑے پہننے کا حکم دیا کہ وہ ایک مجبور قیدی کے ساتھ یہی کچھ کر سکتا تھا۔ مگر پھر یہی مجبور قیدی جس میں خوئے غلامی سے آزادی کی تڑپ تھی، وہ اُٹھا اور ایک دن اس "بہادر" نے بادشاہ شاہ عالم کو سپاہ کی موجودگی میں سرِدربار پکڑا اور خنجر سے اس کی آنکھیں نکال دیں۔ تیمور کی اولاد کے اس بزدل بادشاہ کا اقبالؒ نے نوحہ یوں لکھا تھا:
مگر یہ راز آخری کُھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
غلام قادر روہیلہ نے شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکالنے کے بعد محل میں موجود مغل شاہزادیوں کو بلایا اور انہیں دربار میں رقص کا حکم دیا۔ رقص سے لُطف اندوز ہونے کے بعد وہ ایک سمت کو جا کر مسند پر لیٹ گیا اور اپنا خنجر نکال کر سینے پر رکھ لیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ لوگ یہ محسوس کریں کہ وہ سو رہا ہے۔ وہ بہت دیر تک ایسے ہی لیٹا رہا اور پھر اُٹھا اور دربار سے مخاطب ہو کر بولا، اے آلِ تیمور، میرا اس درباری مسند پر سو جانا تو ایک بناوٹ تھی۔ میرا مقصد یہ تھا کہ شاید کوئی تیمور کی بیٹی مجھے غافل سمجھ کر میرے ہی خنجر سے مجھے مار ڈالے۔ اے آلِ تیمور تمہیں اپنے مقدر سے شکایت نہیں کرنی چاہئے۔ تمہاری بزدلی نے آج تمہیں یہ دن دکھائے ہیں۔
بزدلی اتنا بڑا عیب ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اسے اہم ترین رذائل، یعنی بدترین خصلتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سید الانبیاء ﷺ کی تلوار جسے آپ نے میدانِ احد میں حضرت ابودجانہ کو لڑنے کیلئے دیا تھا، اس پر یہ شعر کندہ تھا۔
فی الْجُبْنِ عَار، وفی الاقبالِ مَکْرُمَۃٌ
وَاْلمزء بالجبنِ، لَا یَنجُوْ مِنَ الْقَدَرْ
ترجمہ: "بزدلی عیب و شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے۔ آدمی جتنی بھی بزدلی چاہے کر لے، تقدیر سے نہیں بچ سکتا"۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، "انسان میں بدترین خصلتیں یہ ہیں کہ وہ ہر وقت مال کی حرص میں گُھلتا رہے اور بزدلی کی وجہ سے ہر وقت اُکھڑا اور گھبرایا ہوا رہے"(سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد)۔ اس حدیث مبارکہ میں مال کی محبت اور بزدلی کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مال کی محبت ہی تو ہے جو بزدلی کی نشوونما کرتی ہے۔ یہی مال کی محبت ہے، جس کی مذمت قرآن پاک کی لاتعداد آیات میں آئی ہے، مثلاً "بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا اور غیبت کرنے والا ہو اور جو مال کو جمع کرتا جائے اور گن گن کر رکھے"(سورۃالھمزہ: 2,1)۔
تاریخ کے صفحات اس بات پر بھی شاہد ہیں کہ مال و دولت کی محبت اور حرص میں جکڑی ہوئی بزدل اقوام کیساتھ بار بار ایسا بدترین اور ذِلّت آمیز سلوک ہوا کہ ان پر دُنیا کے اُجڈ، گنوار اور خونخوار قبائل چڑھ دوڑے اور انہیں ذِلّت و رُسوائی کے ساتھ محکوم بنا لیا۔ چین ایک زمانے میں اپنی تجارت، صنعت و حرفت اور نظامِ حکومت کی وجہ سے ایک بہت بڑی معاشی قوت تھا، مگر چینی قوم جو عمومی طور پر تجارت پیشہ تھی اس کی بزدلی کا عالم یہ تھا کہ حملہ آوروں سے میدانِ جنگ میں لڑنے کی بجائے انہوں نے ان سے بچنے کیلئے ایک بہت بڑی فصیل یعنی "دیوارِ چین" بنا رکھی تھی، مگر اپنے وقت کی اس عظیم معاشی طاقت چین کو چھوٹے سے خطے منگولیا سے اُٹھنے والی منگول قوت نے چنگیز خان کی سربراہی میں دو بار تاخت و تاراج کیا اور آخر کار 1260ء میں قبلائی خان نے وہاں اپنی مستقل حکومت بھی قائم کر لی۔
قدیم روم کی بادشاہت جو تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی جب انکے ہاں دولت کی حرص، عیش و عشرت کی طلب اور بزدلی نے گھر کر لیا، تو شمالی افریقہ کے بربر قبائل کے ایک بہادر اور قابل جرنیل ہینی بال، نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یہ ایسا جرنیل تھا جس نے اپنی بہادری کو دولت کی حرص سے پاک رکھا۔ لُوٹ مار تو دُور کی بات ہے اِس نے کبھی مفتوحہ علاقوں سے تاوان یا خراج بھی وصول نہیں کیا۔ رومن جس "ایلپس" پہاڑ سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ اس پہاڑ کی عبادت کیا کرتے تھے، اسی ایلپس پہاڑ کو "ہنی بال" جیسے بہادر شخص نے سینتیس ہزار پیادہ، آٹھ ہزار گھڑ سوار اور آٹھ سو بڑی بڑی باربردار گاڑیوں کے علاوہ چالیس کے قریب ہاتھیوں سمیت عین برف باری کی شدت میں پندرہ ہزار سات سو اکیس فٹ بلند چوٹی "ماؤنٹ بلانک" کی جانب سے عبور کر لیا۔ تاریخ آج تک اس کی بہادری کی یہ گتھی نہیں سُلجھا سکی کہ یہ معجزہ کیسے ہوگیا۔
پاکستان کے باسیوں کو تو قدیم تاریخ پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کے سامنے حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے۔ اکیسویں صدی نے بہادری اور بزدلی کے دو کردار پیدا کئے۔ ایک کو مال و دولت، معاشی ترقی و خوشحالی سے بہت محبت تھی، جسے پرویز مشرف کہتے ہیں اور دوسرے کو دُنیا کی دولت اور جاہ کی حرص و ہوس سے نفرت تھی، جسے مُلا محمد عمرؒ کہتے ہیں۔ ایک کے دل میں صرف اللہ کا خوف تھا اور دوسرے کے دل میں عالمی طاقتوں یعنی انسانوں کا خوف تھا۔ اللہ انسانوں کے خوف کے بارے میں بتاتا ہے "پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو ایک گروہ انسانوں سے ڈرنے لگا جیسے اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی زیادہ" (النساء77)۔ اللہ کی بجائے انسانوں سے ڈرنے کو اقبالؒ نے شرک کے طور پر بیان کیا ہے:
ہر کہ رمزِ مصطفیٰ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
ترجمہ: "جس نے رسول اکرم ﷺ کی رمز پہچان لی اسے کسی دوسرے انسان کا خوف بھی شرک محسوس ہوتا ہے"۔ بزدلی ایک بدترین خصلت اور بہت ہی بُرا عیب ہے جس کے بارے میں ہادیئی برحق ﷺ نے فرمایا، "جو شخص اس حال میں مرے کہ اس نے جہاد (قتال) کیا ہو اور نہ اس کے دل میں اس کی آرزو ہی پیدا ہوئی ہو تو وہ گویا نفاق کی ایک خصلت پر مرا" (صحیح مسلم، کتاب الامارہ)۔ ایک کے پیش روؤں کو اللہ نے امریکہ پر فتح نصیب اور دوسرے کے پیش رو آج تک ورلڈ بینک کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔
دنیا بھر میں ستاون اسلامی ممالک ہیں جن کے پاس پچاس لاکھ فوج ہے، ایٹم بم سمیت دنیا کا ہر جدید اسلحہ ہے، تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، مگر یہ سب ممالک آج بھی بزدلی کا لبادہ اوڑھے مسلمانوں کو غزہ میں مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان بھی ان سے مختلف نہیں، ایٹمی قوت ہونے کے باوجود مال و دولت کی حرص میں ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، یورپی یونین اور عالمی سرمایہ داروں کے سامنے بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ انکے مطالبات من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم بھوک میں مر جانے کا خوف ہے، جسکی وجہ سے ہم نے ذِلّت میں جینا اور ذِلّت کی موت مرنا پسند کر لیا ہے۔ ہمارے حکمران جو ایٹمی قوت اور طاقت کے مرکز میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی حالت بقول انیس کے اس شعر جیسی ہے جس کا مطلب ہے "گیدڑ کو خلعتِ شاہانہ بھی پہنا دی جائے تو وہ ہمیشہ ڈرتا ہی رہے گا":
آخر شغال تھا نہ دبکنے کی خو گئی
خلعت پہن کے بھی نہ رذالت کی بُو گئی